... loading ...
جاوید محمود
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے اپنے گریٹر اسرائیل کی منصوبے پر تیزی سے کام شروع کیا ہوا ہے ۔ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحریہ روم سے لے کر نہر فرات عراق تک پھیلی ہوں گی ۔جنوری 2024میں اسرائیلی مصنف ایوری لپکن کا یہ انٹرویو بہت وائرل رہا ،جس میں انہوں گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا فرات کے دوسری طرف ہمارے دوست ہیں ہمارے پیچھے بحیرۂ روم ہے اور ہمارے آگے گرد لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طور سینا پر قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے ۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بعد لبنان میں بھی جاری کاروائیوں کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سے گریٹر اسرائیل کے تصور کی گونج سنائی دی۔ اس کی ایک وجہ غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران کچھ سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا گیا کہ یہ دعویٰ بھی تھا کہ بعض اسرائیلی فوجیوں نے اپنے یونیفارم پر گریٹر اسرائیل کے نقشے کا بیچ پہن رکھا ہے۔ جبکہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزراء کی جانب سے بھی ماضی میں اس تصور کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ اس پر عرب ممالک کے صارفین کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی تھی کیونکہ پرومیس لینڈ وہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا کہ نقشے میں اردن فلسطین لبنان شام عراق اور مصر کے کچھ حصے بھی شامل تھے ۔7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہمسایہ ممالک میں اسرائیلی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے ایران شام اور لبنان میں ٹارگٹ حملے بھی کیے ہیں اور اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرنے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔
سعودی عرب فلسطین متحدہ عرب امارات اور عرب لیگ نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے گریٹر اسرائیل کا متنازع نقشہ جاری کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ 6جنوری کو اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے اس نقشے میں فلسطین شام لبنان اور اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اسے انتہا پسندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدام مات اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے ریاستوں کی خود مختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ شام میں بشار الااسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آبادی کو وسعت دینے کے فیصلے کے بعد سے اس علاقے کی مشرق وسطیٰ میں اسٹریٹیجک اہمیت ایک بار پھر موضوع بحث ہے۔ گولان کی پہاڑیاں شام کی جنوب میں واقع ہیں اور یہ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحد کا ایک حصہ ہے۔ اس خطے کی حیثیت متنازع ہے اور جہاں امریکہ نے 2019میں اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا تھا، وہیں اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے نزدیک گولان وہ شامی علاقہ ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے، جہاں اس علاقے کی اسٹریٹیجک اہمیت ہے، وہیں اس کی مذہبی اہمیت اور قدیم تاریخ کے بارے میں کم ہی بات ہوتی ہے، تاہم یہودی آبادکاروں کی جانب سے اس حوالے سے مختلف دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ کتاب دی جوائنٹ سٹیز آف بشان اینڈ ہولی پلیس میں اس علاقے کو مقدس رومانس کی سرزمین کہا گیا ہے، جس کے بارے میں قدیم بادشاہتوں سے جڑی پراسرار اور عجیب کہانیاں آج بھی دلچسپی کا باعث ہیں جس جگہ کو آج گولان ہائٹس کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ اور اس کے ارد گرد کے کچھ علاقے یوں تو اب ملکوں کی سرحدوں کے درمیان تقسیم ہو چکے ہیں لیکن قدیم زمانے میں اس علاقے کو بشان کا نام دیا جاتا تھا۔ بشان یہاں کے مویشیوں اور بلوتھ کے درختوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ گولان کی پہاڑیاں اس خطے میں جو زیادہ تر بنجر زمین میں مشتمل ہے ،پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں ۔گولان کی پہاڑیوں اور بشان کے خطے پر مختلف ادوار میں مختلف سلطنتوں کی حکمرانی رہی، جن میں رومن سلطنت بازنطینی سلطنت پھر چھٹی صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں اور ترکوں کی حکمرانی رہی۔ گولان میں یہودی آباد کاریاں 1880کے بعد سے ہونا شروع ہوئی تھی۔ بشان خطے میں جولان موجودہ گولان ایک شہر تھا، جسے انجیل میں چھ پناہ کے شہروں میں سے ایک قرار دیا گیا ۔یہ شہر وہ تھے جن میں ایسے لوگ پناہ لے سکتے تھے جنہوں نے کسی کا حادثاتی طور پر قتل کیا ہو ۔جان ار میں کیٹف کی کتاب دی سٹیز اف ریلویج کے مطابق پیغمبر موسی علیہ السلام پر نازل کیے گئے قوانین کے مطابق جان بوجھ کر کسی کو قتل کرنے والے کو سزائے موت دی جاتی لیکن اگر کسی سے قتل خطا ہو جاتا تو وہ کسی پناہ کے شہر میں ٹھہر سکتا تھا ،جہاں اسے کسی بھی بدلے کا ڈر نہ ہوتا۔ یہاں یہ شخص اس وقت تک ٹھہر سکتا تھا جب تک مقدمہ عدالت میں نہ چل جاتا اور یہ ثابت نہ ہو جاتا کہ یہ واقعی قتل خطا تھا۔ اس حوالے سے توریت کی پانچویں کتاب ڈیو ڈرمیں بھی حوالے موجود ہیں جبکہ کتاب یشو میں بھی اس کا ذکر ہے۔ انجیل کے اولڈ ٹیسٹمنٹ میں درج ہے کہ پیغمبر موسی علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو لیے بشان کے علاقے میں پہنچے تو یہاں کے طاقتور بادشاہ اوگ سے جنگ ہوئی۔ انجیل کے مطابق خدا کی جانب سے پیغمبر موسی علیہ السلام کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انہیں بادشاہ اوگ پر فتح حاصل ہوگی ۔اس وقت بنی اسرائیل کے لیے بشان پر قبضہ اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ یہ زرخیز جگہ تھی اور اسے فتح کرنے کے لیے انہیں اس زمین تک پہنچنے میں آسانی ہو جاتی تھی۔ بادشاہ اوگ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انتہائی طاقتور انسان تھا کتاب فورٹین ان ہز ان دی لینڈ اف لوگ کے مطابق اوگ اپنی سلطنت سے بنی اسرائیل کو گزرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا تھا اور اسی لیے پیغمبر موسی علیہ السلام کو اس سے جنگ کرنی پڑی۔ بحریہ طبریہ یوں تو اسرائیل میں ہی موجود ہے اور اس کا شمار موجود گولان ہائٹس یا ماضی کے بشان کی خطے میں نہیں کیا جاتا لیکن اس کے حوالے سے انجیل کے نیو ٹیسٹمنٹ میں پیغمبر عیسی علیہ السلام کے چند واقعات ضرور موجود ہیں ۔گولان کی پہاڑیوں پر ماضی میں اباد زیادہ تر شامی عرب باشندے 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نقل مکانی کر گئے تھے گولان کے علاقے میں اب 30 سے زائد اسرائیلی بستیاں موجود ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 20 افراد رہائش پذیر ہیں ۔اسرائیلیوں نے 1967کے تنازع کے اختتام کے فورا بعد اس علاقے میں آبادیاں بنانی شروع کر دی تھیں۔ یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں، مگر اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے ۔شام کا کہنا ہے کہ یہ سرزمین گولان کی پہاڑیاں ہمیشہ سے اس کی ملکیت ہیں اور وہ بارہا اس علاقے کو واپس لینے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے۔ جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گولان کے پہاڑیاں اسرائیل کے دفاع کے لیے بہت اہم ہیں اور اس کا کنٹرول ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گا۔ اسرائیل نے کبھی بھی عالمی قوانین کی پرواہ نہیں کی ۔وہ بڑی طاقتوں کے سہارے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔