وجود

... loading ...

وجود

جینا بہادری

منگل 21 جنوری 2025 جینا بہادری

میری بات/روہیل اکبر

والدین بچوں کی پہلی درس گاہ ہے۔ پیار ،محبت اور خوشدلی سے سکھایا جانے والا سبق بچپن سے بڑھاپے تک انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ شعوری طور پر ہو یا لا شعوری طور پر اور یہی سبق عام انسان کو زندگی کی مشکلات اور پریشانیوں سے نمبر آزما ہونے کا گر بھی بتاتا ہے جن بچوں کو والدین کے پیار یا تربیت میں کمی رہ جاتی ہے، وہی بڑے ہو کر ایک چھوٹی سی پریشانی بھی برداشت نہیں کرتے جس کی وجہ سے عدم برداشت بڑھ جاتی ہے اور معمولی سی بات پر پارہ ہائی ہو جاتا ہے۔ جس کے بعدہم ایک دوسرے کی غلطی اور کوتاہی پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ پریشانیوں سے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ تک کر لیتے ہیں اور ویسے بھی آج کے دور میں مہنگائی، بدامنی، حصول روزگار میں بے یقینی کی صورتحال کے باعث نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں ۔دور جدید کی سائنسی ایجادات نے بھی سہولیات کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کو ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ تیز ترین حالات زندگی نے انسان کو دکھ، غم، پریشانی، عدم تحفظ کا احساس دے کر خوشیاں چھین لی ہیں۔ بیشتر لوگ موجو دہ طرز زندگی اور اس کے روز و شب سے خوش نہیں ان حالات میں رشتوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں ۔ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار دیکھائی دیتا ہے۔ اگر ہم نے ان کا مردانہ وار مقابلہ نہیں کیا تو پھر آگے چل کرحالات سنگین صورتحال اختیار کرسکتے ہیں اور بزدل انسان برے حالات سے ڈر کر خود کشی کر لیتے ہیں۔حالانکہ ان حالات میں جینا بہادری ہے خود کشی بزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے ۔جبکہ بلند حوصلے، ہمت ، پختہ عزم، صبر اور ایمان کی طاقت کیساتھ ہر طرح کے حالات سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا کے محروم لوگوں میں اپنی ذمے داریوں سے بے اعتنائی اور ایمان سے محرومی یا کم زوری کے باعث خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی خودکشی کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جبکہ خودکشی حرام موت ہے جو کہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں ۔خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس فعل حرام کا مرتکب اﷲ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے ۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اﷲ کی عطا کردہ امانت ہے اور اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ ہر صورت زندگی کی حفاظت کریں ۔دکھ ، پریشانیاں، مسائل اور آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں ۔ان میں سے بیشتر تو انسان کے اپنے اعمال ، افعال ، اقوال کی وجہ سے پیش آتی ہیں جبکہ چند ایک خالق کائنات کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔
اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر ان کے گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے جو لوگ آزمائش میں پورا اترتے ہیں۔ وہ اﷲ کی رحمتوں کے سائے میں آجاتے ہیں اور جو ناکام ہوجاتے ہیں ان میں سے چند خودکشی کو راہ نجات سمجھتے ہوئے اپنا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنا اور اپنے اہل و عیال و خاندان کا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی تباہ کر لیتے ہیں۔ بہترین انسان وہ ہے جو مشکل حالات کا جائزہ لے، اسباب کو تلاش کرے ان کا مداوا کرے، مشکلات کو آسانیوں میں بدلے اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل و بھروسہ کرتے ہوئے مایوسی کی بجائے صبر و رضا میں زندگی بسر کرے ہم وہ خوش نصیب ہیں جو مسلمان پیدا ہوئے ہمیں وہ دین ملا جو مکمل ضابطہ حیات ہے مگر المیہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اب خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 25 فیصدافراد ڈپریشن،ذہنی دباؤ اور دماغی بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں زیادہ تعدادنوجوانوں کی ہے۔ ہمارے ہاں خودکشی کی وجوہات میں معاشرے میں عدم برداشت، خانگی تنازعات، غربت، مہنگائی اور معاشی صورت حال، پڑھائی میں اچھے گریڈ نہ لانا، گھریلو جھگڑے ، پسند کی شادی نہ ہونا اور آج کل سائبر کرائمز کے ذریعے لڑکے لڑکیوں کو تصاویر یا ویڈیوز کے لیے بلیک میل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ماہرین کے مطابق تنہائی، چڑچڑا پن، شرمندگی،نشہ آور اشیا کا استعمال اور ایسی باتیں جو شرمندگی یا تکلیف کاباعث بنیں انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ان حالات میں والدین کے ساتھ دوستی کا جو رشتہ ہوتا ہے وہ ہمیں ان مسائل سے نکلنے کے لیے مدد دیتا ہے جبکہ زندگی میں مخلص دوستوں کا ہونا بھی ضروری ہے ،چاہے وہ زیادہ نہیں تو ایک دو ہی ہوں جن سے آپ دل کی ہر بات کہہ سکیں کیونکہ جب دل پر مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ تبھی دماغ آپ کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کرتا ہے اور دماغ ایسے کیمیکل پیدا کرتا ہے جو آپ کو خودکشی کرنے پر اکساتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے دل پر بوجھ نہ بننے دیجیے اور اس کا سب سے آسان نسخہ اللہ کو یاد کرنا، اس کا شکر کرنا اور اس پر بھروسہ کرنا ہے۔ ایک اور بات کہ خود کشی اسلام میں حرام قرار دی گئی ہے۔ یہ عارضی زندگی ہمیں ایک بار ملی ہے اور اسی میں کیے گئے اعمال کا نتیجہ ہمیں آخرت میں ملے گا۔ ہمیں زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا ۔دوسروں میں مثبت سوچ پیداکرنی ہوگی ۔امیدوں کے دیے جلانے ہوں گے ۔اپنے مال کی پوری زکوٰة دینی ہوگی۔ ضرورت مندوںکو ڈھونڈ کر ان کی مدد کرنی ہوگی۔ یہ کسی ایک کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض ہے ۔ہمیں ان اسباب کا بھی سدباب کرنا ہوگا جن کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہیں۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ احساس دلانا ہوگاکہ دنیا کی سب سے قیمتی شے ان کی جان ہے اور ہمیں خود کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے خود کو زندہ رکھنے کی چاہ میں ہی انسان جنگلوں سے نکل کر اس جدید دور تک آیالیکن مایوسی اور عدم برداشت کی بدولت آج انسان زندہ رہنے کی تمنا چھوڑ بیٹھا ہے۔ خودکشی کو روکنے کے لیے لمبے چوڑے وعظ، کانفرنسیں ،اور میٹنگ کرنے کی بجائے اگروالدین اپنے بچوں کی تعلیم تربیت کے ساتھ انسانیت سے پیار کرنے کا سبق بھی یاد کروادیں تو ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کا کلچر ختم ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں میں خود کشی کا رجحان بھی ختم ہو سکتا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جینا بہادری وجود منگل 21 جنوری 2025
جینا بہادری

عمران خان کا مستقبل؟ وجود منگل 21 جنوری 2025
عمران خان کا مستقبل؟

بھارتی مسلمانوں کے لیے قبرستان کی قلت وجود منگل 21 جنوری 2025
بھارتی مسلمانوں کے لیے قبرستان کی قلت

سزا کے بعد؟ وجود پیر 20 جنوری 2025
سزا کے بعد؟

گریٹر اسرائیل منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا ؟ وجود پیر 20 جنوری 2025
گریٹر اسرائیل منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر