... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی حکومت نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلئے مزید حربوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے تین اضلاع سری نگر ، بارہ مولہ ، بٹ گرام میں پینے کے پانی میں زہریلا کیمیکل ملا دیا جس کے باعث400 کے قریب پانی استعمال کرنے والے کشمیریوں کی حالت بگڑ گئی ۔ کشمیریوں کی آ زادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے مقبوضہ کشمیر کے تین علاقوں جہاں پر سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا تھا،ان علاقوں میں پینے کے پانی میں زہریلا کیمیکل ملا دیا گیا۔زہریلا کیمیکل ملا پانی پینے سے بچوں سمیت تین سو سے زائد کشمیری زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہو گئے۔ ساتھ میں مقامی ہسپتالوں کو بھی واضح طور پر ہدایات بھی جاری کر دی گئیں اور وہاں بھارتی فوجی تعینات کرکے یہ کہہ دیا گیا کہ زہریلا پانی پینے سے بیمار ہو کر آنے والے کسی کشمیری کا علاج نہیں کیا جائے گا۔بھارتی فوج اور حکمرانوں کے ظالمانہ اقدام سے ہزاروں کشمیری بیمار ہو گئے ہیں جن میں سے تین سو کی حالت زیادہ خراب ہے۔ عالمی اداروں ،انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارتی حکومت اس کی افواج اور دیگر اداروں کی دیگر ظالمانہ اقدامات کے ساتھ پانی میں زہریلا مواد شامل کرنے کے اقدامات کا نوٹس لیں تا کہ مسلمانوں کی زندگی محفوظ رہ سکے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی بے جا پابندیوں اور انٹرنیٹ اور فون کی بندش کے باعث کشمیری صحافیوں کے پاس رپورٹنگ کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اور وہ بے روزگار ہوگئے اور روزی روٹی کے حصول کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 29 سالہ صحافی منیب الاسلام 5 سال سے فوٹو جرنلسٹ کے طور پر کام کررہے تھے۔ان کی کھینچی گئی تصاویر نہ صرف بھارت کے اخبارات بلکہ غیر ملکی میڈیا کی بھی زینت بنتی رہیں۔ لیکن اگست 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے کرفیو سمیت سخت پابندیاں عائد کردی گئیں جن میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کی بندش بھی شامل ہے۔ منیب الاسلام اور ان جیسے دیگر کشمیری صحافی بھارتی اقدامات کے باعث صرف صحافی ہی بے روزگار نہیں ہوئے بلکہ کشمیر میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو معاشی طور پر شدید نقصان پہنچا۔
مسئلہ کشمیر بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا’ اس وقت پورا کشمیر پاکستان کی دسترس اور تسلط میں آیاچاہتا تھا۔ اقوام متحدہ نے فوری طور پر فائربندی کرادی اور اس مسئلہ کیلئے استصواب کی تجویز دی جسے بھارت نے تسلیم کیا لیکن بعد میں اس سے مکر گیا’ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بدستور موجود ہیں’ اسکے باوجود کشمیر کو بھارت اپنا اندرونی معاملہ ہونے کا راگ الاپتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انکاری ہونے کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو عالمی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنی ریاست کا درجہ دے دیا’ اسی وقت اقوام متحدہ’ اسکی سلامتی کونسل اور بااثر ممالک کو نوٹس لینا چاہیے تھا مگر انکی طرف سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی جس سے بھارت کے مزید حوصلے بڑھے۔
بھارتی جنگی جنون کی درپیش صورتحال میں تنازع کشیر کے حل میں اقوام متحدہ کی قیادت کا کردار نہایت اہم ہو چکا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی جانب سے کئے جانے والے یکطرفہ اقدامات قبول نہیں ہیں۔جموں وکشمیر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر دیرینہ ترین مسئلہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے سیکرٹری جنرل پر زوردیا گیا کہ وہ اپنے منصب کو استعمال کرتے ہوئے ثالثی کرائیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس مسئلے پر موجود مختلف قراردادوں اور اقوام متحدہ کے منشورکے تحت کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائیں۔بھارتی حکام ایک پراسرار بیماری کی تحقیقات کررہے ہیں جس سے مقبوضہ کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے گاؤں بڈھال میں اب تک 17 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک گاؤں بڈھال میں اس بیماری کے سبب دسمبر کے اوائل سے اب تک ہلاک ہونے والوں میں 13 بچے بھی شامل ہیں جب کہ کئی افراد راجوری، جموں اور چندی گڑھ کے ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ رواں ہفتے کے دوران گاؤں کو ‘کنٹینمنٹ زون’ قرار دیا گیا ہے اور تقریبا 230 لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے جن میں اس بیماری سے متاثر ہونے والے افراد کے رشتہ داروں سمیت وہ افراد بھی شامل ہیں جو ان سے رابطے میں تھے۔
راجوری کے سرکاری میڈیکل کالج کے سربراہ امرجیت سنگھ بھاٹیا نے بتایا کہ اس بیماری سے تمام متاثرہ افراد کے دماغ اور اعصابی نظام کو نقصان پہنچا ہے جب کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق 3 خاندانوں سے تھا۔ گلین بیری سنڈروم (جی بی ایس) سے متاثرہ افراد میں 26 خواتین شامل ہیں جب کہ 14 مریض وینٹی لیٹر پر ہیں۔بھارت نے اس بیماری سے متعلق تحقیقات کا آغاز کردیا ہے جب کہ بھارتی وزیر صحت جتیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ اموات کسی انفیکشن ، وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک زہر کی وجہ سے ہوئی ہیں۔زہریلے مادوں کی جانچ کے لیے ایک طویل سلسلہ چل رہا ہے، ہمیں امید ہے کہ اس کا جلد کوئی حل تلاش کرلیا جائے گا تاہم یہ زہر کسی کی شرارت یا بدنیتی کی وجہ سے پھیلا ہے تو اس کی بھی جانچ کی جارہی ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق جی بی ایس میں کسی شخص کا مدافعتی نظام اس کے دماغ اور اعصاب پر حملہ کرتا ہے جب کہ یہ سنڈروم پٹھوں کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے اور متاثرہ افراد کو نگلنے اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔