وجود

... loading ...

وجود

لاشوں کی فصل

هفته 22 فروری 2025 لاشوں کی فصل

ب نقاب/ ایم ۔آر ملک

لفظوں سے راکھ اڑنے لگی ہے اور وقت کی بے رحم گھڑیاںہمارا مقدر ہوگئیں ہیں۔سوچیں پا بہ جولاں ہیں کہ ہمارے آلام کو دہشت گرد سہارا دے رہے ہیں وحشتوں کا رقص ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا ۔کیا پر کیف دھڑکنوں کی جگہ اب ہماری سماعت چیخ و پکار اور چنگھاڑکی عادی ہو چکی ہے ؟لاشیںاٹھا اٹھا کر اب ہمارے ہاتھ شل ہو چکے ہیں سلیم راہی کہتا ہے مائیںاپنے بچوں کے بستوں میںکفن رکھنے لگی ہیں۔ہم کس دور میں زندہ ہیںمیں اپنے اکثر دکھ روشنیوں کے شہر کے باسی محمد طاہر سے شیئر کرتا ہوںوہ دھرتی کا بیٹا ہے، وہ مجھ سے پورپور زخمی دھرتی کی باتیںکرتا ہے ، جس کا انگ انگ زخموں سے چور ہے!
کسی بھی شہر میںجب معصوم لوگوں پر حملے ہوئے، میں نے طاہر کے چہرے پر اندر کا دکھ دیکھا جوآنکھوں سے آنسوئوں کی صورت چھلکتا ہے اور کرب بن کر چہرے پر خوف کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔منگل کی شب بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے رڑکن میںسات افراد کو نگل گئی۔ کوئٹہ پنجاب قومی شاہراہ، این 70 پر مسلح افراد نے ناکہ لگا کر کوئٹہ سے فیصل آباد جانے والی بس سے شناختی کارڈ دیکھ کر 7 مسافروں کو اتارا اور پہاڑوں میں لے جاکران کو سانسوں سے آزاد کر دیا۔یہ پہلا واقعہ نہیں!!
وطن کے لوگو!
کیا ایسا نہیںکہ ہم اپنے وجود کو کھوجنے کی دھن میں اپنے بدن کی سیاہ گہرائیوں میں اترتے جا رہے ہیں،مقید ہوتے جا رہے ہیں !کبھی امن قائم کرنے کی شکل میںآپریشن اور کبھی پریس ریلیز جاری کرکے کہ امن کے دشمنوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے کاہمیںلولی پاپ دے کر بہلایاجا رہا ہے اندھیروں کی اس قید سے نکلنا اب شاید ممکن نہیں رہا ۔حکمران کہتے ہیں بہت سی مجبوریاں ہیںیا مجبوریوں کا ایک حصار ہے ،مگر لہو لہو دھرتی کے جسم کے اندھیروں کی بھوک اب ہم سے روشنی مانگتی ہے، بعض دکھ اتنے خاموش ہوتے ہیں کہ انسان رو رہا ہوتا ہے اسے پتا بھی نہیں چلتا سطرسطر آہٹیں اتر تی ہیں اب ہم دل کے محتاج نہیں رہے اس کی بادشاہی سے اب ہم نے نجات حاصل کرلی ہے، ہمارایہ عالم ہے ہر سانس کے ساتھ خیرات مانگتے ہیں،اک بے حسی ہر احساس پر طاری کر لی ہے، سانسوں سے اب وحشت ہونے لگی ہے۔
لمحے پرائے ہورہے ہیںاور وطن عزیز میں زندگی کی بیڑی لاشوں سے بھری جارہی ہے، رگ رگ میں لہو کی جگہ پارا سا تڑپتا محسوس ہوتا ہے ، خیالات سلگ رہے ہیں،حساس لوگ زندہ ہیں تو ایسے جیسے جسم سے روح نکل جائے۔ دل کا آئینہ کرچی کرچی ہواور خود کو سمیٹتے ہوئے ہاتھ لہو لہان ہوجائیں۔آرزو امید امنگ کے کینوس پر بنا ہر منظر کہر آلود ہورہا ہے اور اسے اجالنے کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہے ۔ہر حکمران پرانے وعدوئوں کی لاش پر بیٹھ کر نیا وعدہ کرتا ہے، لاشوں کا کاروبار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے،نوجوان وطن عزیز سے فرار کے رستے ڈھونڈتا سمندری طغیانی میں گم ہورہا ہے ، نو عمر ناپاک روحوں کے کاروبار کا ایندھن بن رہے ہیں ،درس گاہوں سے اچاٹ نو عمرصورتیںہیںجنہیں دیکھ کر دل میں اک ہول اٹھتا ہے، اک دعا ہونٹوں پہ مچلتی ہے، اِک دُعا دل میں ہلکورے لیتی ہے ۔ ماضی کی دھندلی سکرین پرکئی شہروں میں خود کش حملوں میں نو عمروں کے سر ملے !
اے وطن کے باسیو!
ہاتھ اٹھائو کہ پھر کوئی انسانیت دشمنوں کے منصوبوں کی بھینٹ نہ چڑھے ،روزگار کی خاطر گھر کی دہلیز پار کرنے والے کی کسی ماںکے ہونٹوں پہ دھری آگ نہ دیکھ سکیں،کسی نوجوان کے مستقبل کو مسمار ہوتا محسوس نہ کریں،دکھی کرنے والا کوئی معمار وطن دھواںدھواںنہ ہو۔
ہم ان کو کتابیں پڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو ریاضی دان ،سائینسدان بنتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو خودکش جیکٹیں پہننے کی بجائے سفید یونیفارم میں ملبوس دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو قائد اعظم کا تعلیمی مقصد بنانا چاہتے ہیں کہ ان کی سوچیں اور خیال کچے دھاگوں کی طرح ہیںجو الجھ جائیں تو ٹوٹ جاتے ہیں ۔
امریکیت کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے سمجھوتے کی کرچیوں سے لہو لہودل اور آنکھیں اشک بار ہیں ۔امر یکیت کے ساتھ برسوں کا یہ تعلق اب بوجھ بن گیا ہے جب تعلق بوجھ بن جائے تواس کا ٹوٹنا نوشتہ دیوار ہوا کرتا ہے کچھ درد اور جذبے ایسے ہوتے ہیں جن کے اظہارکے لیے الفاظ کھو سے جاتے ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ اب اس تعلق کی بے گور وکفن لاش کو گھسیٹتے پھرنا عوامی جذبوں کی توہین ہے کل ہم نے امریکیت کی جنگ افغان سر زمین پر لڑی اور روس کو پاش پاش کرنے کا کارنامہ سر انجام دیاآج اسی کی جنگ ہم اپنی سر زمین پر لڑ رہے ہیں ۔کل کے مجاہد آج کے دہشت گرد ہیں اس اختراع کا پس منظرمشرف سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک کسی نے نہیں کھوجا اپنے ازلی آقا سے یہ پوچھنے کی جسارت کسی نے نہیں کی کہ یہ دہشت گرد کل روس کے خلاف کس نے پیدا کیے اور کون ان کا ہر اوّل بنا ؟
آنکھوں کے چراغ کون لے گیاکہ منزلوں کا نشان گم ہورہا ہے ۔انسانیت بین کرتی سر بازار آگئی ہے ۔صحن وطن میں بارود کی جو فصل امریکہ نے بوئی اسے کاٹتے کاٹتے جانیں کتنے بے گناہ معصوم لوگ اور ہمار ے لیڈر تہہ خاک ہوجائیں گے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
لاشوں کی فصل وجود هفته 22 فروری 2025
لاشوں کی فصل

ملک اور اقتدار بچانے کا مشورہ وجود هفته 22 فروری 2025
ملک اور اقتدار بچانے کا مشورہ

مندر کے قریب مسلم خاندانوں کا جبری انخلائ وجود هفته 22 فروری 2025
مندر کے قریب مسلم خاندانوں کا جبری انخلائ

منی پور:پیاز کی زحمت، جوتے سے ذلت وجود جمعه 21 فروری 2025
منی پور:پیاز کی زحمت، جوتے سے ذلت

بھارت میں لو جہاد کا نیاقانون وجود جمعه 21 فروری 2025
بھارت میں لو جہاد کا نیاقانون

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر