... loading ...
معصوم مرادآبادی
دہلی میں چناؤ کا اعلان ہوتے ہی سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے ۔یوں تو یہ ایک چھوٹی سی اسمبلی کا چناؤ ہے ، لیکن اس کی بازگشت ملک ہی نہیں عالمی سطح پر بھی سنائی دیتی ہے ۔یہ ملک کا سب سے ‘ہائی پروفائل’ چناؤ کہلاتا ہے ۔جب سے عام آدمی پارٹی اس چناؤ کے محور میں آئی ہے تب سے اس کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ۔آج سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آیا اس بار عام آدمی پارٹی ہیٹ ٹرک لگائے گی یا پھر اس کا جہاز بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشنری کے پانیمیں ڈوب جائے گا۔ عام آدمی پارٹی گزشتہ دس سال سے یہاں اقتدارمیں ہے اور اس نے اپنی پالیسیوں سے دہلی کے عوام کا دل بھی جیتا ہے ، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا پچھلا دوراقتدار بدعنوانی اور سرپھٹول سے عبارت رہا ہے ۔وہ پارٹی جو کرپشن کے خلاف وجود میں آئی تھی، دہلی کی آب کاری پالیسی میں ہچکولے کھاتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔اس مرتبہ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کی جس انداز میں ناکہ بندی کررکھی ہے ، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کچھ کھیلا بھی ہوسکتا ہے ۔اس الیکشن میں مسلم ووٹوں کے منتشر ہونے کا امکان بھی صاف نظرآرہا ہے ، کیونکہ پچھلے پانچ برس کے دوران کجریوال نے مسلمانوں کو کئی جھٹکے دئیے ہیں اور اپنی سیکولر امیج کو خود اپنے ہی ہاتھوں برباد کیا ہے ۔بی جے پی اس الیکشن میں پوری طرح ہندو کارڈ کھیل رہی ہے ۔اس کی پروپیگنڈہ مشنر کھلے عام ہندوؤں سے ووٹ مانگ رہی ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کی گاڑیوں سے ہندوؤں کو بیدار کیا جارہا ہے ۔ فرقہ پرستی کی ساری حدیں پارکرلی گئی ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ دہلی میں جو بھی سرکار بنتی ہے ، وہ پوری طرح مرکز کے رحم وکرم پر ہوتی ہے کیونکہ یہاں کے حساس شعبے آج بھی مرکزی حکومت کے زیرانتظام ہیں۔ پولیس، اراضی، این ڈی ایم سی اور کئی دیگر شعبوں کا چارج براہ راست مرکزی حکومت کے پاس ہے ، جس کی نمائندگی لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی)کرتا ہے ۔ یہاں صوبائی حکومت کے کام کاج میں ‘ایل جی’کی مداخلت عام بات ہے ۔ سبھی فائلیں ایل جی کے پاس جاتی ہیں اور انھیں پاس یا ناپاس کرنے کا انحصار مرکز کی سیاسی ضرورتوں پر ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سال کا عرصہ دہلی میں وزیراعلیٰ اور ایل جی کے درمیان کھینچ تان میں گزرا ہے ۔ جب یہاں اسمبلی وجود میں آئی تھی توکسی نے درست ہی کہا تھا کہ دہلی میں ایک لولی لنگڑی سرکار بنانے کا حاصل ہی کیا ہے ۔مرکز اور صوبائی حکومت کے درمیان کھینچ تان کا نقصان براہ راست دہلیکے عوام کو پہنچا ہے اور وہ چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پستے رہے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام آدمی پارٹی کی ابتداء بہت خوب انداز میں ہوئی تھی۔ دس سال پہلے جب اس نے عوامی بہبود کے نعرے پر چناؤ لڑا تو70رکنی اسمبلی میں اس نے 67سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور اس کانگریس کا چراغ گل ہوگیا تھا جو شیلا دکشت کی قیادت میں پچھلے پندرہ سال سے اقتدار میں تھی۔لیکن دوسرے الیکشن میں ایسا نہیں ہوا مگر اقتدار عام آدمی پارٹی کے پاس ہی رہا۔ اس درمیان حکومت نے دہلی میں شراب پالیسی کی فروخت عام کردی اور جگہ جگہ شراب کی دکانیں کھل گئیں۔ اس معاملے میں بدعنوانی کا انکشاف ہونے کے بعد عام آدمی پارٹی اور اس کے لیڈروں کی ایمانداری کی پول کھل گئی۔ پہلے نائب وزیراعلیٰ اور پھر وزیراعلیٰ کو اس اسکینڈل میں جیل جانا پڑا۔ بی جے پی کو ایک ایسا موضوع ہاتھ آگیا۔ صورتحال یہ ہے کہ کجریوال اور ان کے نائب منیش سسودیا ضمانت پر ہیں اور ستیندر جین ابھی جیل میں ہی ہیں۔ وزیراعلیٰ کی کمان ابھی آتشی سنگھ کے پاس ہے ، جنھوں نے سی ایم آفس میں وزیراعلیٰ کی کرسی خالی رکھی ہوئی ہے اوروہ ایک دوسری کرسی پر براجمان ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ اس چناؤ میں کجریوال ایک بار پھر کامیاب ہوکر اپنی کرسی پر بیٹھیں گے ۔
جہاں تک دہلی میں مسلم ووٹوں کا سوال ہے تو یہاں مسلم آبادی دس سے پندرہ فیصد ہے اور وہ پانچ سیٹوں پر اکثریت میں ہیں، جہاں ہمیشہ مسلمان ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار منظر بدلا ہوا ہے اور یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ ان حلقوں میں عام آدمی پارٹی اپنی پچھلی کامیابی کو دوہرائے گی۔
عام آدمی پارٹی نے گزشتہ دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ 2020 میں سی اے کے خلاف تحریک کے دوران نارتھ ایسٹ دہلی میں برپاکئے گئے فساد میں تقریباً پچاس بے گناہ افراد کی موت ہوئی، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس فساد کے بعد حسب دستور مسلمانوں پر پولیس کا قہر ٹوٹا اور تقریباً دوہزار مسلمان فسادی قراردے کر گرفتار کرلیے گئے ۔ ان میں سے بیشتر اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔گرفتار شدگان میں عام آدمی پارٹی کا ایک کونسلر طاہر حسین بھی تھا،جسے فساد کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر سنگین مقدمات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے اس کی پیروی کرنے کی بجائے فوراً اس سے اپنا دامن جھاڑ لیا۔ اتنا ہی نہیں اس نے فسادزدگان کے زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھا۔طاہر حسین کو اب مجلس اتحاد المسلمین نے اپنا امیدوار بنایا ہے ،وہ جیل میں رہ کر الیکشن لڑے گا۔ اسی طرح اس فساد کے دودیگر ملزمان شفاء الرحمن اور شاہ رخ کو بھی مجلس میدان میں اتاررہی ہے ۔ مجلس ان پندرہ حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کررہی ہے جہاں مسلم ووٹ خاطر خواہ تعداد میں ہیں۔ کانگریس بھی سب سے زیادہ مسلم حلقوں پر منحصر ہے ۔کجریوال نے جس بے شرمی سے تبلیغی جماعت کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قراردیا تھا، اس سے مسلمان کجریوال سے بہت ناراض ہیں۔ اندیشہ یہی ہے کہ اس بار مسلم حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ کانگریس، عام آدمی پارٹی اور مجلس کے درمیان تقسیم ہوں گے ۔ اگر یہ تقسیم بڑے پیمانے پر ہوئی تو یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم اکثریتی حلقوں سے بی جے پی کامیاب ہوجائے ۔ ظاہر ہے یہ صورتحال مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنا ووٹ تقسیم نہ ہونے دیں اور جس امیدوار کو وہ اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہوں، اس کے حق میں ہی پولنگ کریں۔
دہلی اسمبلی الیکشن میں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ کیا اب واقعی انڈیا اتحاد کے دن پورے ہوگئے ہیں۔یہاں انڈیا اتحاد کی دوپارٹیاں یعنی کانگریس اور عام آدمی پارٹی ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ خود کجریوال نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ دہلی میں تنہا چناؤ لڑیں گے اور کسی سے اتحاد نہیں کریں گے ۔اس کے بعد کانگریس نے تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کردئیے اور وہ عام آدمی پارٹی کے خلاف پورے زور وشور سے چناؤ لڑرہی ہے ۔کانگریس ترجمان پون کھیڑا کا کہنا ہے کہ انڈیا اتحاد لوک سبھا چناؤ کے لیے قومی سطح پرقائم کیا گیا تھا۔ صوبوں کے حالات پر خواہ کانگریس ہویا مقامی پارٹیاں آزادانہ فیصلے لیتے ہیں کہ انھیں ایک ساتھ لڑنا ہے یا الگ الگ۔دوسری طرف جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ اتحاد صرف لوک سبھا الیکشن کے لیے تھاتو اسے ختم کردیا جانا چاہئے ۔عمر عبداللہ کے بیان پر ان کے والد فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد صرف الیکشن لڑنے کے لیے نہیں بلکہ ہندوستان کو مضبوط کرنے اور نفرت کو ختم کرنے کے لیے تھا۔ یہ اتحاد مستقل ہے اور ہردن اور ہر لمحہ کے لیے ہے ۔بہرحال پچھلے لوک سبھا چناؤ کے دوران دہلی میں اپوزیشن اتحاد کے جو بے مثال نظارے دیکھنے کو ملے تھے وہ اب کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ الیکشن انڈیا اتحاد کے لیے ایک آزمائشسے کم نہیں ہے ۔