وجود

... loading ...

وجود

گریٹر اسرائیل کے تناظر میں امن معاہدہ

بدھ 22 جنوری 2025 گریٹر اسرائیل کے تناظر میں امن معاہدہ

ڈاکٹر سلیم خان

وقت وقت کی بات ہے ، گزشتہ سال جنوری میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کاایک انٹرویو اس لیے وائرل ہوگیا تھا کیونکہ اس دریدہ دہن نے گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کردیا تھا ۔مصر سے سعودی عرب اور عراق کے نہرِ فرات تک اکھنڈ اسرائیل کو پھیلادیا گیا تھا ۔ اس کے ایک سال غزہ میں اسرائیل کی ناکامی کے جشن کی تصاویر میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے خواب ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں اور ان کی کرچیں یہودی مقتدرہ کو لہو لہان کررہی ہیں ۔ صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے یہ خواب بیچا تھا کہ یہودیوں کی ارضِ موعود میں لبنان، شام، عراق، سعودی عرب، مصر اور اردن کے علاوہ ایران اور ترکی کے علاقے بھی شامل ہوں گے لیکن اب معروف یہودی مؤرخ اور کئی کتابوں کے مصنف ، ماہر تعلیم ایلان پاپے اعلان کر رہے ہیں کہ اسرائیل اپنے خاتمے کے ابتدائی دور میں داخل ہو چکا ہے ۔ حیفہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے سابق استاد پاپے فی الحال برطانیہ میں سماجیات کے پروفیسر ہیں۔ اسرائیل کے اس ناقد نے صہیونی ماہرین تعلیم کے عالمی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا ۔
اقوام متحدہ نے 1947 میں جب فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی تو بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا توسابق اسرائیلی وزیراعظم مینیچم بیگن نے اسے فلسطین کی غیر قانونی قرار دے مسترد کردیاتھا ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ” یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور ہمیشہ رہے گا اور ایرٹز (گریٹر) اسرائیل کی سرحدوں کو ہمیشہ کے لیے بحال کیا جائے گا”۔ بیگن جیسے لوگوں کی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے ایلان پے پے کہتے ہیں کہ قدیم حکومتیں حکمت اور تدبر سے اہداف کی جانب قدم بڑھاتی تھیں مگر اسرائیل کی موجودہ جلد باز سرکار پیش رو لوگوں کے مقابلے بہت جلد اہداف کا حصول چاہتی ہے ۔انہوں نے 20 سال قبل یہ پیشنگوئی کی تھی کہ اسرائیل کی آئندہ نسل زیادہ شدت پسند ہوگی۔ان کے بقول اس دعویٰ کا ثبوت اسرائیلی معاشرہ کی موجودہ ذہنی کیفیت ہے ۔ وہ فوت شدہ فلسطینی بچے کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔ یہ درندگی اب اسرائیلی ڈی این اے میں شامل چکی ہے ۔ اس کی اصلاح کے لیے معلومات کی فراہمی کافی نہیں ہے بلکہ بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی درکار ہے ۔
پچھلے سال ابتداء میں ہی اسرائیل کو اپنی شکست نظر آنے لگی تھی مگر چونکہ نیتن یاہو کے سر پر اقتدار سے محرومی کے بعد بدعنوانی کے الزام میں جیل جانے کی تلوار لٹک رہی تھی اس لیے وہ جنگ کو طول دیتے رہے ۔ اپنی ناکامی کی پردہ پوشی کے لیے انہوں نے پیرس میں ایک تقریر کے دوران گریٹر اسرائیل کا وہ نقشہ پیش کردیا جس میں اردن اور مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا تھا۔یہ کسی سرپھرے سیاستداں کی بھڑاس ہی نہیں بلکہ اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بھی اس نقشے کو شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ مملکت اسرائیل تقریباً 3000 سال پہلے قائم ہوئی تھی اور اس کے پہلے تین بادشاہوں میں شاہ شاؤول، شاہ داؤد اور شاہ سلیمان شامل تھے ۔ انھوں نے مجموعی طور پر 120 سال تک حکمرانی کی۔ ان کے دور میں یہودی ثقافت، مذہب اور معیشت میں ترقی ہوئی۔931 قبل مسیح میں شاہ سلیمان کی وفات کے بعد داخلی تنازعات اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے وہ مملکت اسرائیل اور یہودہ نامی دو ملکوں میں تقسیم ہوگئی۔
حکومتِ اسرائیل نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ شمالی سلطنت 209 سال بعد آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور جنوبی مملکت یہودہ 345 سال بعد بابل کے بادشاہ نبوکدنضر کے ہاتھوں (568 قبل مسیح) ختم ہو گئی۔ اس کے بعد دوہزار سال تک اس علاقے میں رومیوں اور ایرانیوں نے یہودیوں کو گھسنے نہیں دیا بالآخر جب مسلمان غالب ہوئے تو ان کو اجازت ملی اور آج وہ انہیں کے ساتھ احسان فراموشی کررہے ہیں ۔ اس حقیقت کا اعتراف کے بجائے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ‘یہ تقسیم صدیوں تک سیاسی تنازعات کا باعث بنی لیکن جلاوطنی کے دوران یہودی قوم اپنی ریاست کی بحالی کی خواہاں رہی جس کا قیام 1948 میں ریاست اسرائیل کے طور پر ہوا’ اور آگے اپنی خود ستائی میں دعویٰ کیا گیا کہ :”وہ(اسرائیل) آج مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست ہے ۔’ ابھی حال میں صہیونی حکومت نے غزہ جو مظالم ڈھائے اور عالمی عدالتِ انصاف اسے نسل کشی کا مجرم قرار دے کر اس کے خلاف وارنٹ نکالا تو اب اسرائیل کو اپنی صف میں دیکھ دنیا بھر کے جمہوری ممالک بھی عار محسوس کررہے ہوں گے ۔
دنیا بھرمیں اس متنازع نقشے کی مخالفت ہوئی مگر اندرونِ ملک نیتن یاہو کے حامیوں نے سوچا ہوگاچونکہ وہ مقدس جنگ لڑ رہا ہے اس لیے اسے نہ ہٹایا جائے ۔اسی ماحول کو فروغ دینے کی خاطر ایوی لپکن کا شر انگیز انٹرویو وائرل کرایا گیا جس میں وہ گریٹر اسرائیل کے تصور پر کہتا ہے ‘فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کرد۔۔۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اس لیے مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کرکے ان جگہوں کو پاک کریں گے ۔’یہ انٹرویو ایک ناپاک سازش کا حصہ تھا ۔ اس دوران غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران بعض اسرائیلی فوجیوں کو یونیفارم پر ‘گریٹر اسرائیل’ کے نقشے کا بیج پہنا کر ان کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پر پھیلایا گیا تاکہ بچوں اور خواتین کی ہلاکت کو ایک عظیم کاز سے جوڑ کر خوشنما بنایا جاسکے ۔ انتہاپسند اسرائیلی وزرا نے دعویٰ کردیا کہ حضرت یوسف کے دور میں یہودی مصر میں آباد ہوئے اور اس وقت ان کی حکمرانی فلسطین سے لے کر شام اور فرات کے کچھ علاقوں تک تھی اس لیے بنی اسرائیل کی اولاد جہاں جہاں پلی بڑھی ہے وہ سب علاقے اسرائیل کا حصہ ہیں۔ اس بیانیہ سے ایران، شام اور لبنان پر حملوں کا جواز بھی نکل آیا ۔
خواب و خیال کی ان باتوں سے نکل کر ایلان پاپے کی جا نب لوٹیں ان کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل کو لاحق سب سے بڑا خطرہ خارجی نہیں داخلی ہے ۔ اس معاشرے میں پھیلی ہوئی اخلاقی گراوٹ اور انسانیت و ہمدردی کی نچلی ترین سطح کی جانب اشارہ کرکے انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی سماج مفلوج ہو چکا ہے ۔ صیہونی حکومت کے ادارے “اسرائیل ہیوم کا حالیہ انکشاف اس کی تائید کرتا ہے ۔ نفسیاتی معالجے اور طبی امداد کے فاونڈیشننتال کی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران اسے سائیکو تھراپی کے لیے تقریباً 54 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 60 فیصد کا تعلق فوجی اہلکاروں سے تھا۔ صہیونی فوجی غزہ میں اپنے مشن سے واپس آنے کے بعد شدید ذہنی تناو اور جذباتی مسائل کا شکار ہو کر خودکشی بھی کر لیتے ہیں۔ مثلاً40 سالہ الیران میزراحی غزہ میں اپنے پہلے مشن سے واپس آنے کے بعد شدید ڈپریشن چلا
گیا اور اس نے دوبارہ تعینات کئے جانے کے خوف سے خودکشی کرلی۔
اسرائیلی وزارت دفاع کے ری ہبیلی ٹیشن (بحالی) ڈویژن میں زیرِ علاج فوجیوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کرنے کا اعتراف پچھلے سال ہی کیا گیاتھا مگر ان میں سات اکتوبر، 2023 سے پہلے ہونے والی لڑائیوں میں شریک اہلکار بھی شامل تھے ۔ اس رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کے بعد ان وارڈز میں داخل ہونے والوں میں سے 35 فیصد ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں جبکہ 21 فیصد کو جسمانی چوٹیں آئیں۔ ان زخمی فوجیوں میں تقریباً 70 فیصد ریزرو ہیں اور نصف کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔ تقریباً 40 فیصد نئے فوجی مختلف ذہنی صحت کے مسائل مثلاً انگزائٹی(بے چینی) ، ڈپریشن(مایوسی) اور پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔ 70 ہزار معذور فوجیوں میں سے 9,539 صدمے وغیرہ سے گزر رہے ہیں۔ان میں نیند کی دشواریوں کا شکار لوگوں کی شرح گزشتہ موسم گرما میں 18.7 فیصد سے بڑھ کر 37.7 فیصد ہو گئی ۔ان طبی مسائل میں 101 فیصدکا اضافہ ہوا۔جنگ کے دوران زیادہ تناؤ میں مبتلا ہونے والے 43.5 فیصد بڑھ گئے ۔یہ سارے اعدادو شمار ایلان پے پے کی تائید کرتے ہیں۔
ایلان پے پے کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اسرائیل کے اپنے حامیوں سے تعلقات بھی اس کی تباہی میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ غزہ کی نسل کشی نے اسرائیل کو تنہا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اقوام متحدہ میں اس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب پچھلے سال سلامتی کونسل کے اندر اسرائیل کے معاملے امریکہ کا ایک بھی حلیف اس کے ساتھ نہیں تھا ۔ اس کے بعد دسمبر کے اندر جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ صرف ٧ ممالک تھے جن میں ٥ کا تو کوئی نام بھی نہیں جانتا ۔ امریکہ کے بڑے حواریوں میں برطانیہ اور فرانس سمیت سبھی نے اس کی مخالفت کی تھی۔پے پے تو امریکہ کے تعلق سے بھی یہ پیشنگوئی کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی معیشت زوال پذیر ہوگی۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی دلچسپی کم ہوجائے گی۔ٹرمپ کا نعرہ’امریکہ اول’ یا امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کا عزم اس حقیقت کا اعتراف ہے ۔ اسرائیل امریکی حمایت پر چڑھنے والی ایک امربیل ہے ۔ امریکی حمایت کے بغیر وہ پھل پھول نہیں سکتی ۔ قدیم نوآبادیاتی نظام کی آخری ریاست ‘اسرائیل’ کا وجود جب صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا تو فلسطین میں آزادی کی صبح ازخود نمودار ہوجائے گی ان شاء اللہ ۔ایلان پے پے انسانی تاریخ کی مثالوں سے اس کی تائید کرتے ہیں لیکن علامہ اقبال تو پہلے ہی فرما چکے ہیں:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی واپسی! وجود بدھ 22 جنوری 2025
ٹرمپ کی واپسی!

گریٹر اسرائیل کے تناظر میں امن معاہدہ وجود بدھ 22 جنوری 2025
گریٹر اسرائیل کے تناظر میں امن معاہدہ

نرگسیت ،ا نانیت وجود بدھ 22 جنوری 2025
نرگسیت ،ا نانیت

بھارتی جنگی جہاز حادثات کا شکار وجود بدھ 22 جنوری 2025
بھارتی جنگی جہاز حادثات کا شکار

جینا بہادری وجود منگل 21 جنوری 2025
جینا بہادری

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر