وجود

... loading ...

وجود

گریٹر اسرائیل منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا ؟

پیر 20 جنوری 2025 گریٹر اسرائیل منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا ؟

جاوید محمود

بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے اپنے گریٹر اسرائیل کی منصوبے پر تیزی سے کام شروع کیا ہوا ہے ۔ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحریہ روم سے لے کر نہر فرات عراق تک پھیلی ہوں گی ۔جنوری 2024میں اسرائیلی مصنف ایوری لپکن کا یہ انٹرویو بہت وائرل رہا ،جس میں انہوں گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا فرات کے دوسری طرف ہمارے دوست ہیں ہمارے پیچھے بحیرۂ روم ہے اور ہمارے آگے گرد لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طور سینا پر قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے ۔اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بعد لبنان میں بھی جاری کاروائیوں کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سے گریٹر اسرائیل کے تصور کی گونج سنائی دی۔ اس کی ایک وجہ غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران کچھ سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا گیا کہ یہ دعویٰ بھی تھا کہ بعض اسرائیلی فوجیوں نے اپنے یونیفارم پر گریٹر اسرائیل کے نقشے کا بیچ پہن رکھا ہے۔ جبکہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزراء کی جانب سے بھی ماضی میں اس تصور کا ذکر کیا جاتا رہا ہے۔ اس پر عرب ممالک کے صارفین کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی تھی کیونکہ پرومیس لینڈ وہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا کہ نقشے میں اردن فلسطین لبنان شام عراق اور مصر کے کچھ حصے بھی شامل تھے ۔7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہمسایہ ممالک میں اسرائیلی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے ایران شام اور لبنان میں ٹارگٹ حملے بھی کیے ہیں اور اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرنے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔
سعودی عرب فلسطین متحدہ عرب امارات اور عرب لیگ نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے گریٹر اسرائیل کا متنازع نقشہ جاری کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ 6جنوری کو اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے اس نقشے میں فلسطین شام لبنان اور اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اسے انتہا پسندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدام مات اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے ریاستوں کی خود مختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ شام میں بشار الااسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر یہودی آبادی کو وسعت دینے کے فیصلے کے بعد سے اس علاقے کی مشرق وسطیٰ میں اسٹریٹیجک اہمیت ایک بار پھر موضوع بحث ہے۔ گولان کی پہاڑیاں شام کی جنوب میں واقع ہیں اور یہ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحد کا ایک حصہ ہے۔ اس خطے کی حیثیت متنازع ہے اور جہاں امریکہ نے 2019میں اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا تھا، وہیں اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے نزدیک گولان وہ شامی علاقہ ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے، جہاں اس علاقے کی اسٹریٹیجک اہمیت ہے، وہیں اس کی مذہبی اہمیت اور قدیم تاریخ کے بارے میں کم ہی بات ہوتی ہے، تاہم یہودی آبادکاروں کی جانب سے اس حوالے سے مختلف دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ کتاب دی جوائنٹ سٹیز آف بشان اینڈ ہولی پلیس میں اس علاقے کو مقدس رومانس کی سرزمین کہا گیا ہے، جس کے بارے میں قدیم بادشاہتوں سے جڑی پراسرار اور عجیب کہانیاں آج بھی دلچسپی کا باعث ہیں جس جگہ کو آج گولان ہائٹس کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ اور اس کے ارد گرد کے کچھ علاقے یوں تو اب ملکوں کی سرحدوں کے درمیان تقسیم ہو چکے ہیں لیکن قدیم زمانے میں اس علاقے کو بشان کا نام دیا جاتا تھا۔ بشان یہاں کے مویشیوں اور بلوتھ کے درختوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ گولان کی پہاڑیاں اس خطے میں جو زیادہ تر بنجر زمین میں مشتمل ہے ،پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں ۔گولان کی پہاڑیوں اور بشان کے خطے پر مختلف ادوار میں مختلف سلطنتوں کی حکمرانی رہی، جن میں رومن سلطنت بازنطینی سلطنت پھر چھٹی صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں اور ترکوں کی حکمرانی رہی۔ گولان میں یہودی آباد کاریاں 1880کے بعد سے ہونا شروع ہوئی تھی۔ بشان خطے میں جولان موجودہ گولان ایک شہر تھا، جسے انجیل میں چھ پناہ کے شہروں میں سے ایک قرار دیا گیا ۔یہ شہر وہ تھے جن میں ایسے لوگ پناہ لے سکتے تھے جنہوں نے کسی کا حادثاتی طور پر قتل کیا ہو ۔جان ار میں کیٹف کی کتاب دی سٹیز اف ریلویج کے مطابق پیغمبر موسی علیہ السلام پر نازل کیے گئے قوانین کے مطابق جان بوجھ کر کسی کو قتل کرنے والے کو سزائے موت دی جاتی لیکن اگر کسی سے قتل خطا ہو جاتا تو وہ کسی پناہ کے شہر میں ٹھہر سکتا تھا ،جہاں اسے کسی بھی بدلے کا ڈر نہ ہوتا۔ یہاں یہ شخص اس وقت تک ٹھہر سکتا تھا جب تک مقدمہ عدالت میں نہ چل جاتا اور یہ ثابت نہ ہو جاتا کہ یہ واقعی قتل خطا تھا۔ اس حوالے سے توریت کی پانچویں کتاب ڈیو ڈرمیں بھی حوالے موجود ہیں جبکہ کتاب یشو میں بھی اس کا ذکر ہے۔ انجیل کے اولڈ ٹیسٹمنٹ میں درج ہے کہ پیغمبر موسی علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو لیے بشان کے علاقے میں پہنچے تو یہاں کے طاقتور بادشاہ اوگ سے جنگ ہوئی۔ انجیل کے مطابق خدا کی جانب سے پیغمبر موسی علیہ السلام کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انہیں بادشاہ اوگ پر فتح حاصل ہوگی ۔اس وقت بنی اسرائیل کے لیے بشان پر قبضہ اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ یہ زرخیز جگہ تھی اور اسے فتح کرنے کے لیے انہیں اس زمین تک پہنچنے میں آسانی ہو جاتی تھی۔ بادشاہ اوگ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انتہائی طاقتور انسان تھا کتاب فورٹین ان ہز ان دی لینڈ اف لوگ کے مطابق اوگ اپنی سلطنت سے بنی اسرائیل کو گزرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا تھا اور اسی لیے پیغمبر موسی علیہ السلام کو اس سے جنگ کرنی پڑی۔ بحریہ طبریہ یوں تو اسرائیل میں ہی موجود ہے اور اس کا شمار موجود گولان ہائٹس یا ماضی کے بشان کی خطے میں نہیں کیا جاتا لیکن اس کے حوالے سے انجیل کے نیو ٹیسٹمنٹ میں پیغمبر عیسی علیہ السلام کے چند واقعات ضرور موجود ہیں ۔گولان کی پہاڑیوں پر ماضی میں اباد زیادہ تر شامی عرب باشندے 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نقل مکانی کر گئے تھے گولان کے علاقے میں اب 30 سے زائد اسرائیلی بستیاں موجود ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 20 افراد رہائش پذیر ہیں ۔اسرائیلیوں نے 1967کے تنازع کے اختتام کے فورا بعد اس علاقے میں آبادیاں بنانی شروع کر دی تھیں۔ یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں، مگر اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے ۔شام کا کہنا ہے کہ یہ سرزمین گولان کی پہاڑیاں ہمیشہ سے اس کی ملکیت ہیں اور وہ بارہا اس علاقے کو واپس لینے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے۔ جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گولان کے پہاڑیاں اسرائیل کے دفاع کے لیے بہت اہم ہیں اور اس کا کنٹرول ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گا۔ اسرائیل نے کبھی بھی عالمی قوانین کی پرواہ نہیں کی ۔وہ بڑی طاقتوں کے سہارے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سزا کے بعد؟ وجود پیر 20 جنوری 2025
سزا کے بعد؟

گریٹر اسرائیل منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا ؟ وجود پیر 20 جنوری 2025
گریٹر اسرائیل منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا ؟

بھارت خواتین کیلئے غیر محفوظ ملک وجود پیر 20 جنوری 2025
بھارت خواتین کیلئے غیر محفوظ ملک

نیا وزیر اعظم کون؟ وجود اتوار 19 جنوری 2025
نیا وزیر اعظم کون؟

ماں چلی گئی! وجود اتوار 19 جنوری 2025
ماں چلی گئی!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر