... loading ...
ڈاکٹرجمشید نظر
مولانا حسرت موہانی قیامِ پاکستان سے قبل ایک مرتبہ دہلی گئے تو قائد اعظم سے ملنے ان کی رہائش گا پر پہنچے۔ شام کا وقت ہوچکا تھا مولانا نے اپنی آمد کی اطلاع کرانے کے لیے ملازمین سے کہا مگر ہر ایک نے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم قائد کے پاس نہیں جا سکتے کیونکہ وہ اس وقت کسی سے ملاقات نہیں کرتے ۔ مولانا نے بھی دل میںتہیہ کرلیاکہ ملے بغیر نہیں جائیں گے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا تومولانا نے کوٹھی کے لان میں ہی نماز ادا کی اور پھر وہیں ٹہلنے لگے۔انھوں نے دل میں سوچا کہ کسی طرح معلوم کرکے قائد اعظم تک پہنچنا چاہیئے۔ یہ سوچ کر کوٹھی کے برآمدوں میں گھومنے لگے کہ ایک کمرے سے کسی کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ مولانا حسرت موہانی نے خیال کیا کہ قائد اعظم اس کمرے میں ہیں اور کسی سے گفتگو میں مصروف ہیں لیکن کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش کی اور جو کچھ دیکھا وہ مولانا کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیںلہ ”اندر کمرے میں فرش پر مصلیٰ بچھا ہوا تھا، قائد اعظم گریہ و زاری میں مصروف تھے۔ زیادہ فاصلے کی وجہ سے ان کے الفاظ صاف سنائی نہ دیتے تھے لیکن اندازہ ہوتا تھا کہ ان پر رقت طاری ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرے بہت بے قراری کے ساتھ دعا و التجا کر رہے ہیں۔(آغا اشرف، مرقع قائد اعظم: 63)
قائداعظم جب گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں قیام پذیر تھے تو کبھی کبھی سیر کے لئے ملیر تک جایا کرتے تھے ۔ایک روز آپ کار میں اے ڈی سی گل حسن(جو بعد میں جنرل بنے) کے ہمراہ جارہے تھے کہ راستے میں ایک ریلوے پھاٹک آگیا اور اتفاق سے اس وقت ریل کے گزرنے کا ٹائم تھا جس کی وجہ سے ڈیوٹی پر موجود ریلوے کے ملازم نے پھاٹک بند کردیا۔پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے قائداعظم کی کار رک گئی۔ یہ دیکھ کر اے ڈی سی کار سے اترے اورپھاٹک والے سے کہا کہ اگر ٹرین دور ہے اوراس کے آنے میں کچھ وقت ہے تو پھاٹک کھول دو کیونکہ کار میں قائد اعظم بیٹھے ہیں ۔یہ سن کر ملازم نے پھاٹک کھول دیا۔جب اے ڈی سی واپس کار میں آکر بیٹھے تو قائداعظم نے ان سے کہا کہ” واپس جاو اور پھاٹک بند کرو،قانون سب کے لئے قانون ہوتا ہے،تم مجھ سے کس طرح بے اصولی کی توقع کرتے ہو۔”اے ڈی سی نے واپس جاکر پھاٹک بند کروادیا اور پھر ٹرین کے گذرنے کے بعد قائد اعظم کی کار آگے بڑھی۔ ایک مرتبہ قائد اعظم کسی کے مقدمہ کے لئے آگرہ تشریف لائے تو لیگ کے کچھ کارکن آپ سے ملاقات کے لئے آگئے اوردرخواست کرنے لگے کہ ایک خصوصی جلسہ ترتیب دیاگیاہے آپ اس میں تقریر فرمائیں۔ قائد اعظم نے ان سے معذرت کرلی۔ کارکن حیران ہوگئے کہ قائداعظم نے کیوں منع کردیا ہے انھوں نے وجہ دریافت کی تو قائد اعظم نے فرمایا کہ”میں یہاں اپنے موکل کی طرف سے پیش ہونے آیا ہوں،جس کی وہ فیس ادا کررہا ہے،میں کیسے خیانت کروں؟آپ جلسہ کرنے چاہتے ہیں ضرور کریں۔بعد میں بلا لیں میں اپنے خرچ پر آجاوں گا۔”
قائد اعظم کی قابلیت ،ذہانت،محنت،ایمانداری ،دور اندیشی اوراصول پسندی کے صرف مسلمان ہی قائل نہیں تھے بلکہ ہندو اورانگریز بھی ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے معترف تھے یہی وجہ ہے کہ انگریز اب تک اس بات کا رونا روتے ہیں کہ اگر انھیں قائد اعظم محمد علی جناح کی بیماری کا علم پہلے ہوجاتا تو وہ کبھی بھی پاکستان بننے نہ دیتے۔ قائد اعظماپنی بیماری سے متعلق بہت پہلے سے آگاہ تھے اور یہ ان کی دور اندیشی تھی کہ انھوں نے کبھی اپنی بیماری کو ہندووں اورانگریزوں پر ظاہر ہونے نہیں دیاتھاکیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اگر ہندووں اور انگریزوں کو ان کی بیماری کاعلم ہوگیا تو پھرانگریز ہندوستان کی تقسیم کو موخر کردیں گے۔
آپ کی مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کے قیام کے لئے جدوجہداور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کا اندازہ اُن تاریخی جملوں سے لگایا جاسکتاہے جب وفات سے قبل قائد نے اپنے ڈاکٹر سے کہے تھے آپ نے کہا کہ ”پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا اگر اس میں فیضان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل نہ ہوتا۔” آپ سولہ سال کی عمر میںوکالت کی تعلیم کے حصول کے لئے جب لندن گئے تو وہاں تعلیمی درسگاہ ”لنکنز اِن” میں داخلہ کو اس لئے ترجیح دی کہ اس کے صدر دروازے کے اوپر دنیا کے عظیم ترین رہنماوں کے نام درج تھے جنھوں نے دنیا کو قوانین سے متاثر کیااوران میں سرفہرست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لکھا تھا۔آج اسی تاریخی درسگاہ لنکنز اِن کی لائبریری میں قائد اعظم کا مجسمہ نصب ہے جسے برطانوی مجسمہ ساز فلپ جیکسن نے تیار کیا تھا۔قائد کا مجسمہ دنیا بھر سے وکالت کی تعلیم کے لئے وہاںآنے والے طلباء کو یہ پیغام دیتا ہے کہ کس طرح قائد اعظم نے دنیا کو اپنے کامیاب اور مضبوط دلائل سے قائل کرکے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن پاکستان کی بنیاد رکھی۔
ایک مرتبہ سن1941 ء میں قائد اعظم مدراس میں مسلم لیگ کا جلسہ کرکے واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک قصبہ سے گزر ہوا جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا،سب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگارہے تھے اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک آٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہا تھا، اسے دیکھ کر قائد نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کرپوچھا”تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو؟”لڑکا گھبراگیا۔قائد نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھروہی سوال پوچھا۔لڑکا بولا”پاکستان کا بہتر مطلب آپ جانتے ہیں،ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندووں کی حکومت وہ ہندوستان۔”قائد اعظم نے اپنے ساتھ آئے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ”مدراس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے۔”یہ بات صحافیوں نے نوٹ کرلی اور اگلے روز دنیا کے اخبارات میںیہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی قائد اعظم کی قابلیت اور دیانت کومانتے تھے۔ سن1936ء کے آخری دنوں میں ایک روزجب قائد اعظم کی امانت ، دیانت اور قابلیت کا ذکر ہو رہا تھا اس پر علامہ اقبال نے کہا”مسٹر جناح (اس وقت تک ان کے لیے قائد اعظم کا لقب رائج نہیں ہوا تھا)کواللہ تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج تک ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آئی ۔” حاضرین میں سے کسی نے پو چھا کہ وہ خوبی کیا ہے؟ تو علامہ اقبال نے انگریزی میں کہا”He is incorruptible and unpurchaseable”۔آج نئی نسل کو قیام پاکستان کے لئے دی گئی قربانوں کو یاد رکھتے ہوئے ملک میں ترقی،خوشحالی،امن اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا۔