... loading ...
دریا کنارے / لقمان اسد
یہ انبیاء کرام علیہ السلام کی سرزمینِ مقدس فلسطین کا شہر غزہ ہے جہاں ہر طرف شیر خوار بچوں ، ضعیف و نحیف بزرگوں، عفت مآب مائوں، بہنوں، بیٹیوںاور آزادی کے متوالے جری و شیر دل، بہادر اور خوبرو نوجوانوں کے اعضاء اور خون میں لت پت ان کے لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ ” صحرا ئے تھل ” لیہ کے مقبول و معروف شاعر افتخار بیگ یاد آئے
میں جو ٹوٹ کے بکھروں تو مرِے سنگ نہ رکنا ورنہ
انگلیاں درد کریں گی مجھے چنتے ،چنتے
رات کا پچھلا پہر ہے چاروں اور سناٹا ، بلا کی خامشی اور نیند آنکھوں سے غائب ہے ۔ میں ذہن کو اِدھر اُدھر بھٹکانے اور دل کو بہلانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہوں لیکن رہ رہ کر فلسطین کے ان چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کی تصویریں نظروں میں آکر ٹھہر جاتی ہیں کہ جنہوں نے ابھی اپنے والدین کی انگلی پکڑ کر ہی محض چلنا سیکھا تھا لیکن اس ترقی تافتہ دنیا نے ان کے جسم بموں سے ریزہ ، ریزہ کردیے اور اس طرح ٹکڑوں میں بٹ گئے جیسے کوئی آئینہ گویا ہاتھ سے گر کر کرچیوں کی صورت بکھر جائے۔ یہ یقینا آج کی نام نہاد مہذب دنیا کا وہ غیر مہذب، بد صورت اور مکروہ چہرہ ہے کہ جسے دیکھ کر دنیا کے ہر باشعور انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ صیہونیت و یہودیت کا یہ اندازِ جورو ستم نیا نہیں، نہ ہی دنیا کی چُپ نئی ہے بل کہ جبر کے اس موسم کو نصف صدی سے بھی زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اس عرصہ میں فلسطینی مائوں نے جتنے سپوتوں کو جنم دیا آزادی کی اس جنگ میں انہوں نے جامِ شہادت ہی نوش کیا ۔سلام ہے ان مائوں کو کہ جن کے
بطن سے شہداء جنم لیتے ہیں ، جن کی تربیت میں ایسی پاکیزگی اور جن کے جذبوں میں ایسا تقدس ہے کہ جنہیں دنیا کا کوئی جبر، کوئی ستم اور ظلم کا کوئی بیہودہ سے بیہودہ طرزِ واردات بھی ٹھنڈا، دھندلا اور مدھم نہیں کرسکا ۔
اے فلسطین کی سرزمین، اے انبیاء کا دیس، اے فلسطین کی بے مثل مائوں ، بہنوں ، بیٹیو اور بیٹو تمہیں سلام ہے ،سلام ہے۔ سلام ہے تمہارے جذبہ حریت کو ،سلام ہے تمہاری استقامت کو کہ تمہاری جرات، شجاعت، دیدہ دلیری ، زندہ ضمیری اور غیرت و حمیت کے بے نظیر مظاہرے نے ظالموں کے دجل، فریب اور منافقت کے لبادے میں لپٹے منہوس چہروں کے بالآخر بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ تمہاری وہ فتح ہے جسے دنیا کا بڑے سے بڑا ظالم، جابر اور طاقت ور ملک بھی شکست میں نہیں بدل سکتا ۔تھوڑا ماضی کی طرف مڑ کر دیکھا جائے تو 9/11کے واقعہ کو جب جواز بنا کر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہ ماہِ صیّام ہی کے دن تھے۔ نفرت ، بے رحمی ، تکبر اور مسلم دشمنی کی انتہا کا ذرا اندازہ کیجیے کہ امریکی افواج کی طرف سے پہلے فضائی حملے میں بمباری کا آغاز وہاں کے ہسپتالوں، سکولوں اور ہلال احمر کے قائم کردہ خوراک کے گوداموں اور میڈیسنز کے ڈپوئوں کو نشانہ بنا کر کیا گیا ۔ ایک طویل مدت سے تسلسل کے ساتھ یہ شرم ناک واقعات روپذیر ہو رہے ہیں کہ جب بھی مسلمانوں کا کوئی مقدس اور خاص دن ہوتا ہے تو غیر مسلم قوتیں بطور خاص اسی دن کا انتخاب کر کے پہلے سے طے شدہ پروگرام اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کسی کمزور مسلم سٹیٹ کے نہتے عوام کو اپنے ستم کا نشانہ بناتے ہیں اس بار اس اندھی وحشت کا شکار مظلوم فلسطینی مسلمان ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی حرمت بھی پامال کی گئی۔ ستائیسویں کی شب اچانک اسرائیلی افواج نے نماز، تراویح میں مصروف فلسطینی مسلمانوں پر اندھا دھند انداز میں حملہ آور ہو کر ممبر و محراب کو خون میں نہلا دیا مگر ہمیشہ ہی کی طرح اسرائیلی یہودیوں کی طرف سے روا رکھے گئے اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویہ کے خلاف کسی بڑی ذمہ دار غیر مسلم طاقت نے سرکاری سطح پر اپنا کوئی احتجاج یا مذمتی بیان تک ریکارڈ کرنا گوارا نہ کیا ۔ غیر مسلم دنیا کے اس بے رحمانہ کردار اور سرد مہری کا مطلب کیا ہے؟
یہ امر روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ کرہ ارض پر ایسی کوئی مسلم ریاست نہیں جو دنیا کا امن خراب کرنے کے در پے ہو جس کی واضح مثال 9/11کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہے ۔ برما میں مسلمانوں کا قتلِ عام وہاں کی حکومت کرتی ہے ، کشمیریوں پر بھارتی حکومت ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور فلسطینی مسلمان اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہیں لیکن عالمی طاقتیں گنگ اور خاموش ہیں حالانکہ اس ضمن میں انھیں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تھا کہ جس طرح وہ 9/11کے واقعہ کے بعد ایک سلوگن سامنے لائی تھیں اب بھی اسی طرز کی پالیسی اپنائی جاتی۔ اس حوالے سے اب مسلم دنیا کے بڑے ممالک پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ اسرائیل کی پشت پناہ طاقتوں کو واضح اور دوٹوک پیغام دیں اور 9/11والا سلوگن اب مسلم ممالک کو دنیا کے سامنے رکھنا ہوگا کیوں کہ عارضی جنگ بندی فلسطین کے مسئلے کا مستقل حل کسی صورت نہیں ہو سکتا ۔