... loading ...
جاوید محمود
بشار الاسد کا جب تختہ الٹا جا رہا تھا اس وقت باغی رہنما احمد الشرع اپنے گروہ کے ہمراہ شام کے متعدد حصوں پر برق رفتاری سے قبضہ کرتے ہوئے دمش پہنچے تو ان کی جانب سے اپنی فتح کے موقع پر کی گئی تقریر میں ایک اہم بات نظر انداز کر دی گئی۔ یہ اس غیر قانونی نشہ اور مواد سے متعلق بات تھی جو گزشتہ 10 برسوں کے دوران مشرقی وسطی میں تیزی سے پھیلا ہے ۔انہوں نے اس روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ شام دنیا بھر گپٹا گون کے پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور آج خدا کے فضل سے شام اس سے پاک ہونے جا رہا ہے۔ گپٹا گون کے بارے میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے باہر کے لوگ کم ہی جانتے ہیں ،یہ عادی کرنے والا نشہ ہے جو ایمفٹا مین کی گولی جیسا ہوتا ہے اور اسے غریب آدمی کی کوکین بھی کہا جاتا ہے ۔اس نشے کی پیداوار وقت کے ساتھ شام میں بہت تیزی سے بڑھی ہے کیونکہ شام کی معیشت، جنگ عالمی پابندیوں اور بڑے پیمانے پر شامی باشندوں کی بیرونی ملک نقل مکانی کے باعث تباہ ہو چکی تھی۔
شام کے ہمسایہ ممالک گپٹا کون کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کو روکنے میں مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ تمام شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مشرقی وسطیٰ میں شام ہی گیپٹل گون کی پیداوار کا بڑا مرکز ہے اور ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس کی غیر قانونی تجارت کا سالانہ حجم.6. 5ارب ڈالر ہے جس بڑے پیمانے پر یہ نشہ آور گولیاں بنائی اوراسمگل کی جا رہی تھیں، اس سے یہ اندیشہ بڑھ رہا ہے کہ کسی ایک مخصوص جرائم پیشہ گینگ کا کام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی صنعت ہے جسے حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔باغی رہنما احمد الشرع جنہیں پہلے ابو محمد الجولائی کے نام سے جانا جاتا تھا کی ابتدائی تقریر کے چند ہفتوں بعد ایسے حیران کن مناظر منظر عام پر آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اندیشہ درست تھا ،یعنی شامی حکومت کا اس کام میں ملوث ہونا۔ ایسی ویڈیو سامنے آئی ہیں جن میں شامی شہری چند ایسے گھروں میں داخل ہوئے جو مبینہ طور پر ملک کے معزول ہونے والے صدر بشار الاسد کے رشتہ داروں کی ملکیت تھے۔ ویڈیوز میں ان نشہ آور گولیوں سے بھرے ہوئے کمرے دیکھے جا سکتے ہیں، ان گولیوں یا منشیات کے بڑے کھیپ کو جعلی مصنوعات میں چھپایا گیا ہے ۔اس کے علاوہ ویڈیوز میں بظاہر شامی فوج کے فضائی اڈے پر نشہ آور گولیاں کے انبار دیکھے جا سکتے ہیں، جنہیں شامی باغی گروہ کے اراکین نذرآتش کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گیپٹاگون سعودی عرب کے امیر نوجوانوں سے لے کراردن میں نوکری پیشہ افراد استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گپٹاگون کوکین سے زیادہ خطرناک نشہ ہے۔ اس کے عادی کھانے کا بغیر تو رہ سکتے ہیں مگر اس نشے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تصور کریں الشرع اور ان کا باغی گروہ شام اور مشرقی وسطی میں ایسے بے تحاشا افراد کا کیا کرے گا۔ جوگپٹا گون نامی اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں اور اب اچانک اس نشے کی سپلائی ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اتنی منافع بخش تجارت کے خاتمے کا شامی معیشت پر کیا اثر ہوگا اور اب جب اس کی پشت پناہی کرنے والے نہیں رہے تو الشرع ایسے جرائم پیشہ گروہوں کو ان کے جگہ لینے سے کیسے روکیں گے ؟مشرقی وسطی میں گیپٹا گون کے پھیلاؤ نے خطے کو منشیات کی جنگ میں دھکیل دیا تھا کچھ عرصے تک سعودی عرب نے لبنان سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمد معطل کر دی تھی کیونکہ حکام کو اکثر اناروں سے بھرے شپنگ کنٹینرز میں ایسے انار ملتے تھے جنہیں خالی کر کے ان کے اندر یہ گولیاں بھری گئیں تھیں۔ رپورٹ کے مطابق بشار الاسد کے ایک دور پر ے کے رشتہ دار اور شامی فوج خاص طور پر اس کے فورتھ ڈویژن جس کی سربراہی بشار الاسد کے بھائی ماہر کر رہے تھے ،ماہر شاید اپنے بھائی کے بعد شام کا سب سے طاقتور شخص تھا ۔ان پر 2011میں جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف تشدد کرنے پر متعدد مغربی طاقتوں کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ فرانس میں عدلیہ کی جانب سے ماہرالاسد اور بشار الاسد پر شام میں 2013میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے بین الاقوامی وارنٹس جاری کیے گئے تھے۔ لبنان میں قید ایک گپٹاگون کے تاجر کی واٹس ایپ چیٹ تک رسائی ملی جس کی وجہ سے ماہرالاسد فورتھ ڈویژن اور ان کے نائب جنرل غسان بلال کے ان نیٹ ورک میں کردار کے بارے میں معلوم ہوا۔ یہ انکشاف اس بات کی تصدیق کرنے میں ایک اہم سنگ میل تھا کہ شام کی فوج اور بشار الاسد کی قریبی حلقوں کا نشے کی اس تجارت میں اہم کردار ہے۔ مئی 2023میں عرب لیگ نے شام کو 12سال بعد دوبارہ لیگ کے رکن کے طور پر شامل کیا تھا۔ اسے 2011میں مظاہرین کو تشدد کا سہارا لے کر دبانے کے باعث عرب لیگ سے نکالا گیا تھا۔ عرب لیگ نے دوبارہ شمولیت کے فیصلے کو بشار الاسد کی سفارتی فتح قرار دیا گیا تھا اور اس وقت بتایا گیا تھا کہ عرب لیگ نے بشار الاسد کی جانب سے گیپٹا گون کی تجارت کو روکنے کے ضمن میں کیے گئے وعدوں کو بنیاد بنا کر کیا ہے ۔
شام کے ریاستی اداروں پر کنٹرول بڑھانے والے باغی رہنماؤں کو بظاہر معلوم ہے کہ گیپٹاگون کی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کا وعدہ پڑوسی ملکوں کے لیے مثبت پیغام ہے۔ لیکن مالی طور پر فائدہ مند اس مجرمانہ کاروبار سے نجات ملک کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ کیونکہ کئی برسوں تک خود ریاست نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ماہرین کے مطابق مشکلات اس وقت بھی جنم لے سکتی ہیں اگر اس کی طلب سے نہ نپٹا گیا روز کے مطابق جب سے ہیت تحریر الشام نے شمال مغربی صوبے ادلب کا کنٹرول سنبھالا ہے تب سے حالات میں بحالی کے لیے سرمایہ کاری کے بہت کم شواہد ملے ہیں ۔گیپٹا گون کی کھپت کو روکنے کی کوششیں مایوس کن ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ شام کے ذریعے ایک اور منشیات ا سمگل کی جا رہی ہے جس میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی لوگ کرسٹل میتھ کو متبادل کے طور پر استعمال کریں گے ۔خاص کر وہ لوگ جن پر گیپٹاگون اب بے اثر ہے اور انہیں نشے کے لیے مزید کوئی ٹھوس چیز درکار ہے۔ امید ہے کہ عالمی برادری انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد اور پابندیوں کے خاتمے کے ذریعے لوگوں کو منشیات کی اسمگلنگ میں جانے سے روکے گی ۔اگرچہ منشیات کے بڑے اسمگلر فرار ہو چکے ہیں تاہم ملک میں پیداوار اور اسمگلنگ کا نیٹ ورک اب بھی موجود ہے۔ پرانی عادتیں مشکل سے ختم ہوتی ہیں۔