... loading ...
عماد بزدار
فیصل واوڈا کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں وہ اعتراف کر رہے تھے کہ ”یہ قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے ”۔کم از کم مجھے ان کی یہ صاف گوئی پسند آئی کہ اس نظام کے ایک اہم ترین مہرے نے خود یہ تسلیم کر لیا جو ہم کب سے کہہ رہے ہیں، مگر ہماری سنتا کون ہے ؟ اب شہہ کے مصاحب کی زبانی یہ سن کر تسلی ہوئی کہ جو ہم محسوس کر رہے تھے ، وہی حقیقت ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ قائداعظم کا پاکستان نہیں تو پھر کس کا پاکستان ہے ؟
ہم نے ہمیشہ سنا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ، ایک ایسا ملک جس کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو آزادی دینا تھا، جہاں عدل و انصاف ہو، جہاں سیاست عوام کی خدمت کے لیے ہو، نہ کہ چند خاندانوں کی وراثت۔ مگر کیا یہ سب حقیقت میں موجود ہے ؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ہر وہ شخص جو اس استحصالی نظام کے خلاف کھڑا ہوا، باغی کیوں قرار پایا؟ اگر یہ قائداعظم کا پاکستان ہے تو پھر یہاں عوام کے حق میں بولنے والا ہمیشہ غدار کیوں کہلاتا ہے ؟
یہ سوالات کسی ایک فرد یا جماعت تک محدود نہیں، بلکہ پورے نظام پر ایک چارج شیٹ ہیں۔ آج جب عمران خان کو ریاستی طاقت سے کچلا جا رہا ہے ، جب مزاحمت کو دبانے کے لیے ہر غیر جمہوری ہتھکنڈہ استعمال ہو رہا ہے ، تو کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں؟
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قائداعظم اور اقبال خود کیسا پاکستان چاہتے تھے ؟اقبال نے 1937 میں جناح کو لکھے گئے خطوط میں جو کچھ کہا، اس پر ایک نظر دوڑاتے ہیں:
“نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں، اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے
اعزا اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں، دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی
طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جارہا ہے ۔ مسلمان محسوس کر
رہے ہیں کہ گزشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔”
“اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے ۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے ۔”
اقبال کے خطوط سے ان کی سوچ واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ وہ محض جغرافیائی سرحدوں پر مشتمل ایک ملک نہیں چاہتے تھے ، بلکہ وہ ایک ایسا نظام دیکھنا چاہتے تھے جہاں ہر فرد کا کم از کم معاشی حق محفوظ ہو، جہاں سیاست صرف بالائی طبقات کے مفادات کی نگہبان نہ ہو، اور جہاں اسلامی اصولوں کو سمجھ کر عملی شکل دی جا سکے ۔اب خود جناح کی تقاریر کی روشنی میں ان کی سوچ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے :
“میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہوں گا جنہیں ایک فاسد اور ظالمانہ نظام نے اتنا
بے حس اور خود غرض بنا دیا ہے کہ کسی دلیل یا فہمائش کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عوام کا استحصال ان کے خون
میں سرایت کرچکا ہے اور وہ اسلام کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ لالچ کے باعث یہ لوگ عوام کی بہتری کے
بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی
مشکل سے ملتی ہے ، کیا اسی کا نام تہذیب ہے ؟ کیا پاکستان اسی لیے بنایا جارہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال
جاری رہے ؟ اگر یہی پاکستان کا تصور ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے !”
مدھوکر اپادھیائے اپنی کتاب “آزادی سے پہلے :غلامی کے آخری پچاس دن”میں جناح کے خیالات کو یوں بیان کرتے ہیں:
3 اگست 1947
جناح دہلی میں رہے اور شام کے وقت آکن لک کے پرایئویٹ سیکریٹری کی طرف سے ان کی رہائش گاہ پر دی گئی ایک پارٹی میں شرکت کرکے پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کی۔
آکن لک بھی وہاں موجود تھے ۔ جناح تھوڑی دیر سے پارٹی میں پہنچے تاہم انہوں نے خاصا وقت گزارا۔ جناح واضح طور پر تھکے ہوئے نظر آرہے تھے ، انہوں نے دو قومی نظریئے کا علم بلند کرنے کے حوالے سے سرسید احمد خان کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان کو عظیم ترین اسلامی ریاست بنانے کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی آسان کام نہ ہوگا۔جب کسی نے پاکستان میں فوج کے کردار کے حوالے سے سوال کیا تو جناح غصے میں آگئے ۔ پہلے انہوں نے سرد نگاہوں سے سوال کرنے والے کا سر سے پیر تک جائزہ لیا اور پھر کہا:
“پاکستان میں منتخب حکومت سویلیئنز کی ہوگی اور عوام کی حکومت ہوگی۔ جو کوئی بھی جمہوری اصولوں
کے برعکس سوچ رکھتا ہے ، اسے پاکستان آنے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ۔”
یہ بیان کسی بھی ابہام کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے کہ جناح کسی ایسے پاکستان کے حامی نہیں تھے جہاں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے اور عوام کا خون نچوڑا جاتا رہے ۔ وہ ایک ایسے ملک کے خواہاں تھے جہاں عام آدمی کو بنیادی حقوق ملیں اور جہاں اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے پاس ہو۔
تو پھر یہ کون سا پاکستان ہے ؟
اب جب ہم قائداعظم اور اقبال کے خیالات کو دیکھتے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ان کے خواب کو عملی جامہ پہنایا؟ یا ہم آج بھی اسی جاگیردارانہ اور استحصالی نظام کا حصہ ہیں جس کے خلاف پاکستان بنایا گیا تھا؟اور اگر یہ قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے ، تو پھر یہ کس کا پاکستان ہے ؟
عمران خان نے اپنی ستر سال سے زائد زندگی گزار کر اپنی اننگز کھیل لی، لیکن اصل سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے ۔چھہتر سال میں ہم ویسا پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے جو بنانے والے چاہتے تھے ؟ اگر ہاں، تو عمران خان کو دوش دیں، کہ اس نے غلط بیانی کی، وہ اس ملک کے حالات کے بارے میں غیر ضروری چیخ و پکار کر رہا ہے ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے ، اگر واقعی یہ ملک اس مقصد کے برعکس چلایا جا رہا ہے جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا، تو پھر یہ زندہ لاشوں کا نظام کب تک عوام نامی مخلوق کے کندھوں پر سوار رہے گا؟