... loading ...
رفیق پٹیل
عمران خان کو 14 سال کی سزا ہوگئی ہے، اس کے باوجود پاکستان میں شمالی کوریا سے مماثلت رکھنے والے نظام کے نفاذ کی کوشش ناکامی سے دوچار ہورہی ہے۔ موجو دہ نظام میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا خاتمہ ہورہا ہے ۔آٹھ فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تحقیقات میں مسلسل رکاوٹوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کا مینڈیٹ مشکوک ہے ۔ عدلیہ کے نظام پر بھی وکلاء برادری اور عالمی ادارے بھی تنقید کر رہے ہیں کہ آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ پر انتظامیہ کا غلبہ ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت جسے عوامی پذیرائی نہ ہو ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے پاکستان پر شدید عالمی دبائو ہے ۔ان حالات میں موجودہ حکومت کی تبدیلی کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔پاکستان کی سیاست میں حکومتوں کے اچانک خاتمے اور نئی حکومت کے قیام کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔عموماً رخصت ہونے والے وزیر اعظم آخری وقت تک اپنے اقتدار کے خاتمے سے لاعلم رہتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف آخر وقت تک پرامید تھے کہ ان کا اقتدار برقرار رہے گا لیکن عدالت نے انہیں نااہل قرار دیا اور وہ عہدے پر برقرار نہیں رہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوگئی جس کی انہیں توقع نہ تھی اور وہ وزیراعظم کے عہدے سے فارغ ہوگئے اور انہوں نے فوراً وزیر اعظم ہائوس خالی کردیا۔ موجودہ وزیراعظم بھی اسی امید میں ہیں۔ ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں وسوسہ ( نامعلوم خوف) ہے۔
سیاسی استحکام کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات کا نتیجہ نکلنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں لیکن مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں موجودہ حکومت کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے تسلسل کی صورت میں عدم استحکام گا خاتمہ ممکن نہیں ہے اور حکومت کو عالمی سطح پر جائز تصوّر نہیں کیا جارہا ہے ۔عالمی سطح پر پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے مسلمہ اصولوں پر عملدرآمد پر زور دیا جا رہا ہے جو نئے منصفانہ انتخابات کے بغیر ممکن نہیںہے ۔یہ وہ اسباب ہیں جس کی وجہ سے ایک عبوری حکومت قائم ہوسکتی ہے ۔ایسی صورت ایک نئے وزیر اعظم کی آمد ہوگی، پاکستان میں کا فی عرصے سے ایک قومی حکومت یا عبوری حکومت کا تصّوربعض تجزیہ نگا ر پیش کرچکے ہیں۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ پس پردہ ایک متبادل سیاسی ڈھانچہ ہمیشہ تیار رہتا ہے تاکہ حکومت کے ہنگامی خاتمے کی صورت میں متبادل ڈھانچہ سامنے لایا جائے ۔پاکستان میں پچھلے چند ہفتوں سے غیر یقینی کیفیت میں بہت زیادہ شدّت پیدا ہوچکی ہے ۔خصوصاً 26نومبر کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلوس پر فائرنگ کے بعد بین الاقوامی سطح پر حکومت پر شدید دبائو ہے۔ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت کے عہدے پر کامیابی کے بعد پاکستان کی موجودہ حکومت کی امریکی حمایت کے خاتمے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ عوامی سطح پر بھی حکومت مسلسل اپنی حمایت کھو رہی تھی ۔طاقتور حلقوں کو احساس ہو رہا تھا کہ آٹھ فروری کے دھاندلی زدہ انتخابات سے وجود میں آنے والی موجودہ مصنوعی حکومت کی ناقص حکمرانی کو طول دینا خطرے سے خالی نہ ہوگا ۔بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں رہ کر روز بروز طاقتور ہورہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر محمد علی درّانی نے اپنے ایک انٹرویو میںکہا ہے کہ چھ فٹ قدکے عمران خان کو مسلسل جیل کی قید میں رکھ کر ان کا قد بیس فٹ کا کردیا گیا ہے اور موجودہ حکومت کا برقرار رہنا ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے زوال کے آثار دیکھ کر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی اپنی راہیں جداکرنے کی تیاری کررہی ہیں اورتما م مسائل کی ذمہ دار مسلم لیگ ن کو قرار دے کر خود الزامات سے بچنا چاہتی ہیں۔ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ ناقص حکمرانی کی ذمّہ دار صرف مسلم لیگ ن ہے ۔ پیپلز پارٹی کو عرصہ دراز سے شکایت ہے کہ پارٹی کی پنجاب میں سرگرمیوں کی راہ میں مسلم لیگ ن مسلسل رکاوٹ بنی ہے یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ایک اور شکایت یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کو اس کا جائز حق نہیں دینا چاہتی ہے ۔ایم کیوایم کو بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے شکایت ہے ۔پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے پیچھے کچھ اور کہانی ہو سکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کسی مجبوری یادبائو کی وجہ سے مذاکرات پر آمادہ ہے۔ پی ٹی آئی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا دبا ؤ بڑھا کر مذاکرات پر حاوی ہے اور حکومت کی گرفت کمزور ہورہی ہے۔ عبوری حکومت کے قیام کی صورت میں وزیر اعظم کے لیے مشاہد حسین سید ،خاقان عبّاسی ،محمدعلی درّانی یا کسی غیر معروف اور غیر سیاسی شخصیت کا نام بھی سامنے آسکتاہے ۔
موجودہ حکمران اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایسی عجیب و غریب حرکتیں کررہے ہیں جس سے ان کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اس میں ایک معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ ہے جس پر ہر جگہ تنقید ہورہی ہے۔ مختلف صحافیوں نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ مریم نواز کا یہ بیا ن غلط بیانی پر مبنی تھا کہ وہ جب فیصل آباد کے لیے پرواز کرنے والی تھی تو دھند کی وجہ سے موسم سازگار نہ تھا۔ متعلقہ عملے کے انکار کے باوجود خطرہ مول لے کر طلبہ سے ملنے پہنچی تھیں۔ ایک اور رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ موسم پرواز کے لیے سازگار تھا جبکہ خراب موسم میں سفری پابندی کی خلاف ورزی بھی قانون توڑنے کے مترادف ہے۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ کا ایک شہر میں بے شمار تعلیمی اداروں میں سے کسی ایک کو منتخب کرکے دورہ کرنا اور بقیہ کو نظر انداز کرنا باقی ماندہ تعلیمی اداروں کے طلبہ میں اچھے جذبات کیسے پیدا کر سکتا ہے۔ جس جگہ سے وزیر اعلیٰ کی سواری گذرتی ہے، راستے بند کیے جاتے ہیں۔ عوامی حمایت سے محرومی کے باعث وہاں موجود عوام میں بھی اچھے تاثرات نہیں پیداہو رہے ہیں۔ عوامی حمایت کے لیے مہنگائی کے خاتمے ،برآمدات کی فروغ ،ٹیکسوں میں کمی، امن و امان،صنعت و تجارت کے فروغ سمیت ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے نوجوانوں کو ملازمتوں اور کاروبار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ سیاسی عدم استحکام اورکشیدگی کے خاتمے کے بغیر اس قسم کے اقدامات ممکن نہیں ہیں۔حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ ہے، انہیںرہا نہ کرنے کی صورت میں بیرونی دبائو بڑھتا رہے گا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ان کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پا جائے اور عمران خان جمہوریت کی بحالی اورعدلیہ کی آزدی کے لیے دبائو ڈالنے سے پیچھے ہٹ جائیں اور سخت موقف نہ اختیار کریں۔ بعض صحافیوں نے عمران خان کی ایک اور گفتگو کی رپورٹ کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان نے کچھ لوگوں سے بات کرتے ہوئے پھانسی گھاٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں روز اس طرف دیکھتا ہوں۔اس سے آگے کچھ نہیںخدا ئے برتر کی مرضی کے بغیر وہاں نہیں جا سکتا اور اگر خدا کی مرضی ہوئی تو اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔میں ہر طرح سے تیار ہوں مجھ پر ناجائز دبائو سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔یہ اس رپورٹ کا لب لباب ہے اگر یہ درست ہے تو عمران خان کے اس موقف کے بعد کسی سمجھوتے کی امید بہت کم ہے۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ سے معاشی اور سیاسی بحران میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کی فیصلہ ساز قوتیں اور سیاسی رہنمائوں کو کسی طوفان کی آمد سے قبل فوری فیصلے کرنے ہوں گے۔