وجود

... loading ...

وجود

امریکہ کی معیشت بکھر کے رہ جائے گی!

جمعه 07 فروری 2025 امریکہ کی معیشت بکھر کے رہ جائے گی!

جاوید محمود

امریکہ کی بنیاد امیگرنٹ نے رکھی۔ یہی وجہ ہے امریکہ کو لینڈ آف امیگرینٹ کہا جاتا ہے ۔امریکہ کا کوئی بھی صدر ہو یا سیاستدان اس کی کڑی کہیں نہ کہیں جا کرامیگرنٹ سے ملتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دادا فیڈرک ہجرت کر کے 1885میں نیویارک آئے تھے جبکہ ان کی بہن ایک سال پہلے نیویارک پہنچ چکی تھی ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ میں فلک بوس عمارتیں اور ہائی ویزکے پھیلے ہوئے جال میں امیگرنٹ کا خون اورپسینہ شامل ہے ۔آج امریکہ کی جو شان و شوکت ہے، اس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے امیگرینٹ کی صلاحیتوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی ایسی امیگرنٹ پالیسی اپنائی جس کی وجہ سے تارکین وطن میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے ہی روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن سے متعلق بات کرتے ہوئے امریکہ میں ان کی موجودگی کو حملہ قرار دیا۔ کوئی ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ پوچھے کہ کیا اپ کے دادا اور والد جو امریکہ آئے تھے، ان کا شمار بھی آپ ان لوگوں میں کرتے ہیں کہ وہ بھی امریکہ کے لیے خطرہ تھے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ فرض کیجئے کہ تارکین وطن کو امریکہ سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا جاتا ہے تو امریکہ کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور یہ واضح طور پر سکڑ جائے گی ۔
2023میں امریکہ میں تارکین وطن یعنی وہ افراد جن کی پیدائش کا ملک امریکہ نہیں ہے کی آبادی لگ بھگ چار کروڑ 80لاکھ کی ریکارڈ سطح پر سے زیادہ تھی جو امریکہ کی مجموعی آبادی کا 14.3 فیصد ہے ۔ان میں سے ایک کروڑ 80لاکھ تارکین وطن کا تعلق میکسیکو سے ہے ۔ اس کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے جس کے امریکہ میں تارکین وطن افراد کی تعداد 29لاکھ جبکہ چین 25لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح امریکہ کو بھی عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صحت اور دیکھ بھال کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور کام کرنے کے قابل افراد یعنی کم عمر لوگوں کی کمی شامل ہے ۔کانگریس کی پیشن گوئیوں کے مطابق 2040 میں امریکہ میں شرح اموات شرح پیدائش سے زیادہ ہوگی اور ایسی صورتحال میں آبادی میں اضافے کا واحد ذریعہ امیگریشن ہی ہوگا ۔یعنی دوسرے ممالک سے لوگ ا کر یہاں بسیں اور آبادی کا تناسب برقرار رکھیں۔ نتیجتاً کچھ ماہرین اقتصادیات اور امیگریشن کے حامی گروپوں کا کہنا ہے کہ معیشت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امیگریشن کو بڑھانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ خاص طور پر امریکہ کے دیہی علاقوں میں بوسٹن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق اگر آپ تارکین وطن کو مکمل طور پر امریکہ سے نکال دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فی کس جی ڈی پی میں 5سے 10فیصد کمی کی بات کر رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ فی کس دولت میں کمی آئے گی اور کم لوگوں کی وجہ سے مجموعی جی ڈی پی بہت کم ہو جائے گی ۔ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امیگریشن کی وجہ سے معاشرے میں جدت میں اضافہ ہوتا ہے جو پیداواری صلاحیت کے فروغ کا باعث بنتا ہے ۔لہٰذا یہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ امریکی معیشت کی مجموعی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ تارکین وطن کا کام کرنے کی عمر میں ہونا بھی اہم ہوتا ہے ۔ایک سرکاری ادارے بیورو آف لیبراسٹیٹسٹکس کے مطابق اگرچہ تارکین وطن امریکی آبادی کا تقریبا 14 فیصد ہیں لیکن وہ انفرادی قوت کا تقریبا 19فیصد بنتے ہیں ۔امریکہ میں چند معاشی شعبوں جیسا کہ زراعت کا انحصار خاص طور پر تارکین وطن مزدوروں پر ہے۔ امریکی محکمہ افرادی قوت کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں زرعی مزدوروں میں سے 70فیصد تارکین وطن ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جن کے پاس ضروری دستاویزات بھی نہیں ہے۔ امیگریشن کی حمایت کرنے والے گروپ امریکن امیگریشن کونسل کے ریسرچ ڈائریکٹر ناندو کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی وجہ سے بہت سے فارم مالکان کو فصلیں اُگانے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت اور کٹائی اور انہیں مارکیٹ تک پہنچانے کے عمل میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اے آئی سی کے تجزیے کے مطابق 2022میں تارکین وطن گھرانوں نے تقریبا 580ارب ڈالر کی ادائیگی کی جو امریکہ میں جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا چھٹا حصہ ہے۔ پیو ریسرچ سینٹرتھنک ٹینک کے تجزیے کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن امریکہ میں بسنے والے کل تارکین وطن آبادی کا تقریبا 23فیصد ہیں۔ تقریبا ًایک کروڑ 10 لاکھ جن میں سے 40لاکھ کا تعلق میکسیکو سے ہے۔ انسٹیٹیوٹ ان ٹیکسیشن اینڈ اکنامک پالیسی کی ایک تحقیق کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن نے 2022میں وفاقی ریاستی اور مقامی ٹیکسوں کی مد میں تقریبا 100ارب ڈالر ادا کیے۔ اگر امریکہ کی حالیہ تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تارکین وطن یا ان کے بچوں کی ایک بڑی تعداد اگے چل کر معروف کاروباری افراد بنی ہے۔ آمدنی کے لحاظ سے 500سب سے بڑی امریکی کمپنیوں کی سالانہ فہرست فورچون 500 کا تقریبا 45 فیصد تارکین وطن یا ان کے بچوں کی طرف سے قائم کیا گیا تھا اورتارکین وطن نے 55فیصد امریکی اسٹارٹ اپس قائم کیے ہیں جن کی مالیت ایک ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ تارکین وطن نے عالمی تیکنیکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور ان میں سے بہت سے ابتدائی طور پر بین الاقوامی طالب علموں کے طور پر امریکہ آئے تھے۔ ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز کے مطابق 2022 سے 2023 کے تعلیمی سال میں 10لاکھ سے زائد بین الاقوامی طالب علموں نے امریکی معیشت میں 40 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا اور ٹیوشن اور رہائش کے اخراجات کے ذریعے 3لاکھ 68 ہزار سے زائد ملازمت کے مواقع پیدا کیے۔ امریکی معیشت میں تارکین وطن کے کردار کے باوجود جولائی 2024کے گیلپ سروے میں یہ سامنے آیا ہے کہ 55فیصد امریکی امیگریشن میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے امریکی معاشرے میں ایک وسیع تر سیاسی اتفاق رائے ہے کہ نقل مکانی پر کنٹرول کو سخت کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر میکسیکو سے معیشت میں تارکین وطن کے کردار اور آبادیاتی تنزلی پر بات کرنے کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ لوگ اکثر امیگریشن کے بارے میں جنوبی سرحد سے تارکین وطن کی آمد کو سیلاب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حد سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکن کی اکثریت اس سے اتفاق کرتی ہے کہ امیگرنٹ امریکہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرامیگرنٹ کو ملک سے نکالا اور امریکہ آنے والوں پر پابندی عائد کی تو امکان یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت بکھر کے رہ جائے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
آفاق احمد اور ایم کیو ایم کا مسئلہ وجود جمعه 14 مارچ 2025
آفاق احمد اور ایم کیو ایم کا مسئلہ

امریکہ اور ایران کی یہ جگل بندی کیا گُل کھلائے گی ؟ وجود جمعه 14 مارچ 2025
امریکہ اور ایران کی یہ جگل بندی کیا گُل کھلائے گی ؟

فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟

مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت وجود جمعرات 13 مارچ 2025
مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت

حقوق العباد اور حقیقی توبہ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
حقوق العباد اور حقیقی توبہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر