وجود

... loading ...

وجود

آیا سچائی نام کی چیز وجود رکھتی ہے ؟

هفته 01 فروری 2025 آیا سچائی نام کی چیز وجود رکھتی ہے ؟

آفتاب احمد خانزادہ

ادیب ایرک ہوورکہتا ہے ”وہ آواز (سوچ فکر) جو لوگوں کو ناانصافی (ظلم و زیادتی) کا خاتمہ کیے بغیر صرف صبر برداشت کرنے کا حکم دیتی رہتی ہے، غربت کا معاشی حل نکالے بغیر صرف غربت پر راضی ہوکر صبر کرنے کا درس دیتی رہتی ہے اور ان سارے حالات کو بدلنے کی جدوجہد کیے بغیر صرف ان پر مطمئن رہنے کا حکم دیتی ہے، تو ایسی سوچ فکر آواز افیون ہے۔” ہنرک ابسن انیسویں صدی کا روایت شکن، باغی ، سوسائٹی کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کرنے والا ڈرامہ نگار تھا۔ جارج برنارڈشا اور چیخوف نے اس سے بہت اثر قبول کیا۔ اس کے ڈرامے “A Dolls House” نے ڈرامے کی دنیا میں ہلچل مچادی جب یہ ڈرامہ چھپا تو اس پر بہت اعتراضات ہوئے لیکن پھر اس کے موضوع اور اس کی اہمیت کو سمجھا گیا اور کالجوں اور اسکولوں کے نصاب میں شامل کر دیا گیا اوراسے پہلا حقیقی Feminist Play قرار دے دیا گیا، اس ڈرامے کی اشاعت سے نیچرل موومنٹ کا آغاز ہوا۔ فلم اور ٹی وی والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اس ڈرامے پر کئی بار فلمیں بنیں ۔ ڈراما” گڑیا گھر” ایک شادی شدہ عورت Nora کی کہانی ہے جسے اس کا خاوند Torvala ایک سست، ناکارہ اور کٹھ پتلی عورت سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر ناچتی رہے اس کی اپنی کوئی مرضی نہ ہو۔ اپنے خاوند کے حکم پر چلتی پھرتی نظر آئے ۔ ہنرک ابسن نے اس ڈرامے کے ذریعے سماج میں مردوں کی خود ساختہ حکمرانی کو چیلنج کیا ۔ عورتوں کو ان زنجیروں کو توڑنے کی جرأت عطا کی مصلحت اور منافقت کو بے نقاب کیا ۔ ہم اگر اپنے سماج پر آج باریکی کے ساتھ نظر درڑائیں تو ہمیں اپنا سماج ایک بہت بڑا”Dolls House” نظر آئے گا ۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر شخص میں آ پ کو “Torvala” چھپا ہوا مل جائے گا ۔ وہ “Torvala” آپ کو ایوانوں میں ، آفسوں میں ، محلوں میں ، گھروں میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے اشاروں پر نچوا رہا ہے ۔ اپنے علاوہ سب کوسست ، ناکارہ ، کا ہل ، اور بے عقل انسان سمجھتا ہے ۔ہمارے ملک کے سماج میں ابتداء ہی سے جن وحشت ناک جراثیموں نے جنم لیا۔ ان میں یہ جراثیم سب سے زیادہ طاقتور تھا کہ عام انسان سست، ناکارہ ، کاہل ، بے عقل ہیں اس لیے انہیں بے اختیار اوربے حقوق رکھا جائے۔ اور ساتھ ہی ساتھ بدحال بھی ان کے دل دماغ سے ان کی ہر مرضی ، رضا، خواہش کو نوچ لیا جائے ۔انہیں سوچنے کا کوئی موقع نہ دیا جائے اور انہیں غربت و افلاس ، بیماریوں ، جہالت میں مبتلا کر دیا جائے ۔ ان کے ذہنوں پرباربار یہ سو چ مسلط کرتے رہا جائے کہ تم کمتر، نااہل ، جاہل اور کم عقل ہو اورصرف ہم ہی عقل و دانش رکھتے ہیں صرف ہم ہی اہل ہیں ۔ صرف ہم ہی سمجھ دار ہیں ۔ اور تم اختیار ،حقوق اور خوشحالی کا بوجھ کبھی بھی اٹھا نہیں سکتے ہو۔ اس لیے کبھی بھی ملک پر حکمرانی کرنے کا نہیں سو چنا۔ تم صرف اورصرف کام کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ان جراثیموںنے آہستہ آہستہ تمام ایوانوں، اداروں اور آفسوں پر قبضہ کر لیا عام لوگوں کے لیے صرف معمولی نوکریوں مخصو ص کردی گئیں ۔ اور تمام اعلیٰ عہدوں ، رتبوںاور نوکریوں پر مخصو ص طبقے کے لوگ قابض ہوتے چلے گئے ۔ اس وجہ سے ایک ایسے ٹولے نے جنم لیا جو اشرافیہ کہلاتا ہے ۔ پھر ایک پاکستان سے دوسرے پاکستان نے جنم لیا ۔ دوسرا پاکستان عام پاکستانیوںکا پاکستان تھا ، جہاں ہر قسم کی جہالت ، گند گیا ں ، بیماریاں ، غربت،پریشانیاں اور مصیبتیں تھیں ۔ اس پاکستان سے دوسرے خو شحال ،ہر قسم کی جہالت بد حالی اورگند گیو ں سے پاک پاکستان میں عام لوگوں کاجانا حرام قرار دے دیا گیا ۔ نتیجہ آج آپ سب کے سامنے ہے ۔ ملک کے اصل مالک بدحال ، ہر قسم کی جہالت اورگند گیوں میں غرق آپ کو ہر جگہ کروڑوں کی تعداد میں باآسانی نظر آجائیں گے ۔
سو لہو یں صدی کے شیکسپئر سے کہیں پہلے ، چھٹی صد ی کے بھر تری ہری نے کہا تھا کہ دنیا رنگ بھومی یعنی ڈرامے کا اسٹیج ہے ۔ لیکن یہ بھیدبیسو یں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں سیمو ئیل بیکٹ ، یو جین آئنسیکو، آرتھر ایڈ ا موف کی وساطت سے کھلا کہ دنیا کی اسٹیج پر جوڈرامہ کھیلا جارہاہے وہ اصل میں ابسرڈ ہے ۔ لغو ،معنی ومقصد سے تہی اور مضحکہ خیز ہے بلکہ جس کے بارے میں کوئی رائے دینا اس لیے مشکل ہے کہ رائے ایک معنی ہے اور یہ معنی سے تہی ہے یہ کوئی سیدھے سادے پلاٹ کا ،سادگی سے پیچیدگی اور کلائمیکس کی طرف بڑھتا ڈراما اور کہانی نہیں ہے ۔ اس کی کہانی کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے اور کہیں بھی ختم ہوسکتی یاکبھی ختم نہ ہونے کا اعلان کرسکتی ہے ۔ المیہ اور طربیہ ڈراموں کے برعکس ابسرڈ کہانیوں کے کرداروں کا کوئی ایک چہرہ ہے نہ شروع سے اختتام تک ایک ہی قسم کا کردار ہے ۔ ایک لمحے میں آقا و غلام نظر آنے والے ، اگلے ہی کسی لمحے میں غلام و آقا دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ یہ ہی نہیں کچھ وقت کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں واقعی کون حاکم اورکون اس پر کلی اختیار رکھنے والا ہے ۔ یہ کردار آدمی سے گینڈے ، بندر یا حشرات یاعفریت کچھ بھی بن سکتے ہیں ۔ اور سامنے کی سیدھی سادی سچائیوں کو فریب و التباس کے سو پردوں میں یوں لپیٹ دیتے ہیں کہ لوگوں کا یقین ہی اٹھ جاتا ہے کہ سچائی نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے ۔
عظیم مصنف Any Randکا ناولٹ “Anthem” کا مرکزی کردار عہد مستقبل کے اندھیروں میں رہتا ہے ۔ محبت سے محروم اس دیار میں ، جہاں ایک فرد کا دوسرے فرد کی طرف پسند یدگی کی نظر سے دیکھنا بھی گنا ہ ہے ۔یہ کہانی ایک ایسے بھیانک دور کی پیش بینی ہے جس میں انسان ایک بار پھر جہالت اور تاریکی میں کھوچکا ہے ۔ علم ودانش ، تہذیب و فن سب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور ماضی وہ زمانہ ہے جس کا نام بھی نہیں لیاجاسکتا ۔ ایک ایسے سماج میں جہاں نظام حکومت سے وفاداری لازمی شر ط ہے اورجہاں سرکاری تعلیمات کے علاوہ کسی اور حقیقت کا تصور بھی ممکن نہیں ۔ وہ سوچنے اور سوال کرنے والا ذہن لے کر پیدا ہوا جس نے اس سماج کی اقدار کو چیلنج کیا اور اپنی جستجو کے صلے میں گم شدہ افرادیت کو حاصل کیا یہ افرادیت اس کی منزل بھی تھی اوروسیلہ ظفر بھی ۔ یکسانیت پر جبر کی حد تک اصرار کرنے والے اس سماج نے اس کا سب سے بڑا جرم جس بات کو گردانا وہ یہ تھی کہ بے نام چہروں اور بے ذہن جسموں کے ہجوم میں وہ اکیلا سراٹھائے کھڑا رہا ۔ تمام تر مخالفت سے بیگانہ ہو کر آپ اپنا متلاشی اور آپ منزل کی جانب گامزن وہ تنہا آدمی تھا اس نے اپنی ہستی اور اس کی یکتا ئی کو تقدیر سے حاصل کیا ۔ یہ کہانی دراصل اس اجتماعیت کے خلاف صدائے احتجاج ہے جو ہر انسان کو دوسروں کا جیسا ہونے پر مجبور کرتی ہے اور ایسا سماج تعمیر کرتی ہے جس میں دوسروں سے مختلف ہونا جرم ہے ، اس سماج میں انسانی زبان سے شخص واحد کے لیے الفاظ منسوخ کر دئیے گئے ہیں ۔ اس سماج میں ایک شخص ہے جس کے اندر ” میں ” مرنہ سکا وہ لفظ اور معنی کا بازیافت کرتا ہے اور”Anthem” میں وہ ہی ہم سے خطاب کرتاہے آئیں ہم سب بھی خاموش ہوجائیں اور اس کے خطاب کو بغور سنتے ہیں وہ ہم سے بھی مخاطب ہے ۔ وہ ہم سب سے بھی کہہ رہا ہے کہ آئو اپنے بدبودار اورغلیظ سماج کی تمام اقدار کو چیلنج کردو۔ ہم سب پتھر یالکڑی کے انسان نہیں ہیں جیسا کہ ہو مرنے کہا تھا ۔ ہم سب بھی دل اور ذہن رکھتے ہیں ۔ خو شحالی ، کامیابی، اختیار اور حقوق پر ہمارا ابھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے پاکستان کے انسانوں کا ہے ، سکون ،خوشیوں اوردل کھول کر ہنسنے اورگانے کو ہمارا دل بھی چاہتا ہے ۔ پیٹ بھر کے روٹی کھانے پر ہمارا بھی حق ہے اپنے اور اپنے پیاروں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو ہم بھی پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ زندگی جی بھر کر جینا ہم بھی چاہتے ہیں ۔ آئیں اپنی لوٹی گئی خو شیاں لٹیروں سے لوٹ لیں ۔آئیں اس سماج کو آگ لگاکر ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھیں جہاں سب بااختیاراوربا حقوق ہوں ، خوشیوں ، خوشحالی ، ترقی اور کامیابی پر سب کا برابر کا حق ہو ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام وجود هفته 01 فروری 2025
انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام

اکیلی نہیں جاؤں گی؟ امریکی خاتون کا ندال کیلئے دھرنا! وجود هفته 01 فروری 2025
اکیلی نہیں جاؤں گی؟ امریکی خاتون کا ندال کیلئے دھرنا!

آیا سچائی نام کی چیز وجود رکھتی ہے ؟ وجود هفته 01 فروری 2025
آیا سچائی نام کی چیز وجود رکھتی ہے ؟

غزہ کی تباہی: مظالم، انصاف اور بحالی کے چیلنجز وجود هفته 01 فروری 2025
غزہ کی تباہی: مظالم، انصاف اور بحالی کے چیلنجز

مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کی پالیسیاں وجود جمعه 31 جنوری 2025
مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کی پالیسیاں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر