وجود

... loading ...

وجود

خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام

اتوار 12 جنوری 2025 خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام

رفیق پٹیل

پی ڈی ایم کی سابقہ اور موجودہ حکومت کے دوران مسلسل سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے ثابت کردیا ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت کی خواہشات اور امنگوں کے خلاف ملک کے نظام کو چلانے اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کو کچلنے کے نتائج سے ملک کا سیاسی ،معاشی اور سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے ،جس سے ملک کی سا لمیت اور بقا کو بھی خطرات ہوسکتے ہیں۔ جدید دور میںمقبول سیاسی جماعت کے خلاف طاقت کے ناجائز استعمال کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیاکے اہم مما لک باریک بینی سے اس طرح کی کارروئیوںکا جائزہ لیتی ہے ۔اعلیٰ عدلیہ اور قانون دان طبقے میں بھی اس بات پر تشویش پائی جارہی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ کو مفلوج کردیا ہے اور انتظامیہ خود عدلیہ کی جگہ لے رہی ہے ۔در اصل موجودہ آئینی ترمیم کے ذریعے عملی طور آئین کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے ۔موجودہ نظام کے تحت جب بھی نئے انخابات ہوں گے ،حکمراں جماعت کی مرضی کے مطابق قائم کردہ الیکشن کمیشن ہی کرائے گا یا موجودہ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جائے گی۔ نتائج بھی اپنے مرضی کے ریٹرننگ افسر کریںگے ۔یہی جماعتیں مزید بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گی۔ عمر رسیدہ اراکین اور وزراء ریٹائرڈ ہوکر اپنی اولادوں کواسمبلیوں میں بھی لے آئیں گے۔ بڑھتے برھتے یہ سلسلہ اسمبلیوں سے حزب اختلاف کے خاتمے تک پہنچ جائے گا۔ اس انتظام کے تحت حکمراں جماعت کاہر امیدوار من پسند ریٹرننگ افسر کی تعیناتی چاہے گا۔ حکمراں جماعت بھی اپنے امیدواروں کی خواہشات کی تکمیل کرے گی ۔یعنی ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی کوشش کی گئی ہے جو شمالی کوریا سے مماثلت رکھتا ہو، حکمران نسل در نسل حکومت کرتے رہیں اور ان پر کسی قسم کی روک تھام یا گرفت نہ ہو ۔ہم شمالی کوریا نہیں بن سکتے ہیں ۔یہ آدھا تیتر اورآدھا بٹیر ہے۔ اس طرح کے غیر منصفانہ نظام میں اندرونی انتشار بھی جنم لیتا ہے ،ملک تباہی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کے قریبی ساتھی جو ٹی وی پروگرام میں مبّصر بھی ہیں ،ا پنی” دانش مندانہ ” رائے دیتے ہوئے فرمارہے تھے کہ ان کی نظر میں نئے انتخابات ایک ممکنہ حل ہیں جو نسبتاً منصفانہ ہوں (یعنی اس میں بھی دھاندلی ہو) ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پی کے ، پنجاب اور سندھ میں بھی مقبول ہے، اس لیے منصفانہ انتخابات میں موجودہ برسراقتدار جماعتوں کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔ان وجوہات کی بنیاد پر منصفانہ انتخابات نہیں کرائے جا سکتے ۔دوسرے الفاظ میں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ کس جماعت کو کتنی نشستیں دی جائیں۔ حالانکہ جمہوریت سے منصفانہ انتخابات کو علیحدہ کر دیا جائے تو جمہوریت کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے اور جعلسازی پر مبنی نظام قائم ہوجا تا ہے ۔شفّاف جمہوری عمل اورمنصفانہ انتخابات سے ہی عوام کا حکومت پر اعتماد قائم ہوتا ہے۔ مشہور انگریزی محاورہ ہے کہ ” جمہوریت کی خرابی کا علاج مزید جمہوریت ہے” ۔شفّاف جمہوری عمل میں خراب کارکردگی کی وجہ سے بعض سیاسی جماعتوں کو عوام رد کر دیتے ہیں۔ اس طرح بہتر سے بہتر نمائندے سامنے آجاتے ہیں۔ مغربی جمہوریت کے نظام میںترقّی یافتہ ملکوں نے اسی طرح ترقّی کی تھی اس کے برخلاف بنگلہ دیش میں جب انتخابی دھاندلی کے ذریعے اپنے مخالفین کو کچلنے کے اقدامات کیے تو اس کے نتیجے میں وہاںبر سراقتدار عوامی لیگ کو عوام نے باہر نکال دیا ۔عوامی لیگ تقریباً ختم ہوگئی ہے ۔پاکستان کا سیاسی منظر نامہ دیکھ کر سیاست کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی یہ اندازہ لگا سکتاہے کہ عوام کی حمایت سے محروم موجودہ حکمرانی کامصنوعی نظام ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بحران میں اضافہ کر سکتا ہے ۔ اس بحران میںکمی کا دور دور تک امکان نہیں ہے ۔عوامی حمایت کے بغیر ا ستحکام کی توقع کو دیوانے کاخواب کہنا اگر درست نہیں تواور کیا کہا جاسکتا ہے۔
نامعلوم وجوہات کے سبب شاید بعض دانشور اپنے مرتبے اور مقام کی پرواہ کیے بغیر موجودہ بحران کو بھی استحکام اور خوشحالی کہتے ہیں ایسی جھوٹی کہانیوں پر شاید وہ خود بھی یقین نہیں رکھتے ہوں گے ۔ایسی جھوٹی تسلّیوں پر عوام کسی صورت یقین نہیں کریں گے۔ آج حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیںکہ حکمران جماعتوںکے رہنما اور فیصلہ ساز یا تو بے بس ہیں یا زمینی حقائق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے ر یت میں منہ چھپارہے ہیں یا ان کے سارے اندازے ہوائی قلعوں کی طرح ایسے خیالی پلائو کی طرح ہیں جو ان کے مصنوعی اقتدار کو لے کر ڈوب رہا ہے۔ شاید ان کے پاس دولت کے انبار بھی ہوں گے، معاملات مزید خراب ہوئے تو اس دولت سے بھی انہیں محرومی کا سامنا ہو سکتا ہے ،کوشش جاری ہے کہ مو جودہ حکمران وقتی طور پر اپنے بچائو کا راستہ تلاش کر لیں ۔اس کے باوجود اقتدار کے خاتمے کے بعد دنیا کے کسی کونے میں انہیں پردہ پوشی کی زندگی گزارنی پڑے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو جال انہوں نے عوام کو قابو اور بے بس کرنے کے لیے بچھایا تھا ،اس میں خود پھنس گئے ہیں۔اب اس سے نکلنے کا راستہ نظر نہیں آتا۔ یہ بات بھی حکمرانوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر عمران خان کیوں راضی نہیں ہورہے ہیں ۔وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عمران خان کی رہائی تو معمولی بات ہے شاید وہ بے اختیار وزیر اعظم بننے کی پیش کش بھی قبول نہیں کریں گے۔ وجہ یہ ہے کہ عمران خان عمر قید یا سزائے موت کے لیے تیا ر ہیں لیکن موجودہ نظام کو قبول کرنے کواس وقت تک تیار نہیں جب تک مغربی طرز سے قریب پاکستانی معاشرے سے مطابقت رکھنے والی جمہوریت اورقانون کی حکمرانی پر مشتمل نظام قائم نہیں ہوتا ،جوغیر جانبدارانہ منصفانہ انتخابات اور انسانی حقوق کے علاوہ آزاد عدلیہ کی ضمانت دے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے کارکنوں کی رہائی چاہتے ہیں۔انہیں واضح نظر آرہا ہے جیل کا ایک ایک لمحہ انہیں مقبول سے مقبول تر بنارہا ہے۔ قید کی زندگی ان کی قدرو منزلت میںقومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل اضافے کاباعث ہے جبکہ بر سراقتدا ر گروہ کا ہر گزرنے والا لمحہ ان کے لیے عوامی نفرت کا باعث بن رہاہے۔ عمران خان دیو بنتے جا رہے ہیں اور ان کے مخالفین کاقد اس قدر کم ہورہا ہے کہ وہ بونے بن رہے ہیں ۔ ان کے خلاف اقدامات ان کے لیے طاقت کا ٹیکہ بن چکے ہیں۔ حکمران جماعتوں کے عہدیدار سہمے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔ شاید بیرونی دبائو سے ان کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں دیے جانے والے بیانات پر خود انہیں بھی اعتماد نہیں ہے ،ان کا لہجہ اور چہروں کے تاثرات بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ یہ تصوّر کر لینا کہ ملک میں انصاف کا خاتمہ کرکے انسانی حقوق کو معطّل کرکے انتظامیہ کو قانون اور آئین سے بالا کرکے استحکام آسکتا ہے ،بیمار ذہن کی عکّاسی ہے ۔جابرانہ اور آمرنہ قسم کے نظام کے ذریعے ملک چلانے کے بے حد نقصانات ہوچکے ہیں۔اب عالمی دبائو بھی بڑھ رہاہے ،اس وقت سبق حاصل نہ کیا گیاتو نقصانات میں اضافہ روکنا ممکن نہ ہوگا ۔پاکستان کوعوامی حمایت کے ذریعے کسی بھی المیے سے بچاناہوگا۔عوام کواختیار دیا جائے تو وہ تیز رفتا معاشی ترقّی سے ملک کو بحران سے نکا ل لیں گے ۔ا نتخابی دھاندلی سے تیار کردہ جھوٹ کے نظام سے نجات میں ہی ملک کی بھلائی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام وجود اتوار 12 جنوری 2025
خوشحالی کی جھوٹی کہانی اور عوام

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف وجود اتوار 12 جنوری 2025
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ایک اہم تصنیف

مریم نواز کا مصافحہ! وجود هفته 11 جنوری 2025
مریم نواز کا مصافحہ!

ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ وجود هفته 11 جنوری 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ

جمہور اور جمہوریت وجود هفته 11 جنوری 2025
جمہور اور جمہوریت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر