... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کے آٹھ عشرے مکمل ہونے والے ہیںاِس دوران دونوں ایک دوسرے کی کئی ضرورتیں پوری کیں مگر خاص بات یہ ہے کہ جونہی امریکی ضرورت پوری ہوگئی توتعلقات میں اُتارچڑھائو آتارہا اسی لیے گرمجوشی اور سرد مہری کا عکس واضح نظر آتا ہے مگر کبھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ پاکستان کو امریکہ کے لیے خطرہ قرار دیاگیا ہوماضی میں پاکستان نے امریکہ کے لیے طویل خدمات سرانجام دیں جن میں چین و امریکہ کو قریب لانا اور روس جیسی سُپر پاور کے بڑھتے قدم روکنا قابل زکرہے جس کے صلے میں پاکستان کو نہ صرف امدادملتی رہی بلکہ کسی حدتک دفاعی ضروریات بھی پوری کی جاتی رہیں اور جوہری پروگرام کے حوالے سے نرمی کافائدہ ملتارہاجبکہ امریکہ نے جوکہاپاکستان نے وہی کیا ضروریات نے دونوں کو جوڑے رکھا مگر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے پاکستان کی اِس لیے امریکہ کو ضرورت نہیں رہی کہ روس کی حالت اب ایسے زخمی اور معزور شیر کی ہو چکی ہے جو بہت کمزورہوچکاہے جس میں امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی استعداد نہیں رہی اِس لیے روسی خطرے کی کوئی خاص پرواہ نہیں رہی بلکہ روس کی جگہ چین کو اولیں خطرہ تصورکیاجانے لگاہے جو معاشی حوالے سے تیزترین ترقی کرتے ہوئے دنیا میں اہم حیثیت اختیار کرتاجارہاہے امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کو کچھ اِس طرح تنازعات میں الجھایا جائے کہ وہ اپنی معیشت پرتوجہ ہی نہ دے سکے اِس مقصد کے حصول کے لیے جاپان اور بھارت جیسے ممالک کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جوتکمیل کے مراحل میں ہیں کیونکہ روس کیخلاف پاکستان کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہی اور چین کے منصوبے سی پیک کا حصہ بن کرپاکستان نے جوغلطی کی ہے نے امریکی خفگی کودعوت دے ڈالی ہے۔
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کوامریکہ کے لیے اُبھرتا ہواخطرہ کہنے پر واقفانِ حال کو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ چین سے قریبی تعلقات بنانے پر پاکستان کو معاشی اور دفاعی حوالے سے مضبوط کرنا امریکی مفاد میں نہیں امریکہ چاہتاہے بھارت خطے میں تمام خطرات سے بے نیاز ہوکرچین کی معاشی راہ روکے لیکن ایک مضبوط و مستحکم پاکستان اِس مقصدکے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتاہے ایک انٹرویوکے دوران جب پاکستان کی جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کے بارے پوچھا گیا توامریکہ کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جون فائز نے مضحکہ خیز اور عجیب و غریب جواب دیا کہ ہمارے لیے پاکستان کے اقدامات کو امریکہ کے لیے اُبھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور چیز کے طورپر دیکھنا مشکل ہے بائیڈن انتظامیہ کا یہ لب و لہجہ اور سوچ دراصل ایسی کوشش ہے جس کے تحت پاکستان کو آزاد وخود مختار ملک کی بجائے ایک ایسی ریاست بنانا ہے جواپنے مفاد کے مطابق آزادانہ فیصلے کرنے سے زیادہ امریکی مفاد کو پیشِ نظر رکھے مگر چین سے تعلقات
کے حوالہ سے پاکستان ابھی تک کسی دبائو کوخاطر میں نہیں لارہا نیز روس سے تجارتی و دفاعی تعلقات بڑھانابھی ناپسندیدگی کی ایک اوروجہ ہے اسی بناپر پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کا الزام لگا کر کئی کمپنیوں اور اِداروں پر پابندیاں لگانے کا عمل شروع کیا گیا ہے مگر حالات ایسے ہیں کہ شاید ہی پاکستان دبائو میں آئے زیادہ امکان یہی ہے کہ جوہری پروگرام کی طرح لاحق خطرات کے توڑ کے لیے محدودوسائل سے اپنا میزائل پروگرام کا عمل جاری رکھے گا۔
پاکستان کسی صورت بھارت سے لاحق خطرات کو نظرانداز نہیں کر سکتا جو خطے کی معاشی و دفاعی طاقت بننے کی کوشش میں ہے بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی تمام تر عالمی دبائو کوبالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفاد میں جوہری صلاحیت کا اظہار کیا اب بھی بھارت کی جنونی سرکار کے دماغ کو درست رکھنے کے لیے میزائل پروگرام کو ترقی دینا پاکستان کی مجبوری ہے پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں اِن حالات میں وہ ہتھیاروں میں خودکفالت کے ساتھ عالمی منڈی میں فروخت سے زرِ مبادلہ بھی حاصل کررہا ہے تو بھلا کیوں کسی کی ہدایات کوخاطرمیں لائے گا؟ پاکستان ماضی میں صرف طفیلی ریاست جیسیاکردار اداکرتارہا اب کسی پر تکیہ کرنے کی بجائے دفاعی حوالے سے اپنی استعدا د میں اضافہ کرے اور خودانحصاری کی پالیسی اپنائے یہ امریکہ کو پسندنہیں حالانکہ 2012 سے امریکہ نے جب پاکستانی میزائل پروگرام پر تشویش کااظہار کرنا شروع کیا تو امریکی تحفظات دورکرنے کے لیے پاکستان نے کافی سنجیدہ کوششیں کیں پڑوس سے لاحق خطرات کے توڑ اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے دفاعی صلاحتیوں میں اضافے کی ضروریات سے آگاہ کیا تاکہ امریکی بداعتمادی کا خاتمہ ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکا جنوبی ایشیا میں بھارت کے علاوہ کسی اور ملک کامضبوط و مستحکم ہونا امریکی سربراہی میں قائم کواڑ کے لیے مشکلات کاباعث بن سکتاہے اسی لیے امریکی خواہش ہے کہ پاکستان جوہری و میزائل پروگرام پر پیش رفت روک دے پاکستان سے بھارت جو چاہتاہے وہ بزریعہ امریکہ حاصل کرلیتاہے دونوں ممالک میں بظاہربراہ راست مزاکرات میں تعطل ہے لیکن امریکی وساطت سے پیش رفت جاری ہے یہ امریکہ کی حددرجہ نوازشات جانبداری کی عکاس ہیں ۔
پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی خدشات اِس بناپربھی غیر حقیقی اور بے بنیادہیں کہ بھارت کا میزائل پروگرام پاکستان سے زیادہ ترقیافتہ ہے اِس کے باوجود روس ،امریکہ ،اسرائیل،برطانیہ وغیرہ سے جدیدترین اسلحہ خرید رہا ہے مگر امریکہ یا کسی اور عالمی طاقت کی طرف سے کبھی کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا بھارت نے جوہری تجربات کیے مگر اقوامِ عالم نے کوئی سرزنش نہ کی البتہ پاکستان کو جواب میں جوہری تجربہ کرنے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی اور جب پاکستان نے عالمی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر جوہری صلاحیت کا اظہار کردیا تومختلف نوعیت کی عالمی پابندیوں کی زدمیں آگیا جوہری ہتھیار تیار کرنے میں استعمال ہونے والا تابکاری موادبھارت میں غیرمحفوظ ہے یہ مواد نجی ہاتھوں میں فروخت کرنے جیسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جنھیں عالمی طاقتوں نے نظر اندازکیاحالانکہ یہ مواد کسی جنونی کے ہاتھ لگنا نقصان دہ ہوسکتاہے مگرتمام طاقتیں خاموش ہیں جبکہ پاکستان کے پُرامن اور محفوظ جوہری پروگرام کے حوالے سے خدشات ظاہر کرنا معمول ہے پاکستان کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اُس کا میزائل پروگرام صرف دفاعی نوعیت کاہے اِس لیے امریکی خدشات کو جانبداری کہہ سکتے ہیں کیونکہ بھارت کی ہمسایہ ممالک میں مداخلت عیاں حقیقت ہے اسی بناپر بنگلہ دیش ،سری لنکا ،مالدیپ سے لیکر نیپال تک نفرت عروج پر ہے اگر امریکہ دنیا میں امن چاہتا ہے تو اُسے جانبدارانہ پالیسی چھوڑکر تنازعات کو حل کرنا ہوگا بھارت اور اسرئیل جیسے مذہبی جنونی ممالک کی جارحانہ حکمتِ عملی کی سرپرستی سے امن کی بجائے تنازعات بڑھیں گے اوردنیامزیدغیرمحفوظ ہوگی۔