وجود

... loading ...

وجود

ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار

بدھ 25 دسمبر 2024 ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار

سمیع اللہ ملک
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیا ہے کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اوراس کے پھیلاکے خطرات کے پیش نظرایگزیکٹو آرڈرکے تحت چارپاکستانی اداروں پرپابندیاں عائدکردی گئی ہیں جن میں اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنے والا ایک سرکاری ادارہ بھی شامل ہے۔پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلقہ اداروں اورسپلائزرپرامریکی پابندیوں کاسلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہااوراس سال تیسری مرتبہ بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کی معاونت کے الزام میں پابندیاں عائدکی گئی ہیں۔
امریکی الزام ہے کہ اسلام آبادمیں واقع نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس((ین ڈی سی)نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کی تیاری کیلئے مختلف آلات حاصل کیے ہیں جن میں خاص قسم کے وہیکل چیسیز شامل ہیں جومیزائل لانچنگ کے معاون آلات اورٹیسٹنگ کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔این ڈی سی شاہین سیریزکے میزائلوں سمیت پاکستان کے دیگر بیلسٹک میزائلوں کی تیاری میں ملوث ہے۔بیان کے مطابق کراچی میں واقع اختراینڈسنزپرائیویٹ لمیٹڈنے این ڈی سی کیلئے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے مختلف آلات فراہم کیے ہیں۔اس کے علاوہ کراچی میں واقع فیلیئٹس انٹرنیشنل پرالزام ہے کہ اس نے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مددکی غرض سے این ڈی سی اوردیگر اداروں کیلئے میزائل سازی میں مطلوب سامان کی خریداری میں سہولت کاری کی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ یہ پابندیاں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس سمیت تین فرموں پرعائد کی جارہی ہیں جوبڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اوران کیلئے آلات کی ترسیل میں ملوث ہیں۔ امریکی تھنک ٹینگ کارنیگی انڈامنٹ کے زیرِاہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جوبائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیرجان فائنرکاکہناہے کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اورایسے دیگرہتھیاربنالیے ہیں جواسے بڑی راکٹ موٹرز کے (ذریعے)تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔اگریہ سلسلہ جاری رہتاہے توپاکستان کے پاس جنوبی ایشیاسے باہر امریکا کو بھی اپنے اہداف کونشانہ بنانے کی صلاحیت آجائے گی،اوراس چیزسے پاکستان کے ارادوں پرحقیقی سوالات اٹھتے ہیں۔
”ایسے امریکامخالف ممالک کی فہرست جن میں روس،شمالی کوریااورچین جوجوہری ہتھیاربھی رکھتے ہیں،ان کے پاس براہِ راست امریکاکونشانہ بنانے کی صلاحیت بھی ہے۔ہمارے لیے یہ مشکل ہوگاکہ ہم پاکستان کے اقدامات کوامریکا کیلئے خطرے کی حیثیت سے نہ دیکھیں۔ مجھ سمیت ہماری انتظامیہ کے سینیئررہنماں نے متعددباران خدشات کااظہارپاکستان سے کیاہے۔پاکستان طویل عرصے سے امریکاکاپارٹنررہاہے اوروہ مشترکہ مفادات پرپاکستان کے ساتھ مزید کام کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ہمارے نزدیک یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ پاکستان ایسی صلاحیت کیوں حاصل کررہاہے جوہمارے خلاف استعمال ہوسکے؟ بدقسمتی سے ہمیں لگتاہے کہ پاکستان ہمارے اوربین الااقوامی برادری کے خدشات کوسنجیدگی سے لینے میں ناکام ہواہے”۔
دراصل امریکی حکام کاحالیہ الزام تکنیکی حقائق کے خلاف ہے۔پہلی وجہ تکنیکی،دوسری تزویراتی یاسٹریٹیجیکل اورتیسری وجہ معاشی یا پولیٹیکل ہے۔تکنیکی طورپرایساممکن نہیں کیونکہ پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں میں جدت لانے کامقصدانڈیاکے علاوہ کسی دوردرازکے ملک کونشانہ بنانانہیں بلکہ انڈیاکے تیزی سے ترقی پذیرمیزائل ڈیفینس نظام کاسدباب کرنایاناکام بناناہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن جتنا بھی جدید ڈیفینس سسٹم بنالے،آپ کابیلیسٹک یاکروزمیزائل اسے ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتاہواور اس کارینج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسرائیل کے پانچ تہوں پرمشتمل ڈیفینس سسٹم کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں ایرواور آئرن ڈوم سے لے کر ڈیوڈزسلنگ، انٹرسیپٹر اور اینٹی ائیرکرافٹ گنزبھی شامل ہیں۔اگرکوئی میزائل پانچ تہوں سے نکل کراپنے ہدف کو نشانہ بناکراسے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے تواس کاایم آئی آرویزسے لیس ہوناضروری ہوتاہے جیساکہ پاکستانی میزائل ابابیل ہے۔ایم آئی آرویز کامطلب ایک ایسامیزائل ہے جو بیک وقت کئی وارہیڈزلیجاسکتاہے جوآزادانہ طورپرپروگرامڈہوتے ہیں اوران وار ہیڈزکی تعدادتین سے آٹھ اوراس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے اورروس کے کیس میں12تک بھی ہے۔یہ میزائل آزادانہ طورپراپنے اپنے ہدف کی جانب جاتے ہیں اورہرایک کاہدف کی جانب سفرکاراستہ مختلف ہوتاہے۔اس کامقصدیہی ہوتاہے کہ آپ ایک میزائل کے ذریعے سے جب اسے لانچ کرتے ہیں اورجب اس کی ری انٹری وہیکل دوبارہ فضا میں داخل ہوتی ہیں تووہ مختلف سمتوں میں پھیل کراپنے اپنے ہدف کونشانہ بناتی ہیں۔اس کی مثال فائٹر طیاروں کی فارمیشن جیسی ہے جو ہدف پرپہنچنے سے پہلے،وہاں پہنچ کر،حملے کے دوران اوربعدمیں مختلف ہوتی ہے۔فائٹرطیارے کسی ٹارگٹ پر پہنچ کر سرفیس ۔ائیر میزائل اوراینٹی ائیرکرافٹ گن سے بچنے کیلئیاس اندازمیں ادھرادھرپھیل جاتے ہیں کہ وہ سب دشمن کی فائرنگ کی زد میں آئے بغیرمختلف سمتوں سے ٹارگٹ کونشانہ بناسکیں۔امریکاکے پاس ایسامیزائل Minuteman IIIہے اورانڈیانے حال ہی میں اس ٹیکنالوجی میں جدت لانی شروع کی ہے۔
پاکستان اگراسی کوبہتربنارہاہے تواس کامقصدانڈیاکے علاوہ کسی اورملک کوہدف بنانابالکل نہیں مگرانڈیاکے سسٹم میں آنے والی جدت ہے( وہ ایس400کے حوالے سے یاکسی اورسے)کوناکام بناکران کی ٹارگٹ تک پہنچنے کی صلاحیتوں کاسدباب ہے۔ پاکستان کسی ایسی ٹیکنالوجی پرکام نہیں کررہاجوپہلے سے انڈیاکے پاس نہیں ہے اورانڈیانہ صرف آئی سی بی ایم(بین البراعظمی بیلسٹک میزائل)بنارہاہے بلکہ انہیں ٹیسٹ بھی کرچکاہے جن کی رینج5000کلومیٹرسے زیادہ ہے جس کامطلب ہے کہ ان کاٹارگٹ پاکستان یاچین نہیں ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان نے اس رینج کے کسی میزائل کاآج تک تجربہ نہیں کیا۔
پھرپاکستان پریہ الزام تکنیکی حقائق کے بھی خلاف ہے۔جب تک ایک سسٹم(میزائل)ایک رینج پرٹیسٹ نہیں ہوجاتاتب تک یہ نہیں کہا جاسکتاکہ اس ملک نے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے اورپاکستان نے اب تک ایسا کوئی میزائل ٹیسٹ نہیں کیاجس کی رینج انڈیا سے باہر ہو۔ انڈیاایس ایس بی این((نیوکلیئرڈپاورڈبیلسٹک میزائل سب میرین)یابیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی آبدوزیں بھی بنا رہا ہے۔میزائلوں کی بحث میں زمین سے زمین پرمارکرنے والے میزائلوں کوتوبہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے مگر سمندرکی سطح کے نیچے یا
جوہری آبدوزیں رکھنے والے صلاحیتوں کے حامل ممالک سے صرفِ نظرکیاجاتاہے جن میں رینج کا چکرہی نہیں ہوتاکیونکہ کسی بھی ملک کے قریب آبدوزلے جاکروہاں سے یہ میزائل فائرکیے جاسکتے ہیں۔اس کی مثال انڈیاکی ”اریہنت”اور”اریگاتھ”ایٹمی آبدوزیں ہیں جواب انڈیاکے بحری بیڑے کاحصہ ہیں۔یادرہے امریکا، برطانیہ،فرانس،روس اورچین کے پاس بھی ایٹمی آبدوزیں موجودہیں یعنی یہ پانچ ممالک دنیاکے کسی بھی ملک پرجوہری حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔دوایٹمی آبدوزوں کواپنے بحری بیڑے میں شامل کرنے کے بعدانڈیانے بھی یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے یعنی وہ ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیاہے جوامریکاسمیت دنیاکے کسی بھی ملک پرایٹمی حملہ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔صرف زمین کی سطح سے زمین تک مارکرنے والے میزائلوں پربحث انتہائی اہم تزویراتی حقائق سے پہلوتہی ہے۔

یاد رہے اس سے قبل رواں سال ستمبرمیں امریکانے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اورکئی کمپنیوں پرپابندیاں عائدکیں تھیں جن کے بارے میں ان کادعوی تھاکہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے آلات اورٹیکنالوجی کی فراہمی میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ اسی برس اپریل میں چین کی تین اوربیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر 2023میں پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اورسامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مزیدکمپنیوں پراسی طرح کی پابندیاں عائدکی تھیں۔اس کے علاوہ دسمبر 2021 میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ طورپرمددفراہم کرنے کے الزام میں 13پاکستانی کمپنیوں پرپابندیاں عائدکی تھیں۔ تاہم پاکستان نے اس امریکی اقدام کو”مایوس کن”قراردیتے ہوئے کہاہے کہ حالیہ امریکی پابندیوں کامقصدخطے میں عسکری عدم توازن کوبڑھاوادیناہے۔اس سلسلے میں میرا6/اکتوبر24 کاکالم ”امریکی پابندیوں کا اثر:چین اورپاکستان کاجوابی رد عمل” اور 14/نومبر24کو”ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کااصل چیلنج”بھی شائع ہو چکے ہیں۔
تاہم حالیہ امریکی پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ70کی دہائی سے جاری ہے جب انڈیاکے میزائل پروگرام(جس کیلئے وہ روسی اورکئی دوسرے ذرائع سے مددحاصل کررہاتھا)کے جواب میں پاکستان نے اپنامیزائل پروگرام شروع کیااورہمیشہ سے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رہے۔چین اورپاکستان کی کمپنیوں اورافرادپرلگائی گئی ان پابندیوں کادونوں ملکوں پرکوئی فرق نہیں پڑے گاکیونکہ پاکستانی ادارے اورنیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس میزائل ٹیکنالوجیزکیلئے مغرب پرانحصارنہیں کرتے لہذاکسی پربھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔شمالی کوریا پرکتنی پابندیاں لگیں مگران پرکوئی اثرنہیں ہوا۔پاکستان کامیزائل پروگرام مکمل طورپرمقامی ہے،اس کاانحصارمقامی وسائل اورمہارت پرہے اوریہ امریکی پابندیوں سے متاثرنہیں ہوگاتاہم اس طرح کے اقدامات افسوسناک ہیں اورسب سے اہم بات یہ کہ یہ علاقائی تزویراتی حقائق سے جداہیں جیسے کہ ملک کی حفاظت وسکیورٹی اورانڈین میزائلوں کی بڑھتی ہوئی بین البراعظمی حدودجوعلاقائی اورعالمی امن، سلامتی اوراستحکام کیلئیبڑھتے ہوئے خطرات ہیں لیکن امریکاکی گودمیں پناہ لینے والے یہودو ہنودان پابندیوں سے ماورا ہیں۔دراصل امریکا کے یکطرفہ اقدام عالمی امن کیلئے بدقسمتی اورتعصب پرمبنی ہیں۔ پاکستان کی سٹریٹیجک صلاحیتوں کامقصدملک کی خودمختاری کادفاع اور جنوبی ایشیامیں امن قائم رکھناہے۔حالیہ امریکی پابندیوں کامقصدخطے میں فوجی عدم تعاون کوبڑھاوا دیناہے جس سے امن اورسلامتی کی کوششوں کونقصان پہنچے گاپھرنجی کاروباری اداروں پراس طرح کی پابندیاں مایوس کن ہیں۔ ماضی میں ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤکے دعوں کے باوجوددوسرے ممالک کیلئے جدیدفوجی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے درکار لائسنس کی شرط ختم کی گئی اورایسے دوہرے معیاراورامتیازی سلوک سے نہ صرف عدم پھیلاوکے مقصدکوٹھیس پہنچے گی بلکہ خطے اورعالمی امن وسلامتی کوبھی نقصان پہنچنے کاخطرہ ہے۔اس سے قبل رواں برس ستمبرمیں امریکانے آرمزایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ اورایکسپورٹ کنٹرول ریفارم ایکٹ کے تحت چین کے تین اداروں،ایک چینی شخصیت اورایک پاکستانی ادارے پربیلسٹک میزائل کے پھیلاکی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پابندیاں عائدکی تھیں۔امریکاکاالزام تھاکہ بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فارمشین بلڈنگ انڈسٹری بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اوران کی ترسیل میں ملوث ہے اوراس نے شاہین تھری اورابابیل میزائل سسٹمزاورممکنہ طورپراس سے بھی بڑے سسٹمزکیلئیراکٹ موٹرزکی جانچ کیلئے آلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستانی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس کے ساتھ مل کرکام کیاہے۔
امریکی بیان میں یہ الزام بھی عائدکیاگیاکہ یہ ادارہ بڑے سسٹمز کیلئے آلات خریدنے میں بھی ملوث ہے۔اس وقت جن دیگرکمپنیوں پر پابندی عائدکی گئیں ان میں چین کی ہوبئی ہواچانگداانٹیلیجنٹ ایکوپمنٹ،یونیورسل انٹرپرائز،ژیان لونگدے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ اور پاکستانی کمپنی انوویٹیو ایکوئپمنٹ بھی شامل ہیں جبکہ امریکی پابندیوں کی زدمیں آنے والے چینی شخص کانام لووڈونگمی تھا۔اس وقت امریکی محکمہ خارجہ نے یہ بھی کہاتھاکہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں امریکاکے خدشات کئی سالوں سے”واضح اور مستقل”ہیں اورپاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مخالفت امریکی پالیسی کاحصہ رہی ہے۔ یہاں یہ بھی یادرہے کہ امریکانے رواں برس اپریل میں چین کی تین اوربیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر2023میں پاکستان کوبیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اورسامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مزیدکمپنیوں پر اسی طرح کی پابندیاں عائدکی تھیں۔اس کے علاوہ دسمبر 2021میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ طورپرمددفراہم کرنے کے الزام میں13پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائدکی تھیں۔
دراصل یہ جانناضروری ہے کہ پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جوحالیہ امریکی پابندیوں کانشانہ بن رہاہے،وہ کیاہے؟اس میں کون کون سے میزائل شامل ہیں اور امریکاکوان سے کیاخدشات ہیں؟اورامریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کوکیسے متاثرکرسکتی ہیں؟پاکستان کاوہ میزائل پروگرام جس کا تذکرہ ستمبر2024میں امریکی خارجہ کے اعلامیے میں کیاگیاتھااس میں میڈیم رینج یادرمیانی فاصلے تک مارکرنے والے بلیسٹک میزائل شاہین تھری اورابابیل شامل ہیں جوملٹیپل ری انٹروہیکل یاایم آروی میزائل کہلاتے ہیں۔ ماہرین کامانناہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحیتوں والے میزائل ہیں۔ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق پاکستان نے2017میں ابابیل میزائل کاپہلاتجربہ کرنے کے بعدگزشتہ برس18/اکتوبر
2023 کو بھی زمین سے زمین پردرمیانی فاصلے تک مارکرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کاتجربہ کیاتھاجس کے بعدرواں برس 23 مارچ کوپاکستان ڈے پریڈکے موقع پرپہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
اسٹریٹیجک اورڈیفنس سٹڈیزکے ماہرین کے مطابق یہ جنوبی ایشیامیں پہلاایسامیزائل ہے جو2200کلومیٹرکے فاصلے تک متعدد وارہیڈزیاجوہری ہتھیارلے جانے کی صلاحیت رکھتاہے اورمختلف اہداف کونشانہ بناسکتاہے۔ماہرین کااندازہ ہے کہ ابابیل میزائل تین یااس سے زائدنیوکلیئروارہیڈزیاجوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ان کے مطابق یہ ایم آروی میزائل سسٹم ہے جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈکوشکست دینے اوربے اثرکرنے کیلئیڈیزائن کیاگیاہے۔اس میزائل میں موجودہروارہیڈایک سے زیادہ اہداف کونشانہ بناسکتاہے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ میزائل ایسے ہائی ویلیواہداف،جوبیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈسے محفوظ بنائے گئے ہوں،کے خلاف پہلی یادوسری سٹرائیک کی بھی صلاحیت رکھتاہے۔
ایم آروی میزائل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اگر ہدف کے قریب پہنچنے پران کے خلاف مخالف سمت میں میزائل ڈیفنس شیلڈیا بیلسٹک میزائل سسٹم موجودہوتووہ انہیں کنفیوژکر سکتے ہیں۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک فاسٹ بالرگیندکوسوئنگ کرتاہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفنس کوتوڑنے کیلئیاپنی رفتارکے ساتھ سوئنگ اورسیم پربھی انحصارکرتاہے۔ایم آئی آرویزمیزائل میں کئی وارہیڈزہوتے ہیں جوآزادانہ طورپرپروگرامڈہوتے ہیں اورآزادانہ طورپرہی اپنے اپنے اہداف کی جانب جاتے ہیں اورہرایک کا فلائٹ پاتھ یعنی فضائی راستہ مختلف ہوتا ہے۔
انڈیاتقریباایک دہائی سے بھی زائدعرصے سے بلیسٹک میزائل سسٹم پرکام کررہاہے اوروہ نہ صرف اس کے تجربات کرتے رہتے ہیں بلکہ عوامی سطح پرایسے بیانات بھی دیتے ہیں۔ انڈیانے حال ہی میں پہلے ایم آروی میزائل اگنی فائیو کاایک سے زائدوارہیڈز کے ساتھ تجربہ کیاہے۔یہ انٹرکونٹی نینٹل بیلسٹک میزائل ہے جس کی رینج کم ازکم5000-8000 کلو میٹرہے،اس کے مقابلے میں ابابیل کی رینج محض 2200 کلومیٹرہے اوریہ پوری دنیامیں سب سے کم رینج تک مارکرنے والاایم آروی ہے۔ایسی غیرمصدقہ اطلاعات ہیں کہ انڈیا کا”اگنی پی” بھی ایم آروی ہے جس کی رینج2000کلومیٹرتک ہے۔
ابابیل صرف اورصرف انڈیاکامقابلہ کرنے کیلئے ڈیزائن کیاگیاہے لیکن امریکاکو2021سے جس میزائل پرتشویش ہورہی ہے وہ شاہین تھری میزائل ہے جس کی رینج2740کلو میٹرہے۔دراصل ابابیل شاہین تھری میزائل کی اگلی جنریشن ہے۔شاہین تھری کے تجربے کے وقت نیشنل کمانڈاتھارٹی کے مشیرلیفٹیننٹ جنرل(ر)خالداحمد قدوائی نے ایک بیان میں کہاتھاکہ”یہ میزائل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کیلئے بنایاگیاہے اوراس کامقصدانڈیامیں اہم سٹریٹجک اہداف(خاص طورپرانڈمان اورنیکوبارجزیروں اور مشرق میں وہ مقامات جہاں ان کی نیوکلئیرسب میرین بیسزتعمیرکی جارہی ہیں)کونشانہ بناناہے تاکہ انڈیاکوچھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ مل سکے اوریہ غلط فہمی نہ رہے کہ انڈیامیں ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ کانٹریاپہلی سٹرائیک کیلئے اپنے سسٹمزچھپاسکتے ہیں اورپاکستان ان مقامات کونشانہ نہیں بنا سکتا”۔
یادرہے کہ انڈیاکے وزیردفاع رجنات سنگھ سمیت انڈین عہدیدارکئی مواقع پرایسے بیانات دیتے آئے ہیں جن میں یہ اشارہ دیا گیا
ہے کہ”انڈیانے ایسی صلاحیتیں حاصل کرلی ہیں جواسے پاکستان کے خلاف قبل ازوقت حملہ کرنے کے قابل بناتی ہیں”۔وہ سپرسونک براہموس میزائل کی مثال دیتے ہیں جوروایتی کے ساتھ نیوکلئیرہتھیاربھی ہے اوراس کے علاوہ انڈیابہت سے ایسے سسٹمزبنارہا ہے جوپہلی سٹرائیک کیلئیزمین،فضااورسمندرسے بھی لانچ ہوسکتے ہیں۔
اگرآپ کویادہوتو2022میں ایک براہموس میزائل پاکستان میں آگراتھاجس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیاتھا کہ پاکستان کی حدودمیں گرنے والا براہموس میزائل حادثاتی طورپرانڈیاسے فائرہواتھا۔انڈیابراہموس کوپاکستانی سٹریٹجک فورسز اور کمانڈاینڈکنٹرول کے خلاف روایتی کاؤنٹرفورس سٹرائیک کیلئے استعمال کرسکتاہے اورپھرانڈیایہ دعویٰ کرسکتاہے کہ ہم نے تومحض روایتی حملہ کیاہے لیکن اس طرح کی روایتی سٹرائیک کوپاکستان کی طرف سے پہلاجوہری حملہ تصورکیاجائے گا۔ یہ وہ ساری صورتحال ہیں جن میں کسی بھی حملے کوروکنے کیلئے پاکستان کوتیاررہناہے اوریہ اسی صورت ممکن ہے اگر پاکستان دشمن کودکھانے کیلئے اپنی صلاحتیوں کا اظہار کرتا رہے اوراسی مقصدسے پاکستان نے شاہین تھری اورابابیل جیسے نیوکلئیروارہیڈزبنائے ہیں اوران کی نمائش کی ہے۔انڈیاکے مقابلے میں پاکستان نے اپنے دفاع کاحق استعمال کرتے ہوئے یہ تمام تیاری کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکاکو ان میزائلوں پرکیاتشویش ہے؟
امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان میں الزام عائدکیاگیاہے کہ”آرآئی اے ایم بی نے شاہین تھری اورابابیل میزائل سسٹم”زاورممکنہ طور پر اس سے بھی” بڑے سسٹمز کیلئے ڈائیامیٹر راکٹ موٹرزکے ٹیسٹ اورآلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کام کیاہے۔ممکنہ طور پراس سے بھی بڑے سسٹمزکامطلب یہ ہوسکتاہے کہ اسی میزائل کی اگلی جنریشن پرکام ہورہاہے”۔
ابابیل کاپہلاٹیسٹ جنوری2017میں ہواتھااوراس کے بعدابابیل کادوسراتجربہ چھ سال بعدگزشتہ برس اکتوبر2023میں ہوا، اور ان چھ سالوں کے دوران این ڈی سی میں اس ٹیکنالوجی پرمسلسل کام ہوتارہاہے۔امریکاکاکہناہے کہ” شاہین تھری توپہلے سے آپریشنل تھا لیکن ابابیل کے دوسرے تجربے کے بعدجب مارچ میں اسے پریڈمیں دکھایاگیاتواس کے بعدشاہین تھری اورابابیل زیادہ نظروں میں آئے کیونکہ اس نمائش کامطلب تھاکہ پاکستان اس مرحلے تک پہنچ چکاہے جہاں اس پرریسرچ اورڈویلپمنٹ مکمل ہوچکی ہے اور ابابیل اب آپریشنل ہے”۔یہ ہے امریکی تشویش کی اصل وجہ!امریکاکوخدشہ ہے پاکستان اس کے زیادہ سے زیادہ صلاحتیوں والے ورژن پرکام کررہا ہے۔
امریکی تشویش کی ایک اوروجہ یہ ہے کہ ابابیل تھری سٹیج میزائل سسٹمز ہیں اورموبائل لانچروالاسسٹم ایک بہت اہم صلاحیت ہے کیونکہ کسی بھی سرپرائزحملے کی صورت میں یہ سسٹم نہ صرف بڑی آسانی سے مختلف مقامات پرکیموفلاج کیے جاسکتے ہیں بلکہ انہیں باآسانی ایسی جگہ بھی لے جایاجاسکتاہے جہاں دشمن ان کاپتانہ چلاسکے۔ماہرین کامانناہے کہ کوئی بھی تھری سٹیج میزائل سسٹم،زیادہ رینج والے سسٹم کی بنیاد بن سکتاہے لیکن ابابیل کے پہلے اوردوسرے ٹیسٹ کے بیچ چھ سال کاوقفہ اس بات کاثبوت ہے کہ پاکستان اب مقامی طورپر اس ٹیکنالوجی پر کام کررہاہے۔اگرچین سے ہی ساری ٹیکنالوجی لے رہے ہوتے توچھ سال کاانتظارکیوں کرتے؟تاہم یقینااس سسٹم میں کوئی ایسی نئی ڈیولپمنٹ ہوئی ہے جس نے امریکی تشویش میں اضافہ کیاہے کہ شایدپاکستان مزیدصلاحیتیں حاصل کررہاہے اورمستقبل میں ان نیو کلیئر صلاحیتوں والے میزائلوں کے بہترورژن زیادہ بڑے وارہیڈزلے جا سکتے ہیں اورابابیل شایدتین سے زیادہ وارہیڈزلے جانے کی صلاحیت حاصل کرلے۔
یادرہے اپریل میں ان سسٹمزکے موبائل لانچرزپرپابندیاں لگائی گئی تھیں۔امریکاکی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ میں کہاگیاتھا کہ بیلاروس میں قائم مِنسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ نے پاکستان کوبیلسٹِک میزائل پروگرام کیلئے خصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے ہیں اوربیلاروس کے صدرکے ساتھ اعلی سطحی وفدکے پاکستانی دورے کوبھی معنی خیز انداز سے دیکھاجارہاہے جبکہ خود امریکااس سے کہیں خطرناک ٹیکنالوجی انڈیااوراسرائیل کومہیاکرچکاہے،پاکستان نے کبھی اس پراعتراض نہیں کیا۔
امریکی پابندیوں میں پاورفل راکٹ موٹرزکابھی تذکرہ ہے۔امریکاکوابابیل کی طویل رینج کے علاوہ پاکستان کے سپیس پروگرام پر بھی تشویش ہے۔یادرہے اپریل کی فیکٹ شیٹ میں چین کی گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈپرالزام عائدکیاگیاتھاکہ یہ کمپنی پاکستان کی خلائی تحقیق کے ادارے سپارکوکے ساتھ مل کرراکٹ موٹروں کی جانچ پڑتال میں معاون آلات کی فراہمی میں ملوث پائی گئی ہے اور مزیدیہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ یہی کمپنی پاکستان کوبڑی راکٹ موٹرزآزمانے کیلئے پرزے فراہم کرتی رہی ہے۔
امریکا،اسرائیل اورانڈیا(ٹرائیکا)کوفکرہے کہ پاکستان اپنامقامی سپیس لانچ وہیکل نہ بنالے اورپاکستان پہلے سے2047سپیس پروگرام کاوژن رکھتاہے۔نیوکلئیرڈیٹیرنس کیلئے ا سپیس پروگرام میں صلاحیتیں حاصل کرنابہت اہم ہیں جوآپ کو ہدف کودرست نشانہ بنانے اوردفاعی نگرانی وغیرہ کے قابل بناتاہے۔امریکاکوخدشہ ہے کہ پاکستان فوجی اور سویلین مقاصدکیلئے اپناسپیس وہیکل لانچ کرسکتاہے جس سے اس کے پاس انٹرکونٹی نٹل بیلسٹک میزائل فائرکرنے کی صلاحیت آجائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم کابھی ذکرہے۔یہ میزائل ٹیکنالوجی کی برآمدپرکنٹرول رکھنے والے ممالک کاگروپ ہے۔پاکستان اورچین دونوں نے ایم ٹی سی آرپردستخط نہیں کیے مگراس کے بغیربھی چین اورپاکستان دونوں اس کاپاس کرتے ہیں اورکوئی ایساسسٹم برآمدنہیں کیاگیاجس کی رینج 300کلومیٹرسے زیادہ ہومگراس اقدام کی تعریف کرنے کی بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اورچین آپس میں تعاون کررہے ہیں۔
اگرمسئلہ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہے تودوسری طرف انڈیاکاسارامیزائل پروگرام روس کے تعاون اورمددسے بناہے اوراب امریکا نے اسے سول جوہری کلب کارکن بناکرہر قسم کی پابندیوں سے آزادکررکھا ہے۔اس کی مثال انڈیاکابراہموس میزائل ہے،جب ابتدامیں روس سے یہ ٹیکنالوجی لی گئی تواس کی رینج290کلومیٹرتھی مگراب انڈیااسے 800 کلومیٹرتک لے جاچکاہے اوراس کے ہائپرسانک ورژن پر بھی کام ہورہاہے مگریہاں ایم ٹی سی آرکی بات نہیں کی جاتی۔یادرہے کہ ایم ٹی سی آرمیں300کلومیٹرسے زیادہ رینج والے میزائل کی برآمد پرپابندی ہے اور500کلوسے زیادہ کے وارہیڈزکی بھی اجازت نہیں ہے۔انڈیاکااگنی فائیوکی مثال آپ کے سامنے ہے جس کی رینج 5000-8000 کلومیٹرہے اوریہ تین سے پانچ اورشایداس سے بھی زیادہ وارہیڈزلے جانے کی صلاحیت رکھتاہے اورانڈیاایٹمی آبدوزوں پرلگانے کیلئے بھی اس کے ورژن تیارکررہاہے۔جبکہ پاکستان کے پاس تو کوئی ایٹمی آبدوز نہیں ہے۔پاکستان کے تحمل کی تعریف تونہیں کی جاتی مگریہ یادرکھناچاہیے کہ پاکستان کی کوششیں جنوبی ایشیامیں سٹریٹیجک استحکام برقرار رکھنے کیلئے ہیں۔انڈیاکے جواب میں تیار کی گئیں ٹیکنالوجیزسے مسئلہ تونہیں ہوناچاہیے۔اصل بات یہ ہے کہ امریکاکے نزدیک انڈیا کواڈ کاسب سے اہم رکن ہے۔اس کے علاوہ انڈیاکی سافٹ پاور، معاشی طاقت پاکستان سے بہت زیادہ اورمغربی ممالک کے ہرتھنک ٹینک میں انڈینزکاغلبہ ہے جوعوام اورحکومتوں کی رائے عامہ بنانے پربہت اثررکھتے ہیں ۔یادرہے کواڈچارممالک کاگروپ ہے جس میں انڈیا،آسٹریلیا،جاپان اورامریکاشامل ہیں۔
امریکاکی مختلف بین الاقوامی مقامات پرجیوسٹریٹیجک دلچسپیاں ہیں جیسے یوکرین روس،مشرقِ وسطی اورتائیوان چین وغیرہ کی صورتحال ہے اوراسی باعث اس نے مختلف جگہوں پران ملکوں سے مختلف وعدے کررکھے ہیں اورجنوبی ایشیاکے خطے میں چین کے اثرورسوخ کوکم کرنے کیلئے کواڈبنایاہے۔چین کے ساتھ کشیدگی بھی پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندی کی ایک وجہ ہے۔امریکی پابندیوں کامحوربنیادی طور پرپاکستان کے بجائے چینی کمپنیاں ہیں،تاکہ بیجنگ کومجبورکرکے معاشی دباؤڈالاجائے۔اس لئے معاشی وسیاسی حوالے سے یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان امریکاکو نشانہ بنانے کا سوچے،کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ(تقریبا6ًارب ڈالر)امریکاہے اور وہاں مقیم پاکستانیوں کی بہت بڑی تعدادملک میں رقوم بھیجتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان اپنے معاشی مسائل کے حل(آئی ایم ایف)کیلئے امریکاکے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات برقراررکھنااپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کااہم ہدف سمجھتاہے۔تاہم ایسا ممکن ہے کہ پاکستان(این ڈی سی)ابابیل میزائل سسٹم کازیادہ جدت والاورژن تیارکررہاہوجوکسی بھی انڈین بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈکوشکست دے سکتاہے اورایک سے زیادہ وارہیڈزکابھاری پے لوڈلے جاسکتاہوتاہم اس کیلئے زیادہ طاقتورراکٹوں کی ضرورت ہوگی اورامریکی حکام این ڈی سی پراسی کی تیاری کاالزام لگارہے ہیں لیکن یہ انڈیا کیلئے بنائے گئے مخصوص میزائل سسٹم کوآئی سی بی ایم(بین البراعظمی بیلسٹک میزائل)میں تبدیل نہیں کرسکتااوراس کیلئے بالکل نیامیزائل سسٹم چاہیے ہوگا۔
امریکاکے پالیسی سازحلقوں میں انڈیاکے بڑھتے اثرورسوخ کے نتیجہ میں بائیڈن انتظامیہ نے یہ قدم اٹھایاہے اور پاکستانی کی دفاعی صلاحیتوں میں کمی لانے کیلئے انڈیااب امریکاکاکندھااوردبااستعمال کرنے کی کوشش کررہاہے۔پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں پر تنقید اور شکوک وشبہات کااظہارکرنااس بات کاثبوت ہے واشنگٹن میں انڈین لابی بائیڈن کے آخری دنوں میں ان کی کمزوری کافائدہ اٹھاناچاہتی ہے۔ مستقبل میں بھی ایساممکن نہیں ہے کہ پاکستان امریکاپرحملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے کیونکہ پاکستان کا میزائل واٹامک پروگرام انڈیا کیلئے مخصوص ہے پاکستان کسی قسم کی ہتھیاروں کی دوڑمیں شامل نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا وجود جمعرات 26 دسمبر 2024
ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا

قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو

قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان

رناں والیاں دے پکن پراٹھے وجود بدھ 25 دسمبر 2024
رناں والیاں دے پکن پراٹھے

ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار وجود بدھ 25 دسمبر 2024
ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر