وجود

... loading ...

وجود

پن ڈراپ سائلنس

پیر 03 فروری 2025 پن ڈراپ سائلنس

ب نقاب /ایم آر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چہروں سے نقاب اترتے جارہے ہیں ، میڈیا کے خلاف ایک مضحکہ خیزپیکا ایکٹ کی منظوری شہر شہر احتجاج کا سلسلہ کیا سول آمریت کے خلاف جدو جہد کے ایک نئے اور فیصلہ کن مر حلے کا آغاز ہے ۔ کیا آزادی صحافت کے تصور کا وہ دعویٰ دم توڑ چکا جس کا شور جمہوریت کی دعویدار سیاسی قوتوں کی ابتدائی بنیادوں سے اٹھتا رہا اور الیکٹرانک میڈیا پر ملک کے طول و عر ض کی سماعت سے تسلسل کے ساتھ ٹکراتا رہا ؟ کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فورم سے صحافت کے خلاف پاس ہونے والے ایکٹ کو ناکام خواہش قرار دینا مناسب نہیں ہوگا ؟
ہمیں یاد ہے کہ عالمی یوم صحافت پر سابق جنرل سیکریٹری اقوام متحدہ کوفی عنان نے یہ ریمارکس دیے کہ آزادی صحافت صحافی کا وہ حق ہے جس کے لیے لڑا جانا چا ہیے ۔آزادی صحافت انسانی حقوق کا بنیادی عنصر ہے، یہ وہ شے نہیں جو صرف خواہش کرنے سے مل جائے۔ صحافیوں کا کردار ان حکمرانوں کو شرم دلاتا ہے جو قابل اعتراض پالیسیاں بناتے ہیں۔ ایوب دور آمریت میں بھی پریس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مفتوح صحافت کی ضرورت ایوب خان کو بھی محسوس ہوئی جس نے صحافت کی آزادی کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے پی پی او کے نام سے 8ستمبر 1963ء کو کالے قانون کا نفاذ کیا ۔
وقت کے آمر نے اس کالے قانون کے تحت پریس کو پابہ زنجیر کرنے کے لیے انگریز حکمرانوں کو بھی مات دے دی۔جوکام فرنگی نے نہ کیا وہ کام ایک آمر نے انجام دے کر صحافت کو قریب المرگ کرنے کی ناکام کاوش کی ۔صحافتی تنظیموں نے جس طرح آج اس غیر اخلاقی اقدام کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اس وقت بھی ملک کے دونوں بازوں کے کارکن صحافیوں نے اپنی تنظیموں پی ایف یوجے وسی پی این ای کے پلیٹ فارم سے اس قانون کو چیلنج کیا ۔ اور اپنی قرار دادوں میں اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ۔پی ایف یوجے کی اپیل پر ملک بھر میںبھر پور احتجاج دیکھنے کو ملا ۔یہ حقیقت ہے کہ ۔
There will be no Dawn tomorrow.
صحافیوں کے پرزور احتجاج نے ماضی میں بھی آمر وقت کے ارادوں کو متزلزل کردیا۔بالآخرآمریت کو سر نگوں ہونا پڑا۔جس کے ضمن میں 13ستمبر 1963ء کو لاہور اور ڈھاکہ کے گورنروں کی جانب سے پی پی او کے کالے آرڈیننس کے لیے ایک ماہ کے لیے عمل در آمد روک دیاگیا۔1968ء میں جب ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا لاوا اُبلا تو مظاہروں کی کوریج کرنے میں قلمی مجاہد اور کیمرہ مین پیش پیش تھے۔آمریت کے خمار میں ڈوبے ہوئے آمر نے ریاستی پولیس کو مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے خلاف استعمال کیا۔
ایک آمر کے احکامات کی تکمیل میں قلمی مجاہدوں نے تشدد کی انتہا کردی گئی ۔صحافیوں کی اکثریت حکومتی ایجنسیوں اور تشدد کی وجہ سے اپنے اعضاء تڑوا بیٹھی ۔مگر آزادی صحافت کی تاریخ کا کارواں نہ رکا ،بالآخر ایک آمر کو مستعفی ہوکر قصرِ صدارت چھوڑنا پڑا۔مشرف آمریت نے بھی پیمرا آرڈیننس کے ذریعے پریس کی زبان بندی کے ذریعے صحافت کو جھکانا چا ہا ۔ جو ماضی کے آمرانہ ادوار کا تسلسل تھا ۔ مگر میڈیا اور وکلاء نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مشرف کو بھاگنے پر مجبورکردیا۔پنجاب اسمبلی میں پنجاب حکومت کے ہی ایک رکن اسمبلی کی طرف سے میڈیا کے خلاف منظور کی جانے والی قرار داد سول آمریت کی خواہش کا اظہار ہے ۔میاں شبہاز شریف کے دورمیں صحافت کو دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ،قارئین کو ماضی یاد دلانا ضروری ہے جب یہی شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے ایک رکن صوبائی اسمبلی کی طرف سے صحافت کے خلاف ایک قرار داد لائی گئی اور تب پہلی بار یہ ضرب المثل اپنی حقیقی شکل میں نظر آئی کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے ۔میاں شہباز شریف کا کہناتھا کہ انہیں اس قرار داد کا علم ہی نہیں ۔پھر یہ کیسے ہوگیا کہ ان کے ہاتھ پر جس ن لیگ کے رکن اسمبلی نے وفاداری کی بیعت کی۔اُسی رکن اسمبلی نے ان کی موجودگی میں یہ قرار داد منظور کرائی۔اور جب اس قرار داد کا متن پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جارہا تھا ۔تو شہباز شریف چونکہ وہاں موجود تھے ،کیا انہوں نے کھڑے ہوکر اس کی مخالفت یا مذمت کی ؟مگرسانپ گزرنے کے بعد اس کی لکیر پیٹ کر میڈیا کے سامنے سچائی کا ڈرامہ کھیلا گیا ۔ڈیڑھ ماہ قبل ایک صحافی دوست نے کہا تھا کہ عوام یا میڈیا اگر موجودہ فرسودہ نظام کے خلاف اپنے اندر سے کوئی صالح قیادت چاہتے ہیں تو اُ س قیادت کو بھر پور اعتماددیا جائے۔کیونکہ میاں برادران آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی کسی طرح بھی قبولیت نہیں چاہیں گے، یہ بات آج سچ ہے کہ آج میڈیا صنعت کاروں کا آلہ کار ہے اور بڑے بڑے میڈیا ہائوسز پر وہ مافیا قابض ہے جس کا صحافت سے دور دور تک تعلق نظر نہیں آتا۔یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں موجودہ فرسودہ نظام اور اس کے محافظوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر یہ لے پالک میڈیا تبدیلی کی علامت بن کر سامنے آیا ہے جہاں اُ س نے حکمرانوں کے ہر جائز ناجائز اقدام پر تائیدی انداز میں کھڑا ہونے کا فرض نبھایا ۔اور اُسی حکمرانی کے ایک ہرکارے نے میڈیا کے خلاف ایک ایسے فورم پر یہ اقدام اُٹھایاجو عوام کے ووٹوں سے عوامی نمائندگی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اظہار و اشاعت کی آزادی انتہائی اور بنیادی نوعیت کی آزادیوں میں شامل ہے۔ یہ محض صحافتی آزادیاں نہیں بلکہ عوامی حق ہے جسے کسی بھی آمر کو چھیننے کا کوئی اختیار نہیں۔صحافیوں کو ہتھکڑیوں گرفتاریوں اور جیلوں سے ڈرانا اب ممکن نہیں رہا۔عوام کو با خبر رکھنے کی جس آواز کا گلا حکومتی ایوانوںشاہرات اور بازاروں میں گھسی پٹی اور مضحکہ خیز قرار دادوں مقدمات اور جیلوں میں لاٹھی گولی کے ذریعے گھونٹنے کی ناکام کاوشیں کی گئیںاُس آواز نے ہمیشہ مٹنے کی بجائے آمریت کے ایوانوں میں گھس کر ان کی رخصتی کو یقینی بنادیا۔لیگی حکومت کے ایک حکومتی رکن کی طرف سے میڈیا کے خلاف قرار داد کی منظوری مفتو ح صحافت کی ناکام خواہش کا تسلسل ہے۔یہ ابراہم لنکن کا دور نہیں ۔ یہ ابلاغیات کا دور ہے جس کی جدید تکنیک اور ضرورت نے ہر ایک سے اپنی طاقت تسلیم کرائی ۔ابلاغیات خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے نئے معاشی نظام کو متعارف کرایا ۔ مشرف کی رخصتی کے بعد سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کی ۔ اور میاں برادران کی وطن واپسی ممکن ہوسکی۔یہ میڈیا ہی ہے جس نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کوشعلے دیے، استعماری گرفت کو توڑا اور انقلابی شعور کے نئے جزیرے دریافت کیے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
رام مندر سے کمبھ میلے تک:کتنی بار کتنی ہار وجود جمعرات 06 فروری 2025
رام مندر سے کمبھ میلے تک:کتنی بار کتنی ہار

بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر وجود جمعرات 06 فروری 2025
بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر

کشمیر بنے گا پاکستان وجود بدھ 05 فروری 2025
کشمیر بنے گا پاکستان

5 فروری، کشمیریوں کی حمایت کا دن وجود بدھ 05 فروری 2025
5 فروری، کشمیریوں کی حمایت کا دن

تجارتی جنگ اورچین وجود بدھ 05 فروری 2025
تجارتی جنگ اورچین

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر