... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے بعدہندوتوا بھارتیہ جنتا پارٹی نے اجمیر شریف میں مسلمانوں کی ایک اور مقدس درگاہ کی جگہ پر مندر کی تعمیر کیلئے مہم شروع کر دی ہے ، اجمیر کی ایک عدالت نے صوفی بزرگ حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کی شیو مندر کے مقام پر تعمیرکے دعوے سے متعلق درخواست پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور مودی حکومت کو نوٹسز جاری کئے بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ نے آئندہ احکامات تک سروے کو روک دیا ہے۔ ہندوتوا تنظیموں بی جے پی اورآر ایس ایس دانستہ طورپر مسلمانوں کو غیرملکی ثابت کر نے کی کوشش کرر ہی ہیں۔
بھارت بھر میں مسلمانوں کی جائیدادوں اور مذہبی مقامات کو انسداد تجاوزات مہم کی آڑ میں بلڈوز کے ذریعے مسمار کیا جا رہا ہے اور متنازعہ وقف ترمیمی بل بھی مودی حکومت کی اسی مہم کا حصہ عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں دعویٰ کیاگیاہے کہ اجمیر میں صوفی بزرگ معین الدین چشتی کی درگاہ کے اندر شیو مندر موجود ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے ثقافتی ورثے اور مذہبی مقامات پر ہندو انتہاپسندوں کاکنٹرول حاصل کرنا ہے۔ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر ہندوئوں کے قبضے کی پہلی کوشش تھی اور مودی حکومت کے تحت ہندوتوا گروپوں کی طرف سے درگاہ اجمیر شریف کو منہدم کرنے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ہندوتواتنظیموں کی یہ کوشش بھارت کی تاریخ کو دوبارہ تحریر کرنے کی ایک بڑی مہم کا حصہ ہے۔مہم کے تحت ہندوتواگروپ ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کو ظالم قرار دے رہے ہیں۔مودی کے دور حکومت میں بھارت میں مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کو مسلسل خطرہ لاحق ہے۔
اتر پردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد کی سروے کے نتیجے میں پرتشدد واقعات کے چند دنوں بعد اب اجمیر کی مقامی عدالت نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کے سروے کے حکم دیا ہے، جس سے ایک اور تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔اوقاف کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن انعام الرحمان نے کہا کہ یہ نہ صرف نامناسب بلکہ غیرقانونی بھی ہے، ”کیونکہ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئندہ ایسے معاملات اٹھائے نہیں جائیں گے۔ اس طرح کے اقدامات ملک کے لیے ہر طرح سے نقصان دہ ہیں۔” ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کی نوٹس جاری کرنے میں نچلی عدالتوں نے مسابقت شروع کردی ہے۔ اس سے ملک کا امن وامان متاثر ہو رہا ہے، ماحول خراب ہورہا ہے، بھائی چارہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ رکنا چاہیے۔” اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکومت، عدلیہ، مسلمان اور اکثریتی ہندو فرقے میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل راجیو رام چندرن اس نئی صورت حال کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ”فرقہ پرست عناصر نے قدیم مساجد اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ذمہ دار ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شرانگیز مہم کا دروازہ کھول دیا۔ حالانکہ بابری مسجد بنام رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں مذہبی مقامات کے1947 سے پہلے کی حالت برقرار رکھنے کے متعلق قانون کے احترام اور پاسداری پر بڑا زور دیا تھا۔”
اس طرح کے نوٹس جاری کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کے دیرینہ ایجنڈے کا حصہ ہے، ”ہندوتوا تنظیمیں ایک عرصے سے مسجدوں کے بارے میں جھوٹے اور بے بنیاد بیانیے کو پھیلا رہی ہیں۔ ایک اور وجہ مسلمانوں کو نیچا دکھانا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہے۔”
ہندو سینا کے سربراہ وشنو گپتا کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اجمیر کی درگاہ میں ”کاشی اور متھرا” کی طرح ایک مندر موجود ہے، ”برطانوی دور حکومت میں ایک اہم عہدے پر فائز ہربلاس سردا نے 1910 میں اجمیر کی درگاہ میں ایک ہندو مندر کی موجودگی کے بارے میں لکھا تھا۔”اپنی ایک کتاب میں، سردا، جو ایک جج، سیاست دان اور ایک ماہر تعلیم تھے، نے درگاہ کے بارے میں لکھا: ”روایت کہتی ہے کہ تہہ خانے کے اندر ایک مندر میں مہادیو کی مورتی ہے، جس پر ایک برہمن خاندان کی طرف سے جسے درگاہ نے ابھی تک گھڑیالی (گھنٹی بجانے والا) کے طور پر برقرار رکھا ہوا ہے، ہر روز صندل رکھا جاتا تھا۔”
گپتا نے دعویٰ کیا ہے کہ اجمیر(درگاہ) کا ڈھانچہ ہندو اور جین مندروں کو منہدم کرنے کے بعد بنایا گیا تھا، ”اس لیے ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور کم از کم سروے کرایا جائے تاکہ سچائی سامنے آسکے۔ ان کی تنظیم چاہتی ہے کہ درگاہ کو ہندو مندر قرار دیا جائے، ہمیں پوجا کی اجازت دی جائے اور اگر محکمہ آثار قدیمہ نے کوئی رجسٹریشن دیا ہے تو اسے منسوخ کر دیا جائے۔”ہندو سینا کے رہنما کا مزید کہنا ہے کہ چشتی صاحب یہاں پیدا نہیں ہوئے اور وہ یہاں کے نہیں تھے، ”تو، اس سے پہلے یہاں کون تھا؟ پرتھوی راج چوہان اور یہ شہر اجے میرو کے نام سے جانا جاتا تھا۔”
بی جے پی کے زیر اقتدار بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہندو انتہا پسند گروپوں کے ارکان نے حاجی ملنگ درگاہ پر زعفرانی پرچم لہرائے اور ہندوتوا کے نعرے لگائے۔ ضلع تھانے کی ملنگ گڈ پہاڑی پر سالانہ عرس کے موقع پر ہندو انتہا پسندوں کا ایک گروپ نے زعفرانی پرچم لہرا کر جے شری رام کے نعرے لگائے۔ درگاہ کمیٹی نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک درگاہ ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں، اس طرح کی کارروائیاں ناقابل قبول ہیں۔
ہندو انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ یہ جگہ اصل میں ان کی ہے۔ درگاہ اصل میں ایک مندر ہے اور ہمارے آبائو اجداد یہاں پوجا کرتے تھے، ہم اپنے ورثے کو واپس لینا چاہتے ہیں۔ سب سے خطرناک پہلو پس منظر میں کھڑے ایک پولیس افسر کی موجودگی ہے جو بغیر کسی کارروائی کے تماشا دیکھ رہا ہے۔