... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
والدین بچوں کی پہلی درس گاہ ہے۔ پیار ،محبت اور خوشدلی سے سکھایا جانے والا سبق بچپن سے بڑھاپے تک انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ شعوری طور پر ہو یا لا شعوری طور پر اور یہی سبق عام انسان کو زندگی کی مشکلات اور پریشانیوں سے نمبر آزما ہونے کا گر بھی بتاتا ہے جن بچوں کو والدین کے پیار یا تربیت میں کمی رہ جاتی ہے، وہی بڑے ہو کر ایک چھوٹی سی پریشانی بھی برداشت نہیں کرتے جس کی وجہ سے عدم برداشت بڑھ جاتی ہے اور معمولی سی بات پر پارہ ہائی ہو جاتا ہے۔ جس کے بعدہم ایک دوسرے کی غلطی اور کوتاہی پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ پریشانیوں سے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ تک کر لیتے ہیں اور ویسے بھی آج کے دور میں مہنگائی، بدامنی، حصول روزگار میں بے یقینی کی صورتحال کے باعث نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں ۔دور جدید کی سائنسی ایجادات نے بھی سہولیات کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کو ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ تیز ترین حالات زندگی نے انسان کو دکھ، غم، پریشانی، عدم تحفظ کا احساس دے کر خوشیاں چھین لی ہیں۔ بیشتر لوگ موجو دہ طرز زندگی اور اس کے روز و شب سے خوش نہیں ان حالات میں رشتوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں ۔ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار دیکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم نے ان کا مردانہ وار مقابلہ نہیں کیا تو پھر آگے چل کرحالات سنگین صورتحال اختیار کرسکتے ہیں اور بزدل انسان برے حالات سے ڈر کر خود کشی کر لیتے ہیں۔حالانکہ ان حالات میں جینا بہادری ہے خود کشی بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے ۔جبکہ بلند حوصلے، ہمت ، پختہ عزم، صبر اور ایمان کی طاقت کیساتھ ہر طرح کے حالات سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا کے محروم لوگوں میں اپنی ذمے داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کم زوری کے باعث خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی خودکشی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جبکہ خودکشی حرام موت ہے جو کہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں ۔خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس فعل حرام کا مرتکب اﷲ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے ۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اﷲ کی عطا کردہ امانت ہے اور اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ ہر صورت زندگی کی حفاظت کریں ۔دکھ ، پریشانیاں، مسائل اور آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں ۔ان میں سے بیشتر تو انسان کے اپنے اعمال ، افعال ، اقوال کی وجہ سے پیش آتی ہیں جبکہ چند ایک خالق کائنات کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔
اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر ان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے جو لوگ آزمائش میں پورا اترتے ہیں۔ وہ اﷲ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہوجاتے ہیں ان میں سے چند خودکشی کو راہ نجات سمجھتے ہوئے اپنا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنا اور اپنے اہل و عیال و خاندان کا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ کر لیتے ہیں۔ بہترین انسان وہ ہے جو مشکل حالات کا جائزہ لے، اسباب کو تلاش کرے ان کا مداوا کرے، مشکلات کو آسانیوں میں بدلے اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل و بھروسہ کرتے ہوئے مایوسی کی بجائے صبر و رضا میں زندگی بسر کرے ہم وہ خوش نصیب ہیں جو مسلمان پیدا ہوئے ہمیں وہ دین ملا جو مکمل ضابطہ حیات ہے مگر المیہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اب خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 25 فیصدافراد ڈپریشن،ذہنی دباؤ اور دماغی بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں زیادہ تعدادنوجوانوں کی ہے۔ ہمارے ہاں خودکشی کی وجوہات میں معاشرے میں عدم برداشت، خانگی تنازعات، غربت، مہنگائی اور معاشی صورت حال، پڑھائی میں اچھے گریڈ نہ لانا، گھریلو جھگڑے ، پسند کی شادی نہ ہونا اور آج کل سائبر کرائمز کے ذریعے لڑکے لڑکیوں کو تصاویر یا ویڈیوز کے لیے بلیک میل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ماہرین کے مطابق تنہائی، چڑچڑا پن، شرمندگی،نشہ آور اشیا کا استعمال اور ایسی باتیں جو شرمندگی یا تکلیف کاباعث بنیں انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ان حالات میں والدین کے ساتھ دوستی کا جو رشتہ ہوتا ہے وہ ہمیں ان مسائل سے نکلنے کے لیے مدد دیتا ہے جبکہ زندگی میں مخلص دوستوں کا ہونا بھی ضروری ہے ،چاہے وہ زیادہ نہیں تو ایک دو ہی ہوں جن سے آپ دل کی ہر بات کہہ سکیں کیونکہ جب دل پر مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ تبھی دماغ آپ کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کرتا ہے اور دماغ ایسے کیمیکل پیدا کرتا ہے جو آپ کو خودکشی کرنے پر اکساتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے دل پر بوجھ نہ بننے دیجیے اور اس کا سب سے آسان نسخہ اللہ کو یاد کرنا، اس کا شکر کرنا اور اس پر بھروسہ کرنا ہے۔ ایک اور بات کہ خود کشی اسلام میں حرام قرار دی گئی ہے۔ یہ عارضی زندگی ہمیں ایک بار ملی ہے اور اسی میں کیے گئے اعمال کا نتیجہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔ ہمیں زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا ۔دوسروں میں مثبت سوچ پیداکرنی ہوگی ۔امیدوں کے دیے جلانے ہوں گے ۔اپنے مال کی پوری زکوٰة دینی ہوگی۔ ضرورت مندوںکو ڈھونڈ کر ان کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ کسی ایک کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے ۔ہمیں ان اسباب کا بھی سدباب کرنا ہوگا جن کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہیں۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ احساس دلانا ہوگاکہ دنیا کی سب سے قیمتی شے ان کی جان ہے اور ہمیں خود کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے خود کو زندہ رکھنے کی چاہ میں ہی انسان جنگلوں سے نکل کر اس جدید دور تک آیالیکن مایوسی اور عدم برداشت کی بدولت آج انسان زندہ رہنے کی تمنا چھوڑ بیٹھا ہے۔ خودکشی کو روکنے کے لیے لمبے چوڑے وعظ، کانفرنسیں ،اور میٹنگ کرنے کی بجائے اگروالدین اپنے بچوں کی تعلیم تربیت کے ساتھ انسانیت سے پیار کرنے کا سبق بھی یاد کروادیں تو ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کا کلچر ختم ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں میں خود کشی کا رجحان بھی ختم ہو سکتا ہے ۔