وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال

اتوار 16 فروری 2025 بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال

ریاض احمدچودھری

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ این آر سی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔ریاست آسام میں این آر سی کی آخری فہرست جاری کی گئی جس کے بعد 19 لاکھ لوگوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ گیا کیونکہ ان کا نام شہریوں کی فہرست میں نہیں ہیں۔پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا لیکن جب پورے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج تیز ہوئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمان میں بیان دیا کہ حکومت کا فی الحال پورے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں نفرت کی دیواریں تعمیر کررہی ہیں۔ بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی کوششوں اور کاوشوں کو دنیا کی کوئی طاقت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ بھارتی مسلمان بڑے صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حالانکہ ان سے ان کی ترقی اور پیشرفت کے اسباب کو سلب کرنے کی تلاش کی جاری ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔بھارت میں بی جے پی کے پہلے اقتدار سے ہی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔گزشتہ برسوںکی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات کے ہندوؤں، مسیحوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سینکڑوں برس حکمران بھی رہے۔تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماؤں میں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو ہی 1948 میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو ” غدار” قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو قراردیا جارہا ہے۔
مودی کے بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں انتہائی غیر محفوظ ہیں ۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی حکومت ملک میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا نام و نشانہ مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں خوف کی ایک مستقل حالت میں زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے اقلیتوں کو روز نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہندو غنڈے مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر رہے ہیں ، مساجد اور گرجا گھروں کونشانہ بناتے ہیں۔بی جے پی 2014میں برسراقتدار آئی تو اس نے اب تک ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانو ں، عیسائیوں ، سکھوں کو نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں حق خود اردیت کی منصفانہ جدوجہد میں مصروف کشمیریوں کے خلاف بھی مظالم میں تیزی لائی اور 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی چھین لی۔ کشمیری مسلمانوں کو بی جے پی حکومت کی طرف سے نسل کشی کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں پر وحشیانہ مظالم اور بھارت میں اقلیتوں پر مسلسل حملے عالمی برادری کیلئے ایک چیلنج ہیں ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارتی اقلیتوں او ر کشمیری مسلمانوں کو مودی حکومت کے جبر سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔
نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کی زندگیوں میں ایک ہنگامہ خیز سفر کا آغاز ہوا ہے۔ہندو مشتعل ہجوم نے گائے کے گوشت کا کاروبار کرنے کے شبے میں متعدد افراد کو مارا پیٹا اور چھوٹے مسلمان تاجروں کو نشانہ بنایا ہے۔ مساجد کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ ٹرولز نے مسلم خواتین کی آن لائن ‘نیلامیوں’ کا اہتمام کیا ہے۔دائیں بازو کے گروپس اور ‘مین سٹریم’ میڈیا نے ‘جہاد’، ‘لو جہاد’ کے الزامات لگا کر اسلاموفوبیا کو ہوا دی ہے۔ مسلمان مردوں پر ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے مذہب تبدیلی کے جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔اور مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر میں اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے تین چوتھائی واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں سے سامنے آئے ہیں۔
مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں، اپنے ہی ملک میں نظروں سے اوجھل اقلیت ہیں۔لیکن بی جے پی اور وزیراعظم مودی اس بات سے انکاری ہیں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ یہ محض چند لوگوں کے مسائل ہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول سے نکل کر دوسرے لوگوں سے ملنے تک کی زحمت نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی اقلیتیں بھی اب اس بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔
آگرہ میں پانچویں نسل سے رہائش پذیر ماحولیاتی کارکن ارم نے بھی مقامی سکولوں میں کام کرتے ہوئے شہر کے بچوں کے درمیان گفتگو میں تبدیلی رونما ہوتے دیکھی ہے۔ انھوں نے ایک بچے کو ایک مسلمان ہم جماعت کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ‘مجھ سے بات مت کرو، میری ماں نے مجھے کہا ہے کہ (تم سے بات) نہ کروں۔’یہ صرف بچوں کی حد تک ہی نہیں ہے۔ آگرہ کے ایک مقامی صحافی سراج قریشی بین المذاہب پر کام کرتے ہیں۔ مگر اب وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ختم ہوتے پرانے تعلق پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کے ظلم و ستم پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشکلات کی شکار اقلیتوں کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ نوجوان، خواتین، بیمار، مشکلات میں گھرے افراد کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ باعزت زندگی کے لیے معاشروں میں نیا عمرانی معاہدہ ناگزیر ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں نوجوان باوقار انداز سے رہ سکیں اور جس میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع میسر ہوں۔ ایسا معاشرہ جہاں بیمار، مشکل میں پھنسے اور تمام اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو۔


متعلقہ خبریں


مضامین
منی پور:پیاز کی زحمت، جوتے سے ذلت وجود جمعه 21 فروری 2025
منی پور:پیاز کی زحمت، جوتے سے ذلت

بھارت میں لو جہاد کا نیاقانون وجود جمعه 21 فروری 2025
بھارت میں لو جہاد کا نیاقانون

مرتضیٰ جتوئی کو ہتھکڑی ؟ وجود جمعه 21 فروری 2025
مرتضیٰ جتوئی کو ہتھکڑی ؟

دیوئوں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی وجود جمعه 21 فروری 2025
دیوئوں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی

بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ہے وجود جمعرات 20 فروری 2025
بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ہے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر