... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
سپریم کورٹ کے سرمائی اجلاس کا آغاز اڈانی پر بحث کو لے کر تعطل سے ہوا اور اختتام ڈاکٹر بابا صاحب کی ہنگامہ خیز توہین و دھکا مکی پر ہوا۔ اس دورام مقننہ سے ہٹ کر عدلیہ میں سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت کا وضع کردہ عبادت گاہوں کا ایکٹ( 1991) چھایا رہا جو فی الحال اس کے گلے کی پھانس بن چکا ۔ مذکورہ قانون کو اس وقت نافذ کیا گیا تھاجب رام مندر تحریک عروج پر تھی اور لال کرشن اڈوانی کمنڈل نفرت کے شعلوں کو لے کر رام رتھ یاترا پر آگ لگاتے پھر رہے تھے ۔ اس قانون کا مقصد 15 اگست 1947 کو موجود مذہبی مقامات کی حیثیت کا تحفظ کرنا تھا لیکن فی الحال اسے پامال کرتے ہوئے پورے ملک میں مساجد اور درگاہوں سمیت مختلف مذہبی مقامات پر سروے کا مطالبہ کرنے وا لے تقریباً 20 مقدمات درج ہیں۔ اس بابت ملک بھر کی مسلم جماعتوں اور غیر مسلم انصاف پسندوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سرگرمی غیر قانونی ہے ۔ یہ سروے مذکورہ قانون کے کئی دفعات سے ٹکراتا اور اس کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل بنچ نے عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران احکامات جاری کیے ہیں کہ ‘اس معاملہ میں تا حکمِ ثانی کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے اور زیر التوا مقدمات میں، عدالتیں کوئی بھی عبوری یا حتمی حکم دینے سے گریز کریں’۔ بنچ نے کہا چونکہ وہ 1991 کے ایکٹ کامختلف جہتوں جائزہ لے رہی ہے اس لیے یہ مناسب ہوگا کہ دیگر تمام عدالتیں اس طرح کے مقدمات سے دور رہیں۔ عام زبان میں اسے کہتے ہیں جب بڑے بات کررہے ہوں تو چھوٹے بیچ میں نہیں بولیں یا پھٹے میں ٹانگ نہ ڈالیں ۔عدالت کے اس موقف پر مسلم فریق نے تو راحت کی سانس لی مگر ہندو فریق ناراض ہوگیا کیونکہ اس کے نفرت پھیلانے والے منصوبے پر رکاوٹ لگ گئی۔ ہندو فریق کے وکلاء نے اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سنے بغیر اس طرح کا فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔ ان کے اس اعتراض کو نظر انداز کرکے بنچ نے مرکز کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے ٤ اوراس کے بعد دیگر فریقین کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے مزید ٤ ہفتوں کا وقت دے ۔ اس طرح گویا دوماہ کے لیے بات ٹل گئی۔
عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر عدالتِ عظمیٰ کی سماعت سے ٹھیک ایک دن قبل 11 دسمبر کو شاہی مسجد عیدگاہ کی انتظامیہ کی کمیٹی (متھرا) نے مداخلت کی درخواست دیتے ہوئے یہ جواز پیش کیا کہ یہ قانون پارلیمنٹ نے ملکی ترقی کے مفاد میں بنایا تھا اور وہ 33 سال سے زائد عرصے تک وقت کی کسوٹی پر ڈٹاہوا ہے ۔درخواست میں ایل آر ایس بمقابلہ مہنت سریش داس کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ 15 اگست 1945 کو مذہبی عبادت گاہوں کی تبدیلی پر پابندی کے قانون کی درستگی کو سپریم کورٹ کے ایک آئینی بنچ نے ایم صدیق (ڈی) تھری میں برقرار رکھا تھا ۔ اس کو مزید تقویت دینے کے لیے پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قومی مفاد میں، 1991 کا ایکٹ نافذ کیا جو ہنوز قائم و دائم ہے ۔ درخواست گزاروں نے 29 سال کی تاخیر کے بعد اس قانون کو چیلنج کرنے پر بھی عدالت کی توجہ مبذول کرائی۔ متھرا کی شاہی مسجد اور عید گاہ کے حوالے سے ہندو فریق نے یہ دعویٰ کررکھا ہے کہ شاہی مسجد عیدگاہ کو کرشن جنم استھان کی زمین پر تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس بابت الہ آباد ہائی کورٹ کے زیر سماعت 17 مختلف مقدموں میں وہ مذکورہ کمیٹی فریق ہے اس لیے وہ عدالت کو اس فیصلے میں مداخلت کرکے مدد کرنے کی اجازت چاہتی ہے ۔ اس نہایت معقول مطالبہ کو قبول کیا گیا۔
گیانواپی مسجد کمیٹی نے بھی بجا طور پراس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی۔ مسجد کمیٹی نے کہا کہ قانون سازی کو چیلنج کرنے والی آرٹیکل 32 کی پٹیشن آئینی اصولوں پر مبنی دفعات کی غیر آئینی ہونے کی نشاندہی کرتی ہے اور سابقہ حکمرانوں کا فیصلہ کہہ اس اقدام کے خلاف انتقامی کارروائی درست نہیں نیز بیان بازی کے دلائل کو آئینی چیلنج کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔کمیٹی نے اپنی درخواست میں لکھا کہ ”پارلیمنٹ نے اپنی دانشمندی میں، آئین کی سیکولر اقدار کے اعتراف کے طور پر قانون سازی کی تھی ”۔ درخواست گزار نے عدالت سے 1991 کے ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کو میرٹ سے عاری ہونے کی وجہ سے خارج کا مطالبہ کیا ۔کمیٹی نے خبر دار کیا گیا کہ 1991 کے ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کے نتائج سنگین ہوں گے اور قانون کی حکمرانی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کر دیں گے ۔
موجودہ حکومت اور فریق ثانی کو ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی عزیز ہوتی تو وہ اس بکھیڑے میں پڑتی ہی کیوں؟ ان لوگوں کو اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کر کے انتخاب جیتنے کی خاطر اس طرح متنازع مسائل کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسے وقت جبکہ مقننہ اور نچلی عدالتوں نے فسطائی طاقتوں سے ہاتھ ملا لیا ہے سپریم کورٹ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے عہدہ سنبھالنے سے قبل اپنی ذمہ دارانہ دلیری کا ایک ثبوت پیش کر چکے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے سامنے ہندوستانی آئین میں موجود سیکولرزم اور سوشلزم کے الفاظ کو لے وہی اشوینی کمار پیش ہوئے تھے جو عبادتگاہوں کا قانون ختم کروانا چاہتے ہیں ۔ اتفاق سے گیانواپی اور سنبھل کے قضیات بھی انہیں کی دین ہیں۔
اندرا گاندھی کے دور میں آئین ِ ہند کی تمہید میں لفظ ”سیکولر”اور سوشلسٹ ”کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن بالارام سنگھ ، بی جے پی کے سینئر رہنما سبرامنیم سوامی اور ایڈوکیٹ اشوینی کمار اُپادھیائے پٹیشن داخل کررکھی ہے ۔ سبرامنیم سوامی نے تمہید میں لفظ ”سیکولر”اور ”سوشلسٹ”کی شمولیت کو چیلنج کرنے کیلئے تاریخوں کو جواز بنایا ہے ۔ ان کے مطابق آئین اوراس کی تمہید کو 26 نومبر 1949ء کو اپنایاگیا اوراس پر وہی تاریخ موجود ہے ، جبکہ مذکورہ بالا دونوں اصطلاحات 1976ء میں اندرا گاندھی کے دور میں کی گئیں ،اس لیے 26 نومبر1949ء کی تاریخ کے ذیل میں ان کی موجودگی درست نہیں ہے ۔ ان کے مطابق یہ اصلاح طلب امر ہے ۔ سوامی کا کہنا ہے کہ جو کچھ شامل کیاگیا ہے اسے تمہید کا حصہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اگر اسے رکھنا ہی ہو تو علاحدہ پیراگراف میں رکھنا چاہئے ۔یہ سب بال کی کھال نکالنے والی باتیں ہیں ۔ ان کے اندر جرأت نہیں ہے کہ نظریاتی طور پر اسے غلط ثابت کرسکیں ۔
سبرامنیم سوامی کی دلیل کہ ترمیم چونکہ بعد میں ہوئی ہے اس لئے ”سیکولر”اور سوشلسٹ ”کو تمہید سے الگ ہونا چاہئے پر جسٹس کھنہ نے کہا
کہ ”ترمیم میں جن الفاظ کا اضافہ کیاگیاہے ،انہیں قوسین میں رکھ کر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ یہ اضافہ 1976ء کاہے” ۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ”اتحاد”ا ور”سالمیت” کے الفاظ بھی اسی ترمیم میں بڑھائے گئے ہیں۔ آئین کی تمہید میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ 1976ء میں لفظ ”سیکولر”کے ساتھ ”سوشلسٹ ” کی شمولیت کو چیلنج کرنے والے مقدمہ کی سماعت کے دوران دو رکنی بنچ کے رکن جسٹس سنجے کمار نے سبرامنیم سوامی کے وکیل سے چبھتا ہوا سوال کیا کہ ”کیا آپ نہیں چاہتے کہ یہ ملک سیکولر رہے ”؟ اس پر لاجواب ایڈوکیٹ وشنو شنکرجین نے بوکھلا کر کہا کہ ”ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان سیکولرملک نہیں ہے ، ہم توبس اس ترمیم کو چیلنج کررہے ہیں”۔
سپریم کورٹ کے اس سوال پر بھگوا ایڈوکیٹ اشوینی اُپادھیائے نے اپنی شکایت کے خلاف دلیل پیش کردی ۔ وہ بولے ہندوستان کو ہمیشہ سے سیکولر رہاہے ۔ اس پر کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلے موجود ہیں جن میں سیکولرازم کو آئین کا ”ناقابل ترمیم”حصہ تسلیم کیاگیاہے ۔ جسٹس سنجیو کھنہ کے قیادت والی بنچ نے اعتراض کرنے والوں کوسمجھانے کی کوشش کی کہ اگر آپ آئین میں دیئے گئے حق ِمساوات اور لفظ ‘اُخوت’ کے استعمال کو دیکھیں نیز تیسرے حصے میں بنیادی حقوق پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سیکولرازم کو آئین کی بنیادی خصوصیت کے طور پر رکھا گیاہے ۔جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا تھا کہ ”جہاں تک سیکولرازم کا معاملہ ہے ، جب آئین کو اپنایاگیا اور جب اس پر بحث ہورہی تھی تب ہمارے سامنے صرف فرانسیسی ماڈل موجود تھا۔ اس کے بعد ہم نے اسے متوازن بنا دیا”۔ سوشلزم کی مخالفت کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر کی آڑ لے کر کہا گیا کہ انہیں اندیشہ تھا کہ آئین میں ‘سوشلزم ‘کی شمولیت سے ذاتی آزادی محدود ہوسکتی ہے ”۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا تھا کہ ”سوشلزم کا یہ مفہوم بھی ہوسکتاہے کہ سب کو یکساں مواقع ملیں گے اور ملک کی دولت کی یکساں تقسیم ہونی چاہئے ۔ ہمیں اس (سوشلزم) کے مغربی مفہوم کو نہیں لینا چاہئے ”۔یہ تو اس وقت کی بات ہے جب جسٹس کھنہ چیف نہیں تھے لیکن اب ان کے قد اور اعتماد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ ایسے میں اگر ان کی قیادت کے اندر عبادتگاہوں کے قانون پر مہر ثبت ہوجائے اور آئے دن سروے کے مطالبات بند ہوجائیں تو یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا۔ ویسے موہن بھاگوت نے پھر ایک بار پونے میں آئے دن مساجد کے نیچے مندر تلاش کرکے اپنی لیڈری چمکانے سے منع کیا ہے لیکن مودی کے نقار خانے میں بھاگوت کی طوطی کو کون سنتا ہے؟