... loading ...
۔
عماد بزدار
الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر عمران خان کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے ، جہاں ہرکارے متحرک ہیں کہ انہیں ڈی فیم کیا جا سکے ۔ ہر جانب یہ بیانیہ گونج رہا ہے کہ عمران، جو کل تک امریکی مداخلت کے سخت مخالف تھے اور”ابسولیوٹلی ناٹ”کہہ کر پاکستان کی خودمختاری کا علم بلند کیے ہوئے تھے ، آج جیل میں بیٹھ کر امریکی مداخلت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان پر یہ الزام تھوپا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کی ممکنہ مدد سے رہائی کی توقع رکھتے ہوئے ان کے چہرے پر خوشی جھلکتی ہے ۔ یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے کہ عمران کا نظریہ اور مؤقف محض ایک سیاسی ڈرامہ تھا، اور اقتدار سے دوری نے انہیں اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ مگر اس مہم کے پیچھے چھپی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو طاقتور حلقوں کی جانب سے عوام کی سوچ کو گمراہ کرنے کی ایک کوشش ہے ۔
عمران خان کا پاکستان کی خودمختاری کے حوالے سے مؤقف کسی وقتی جذباتیت یا منافقت پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ یہ ان کی سوچی سمجھی رائے ہے جسے وہ تسلسل سے بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ عمران ہی تھے جنہوں نے ڈرون حملوں کے خلاف عوامی رائے کو متحرک کیا اور اس ظلم کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان کو کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے ، اور اس میں ہونے والی بے گناہ ہلاکتوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اسی طرح، مشرف دور میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کی مخالفت کرتے ہوئے عمران خان نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ جنگ پاکستان کی نہیں بلکہ کسی اور کی جنگ ہے ، اور پاکستان کو اس میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ان کی پختہ رائے تھی، جس پر وہ ہمیشہ قائم رہے ۔ ان کے ان مؤقفوں کا مقصد پاکستان کی خودمختاری کی حفاظت اور ملکی
مفادات کا تحفظ تھا، نہ کہ کسی سیاسی فائدے کی خواہش۔
یوکرین جنگ کے حوالے سے عمران خان نے یہ موقف نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی واضح طور پر پیش کیا کہ یورپ اور امریکہ اپنی جنگ کو ہماری جنگ نہ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اگر چاہے تو غیر جانبدار رہ سکے ، اور کسی دوسرے ملک کے کرایہ دار بننے کی بجائے اپنی خودمختاری کو برقرار رکھے ۔ عمران خان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ کروڑوں پاکستانیوں کے وزیراعظم ہیں اور ان کی پہلی ذمہ داری اپنے عوام کی فلاح اور ملکی مفاد کو تحفظ دینا ہے ۔ ان کا یہ مؤقف نہ صرف پاکستان کی غیرجانبداری کے حق کی حمایت کرتا تھا بلکہ یہ بھی واضح کرتا تھا کہ عمران خان کا نظریہ ہمیشہ سے اصولوں اور خودمختاری کی بنیاد پر رہا ہے ، نہ کہ کسی بیرونی دباؤ یا مفادات کے تحت۔جب بایئڈن ایڈمنسٹریشن غضبناک ہو گئی تھی، اس نے عمران خان کے خلاف اپنی پالیسیوں کو مزید شدت سے نافذ کیا اور ان کے اقتدار کے خاتمے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ عمران خان کو مقامی گماشتوں کی مدد سے سزا دلوانے کے بعد، انہیں اقتدار سے
محروم کرکے جیل کی کال کوٹھڑی میں پہنچایا گیا۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی نے اس جبر اور غیر جمہوری رویوں کے خلاف آواز اٹھائی اور لابنگ شروع کی، جس سے بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ موجودہ رجیم بایئڈن کے جانے کے بعد بے سہارا ہو جائے گا۔ لیکن جب بایئڈن کے الیکشن ہارنے اور ٹرمپ کے جیتنے کی خبریں آئیں، تو ایک نیا سیاسی منظرنامہ سامنے آیا۔
پاکستانی کمیونٹی نے امریکہ میں بھرپور لابنگ کی اور یہاں کے رجیم کے مظالم کو ہائی لائٹ کیا، رائے عامہ کو ہموار کیا کہ کس طرح پاکستانیوں کی جمہوری رائے پردن دھاڑے ڈاکہ ڈالا گیا۔ اس لابنگ کے نتیجے میں بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ ٹرمپ کی حکومت کی طرف سے موجودہ رجیم پر دباؤ آ سکتا ہے ۔ تاہم، اس کے بعد ہرکارے متحرک ہو کر کنفیوژن پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے ہیں، یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف منافقت کر رہی ہے ۔ حالانکہ دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، کیونکہ ایک طرف عمران خان نے ہمیشہ امریکی مداخلت کے خلاف آواز اٹھائی، اور دوسری طرف وہ اب اس صورتحال میں اپنی رہائی کے لیے امریکی مداخلت سے امیدیں نہیں لگا رہے ، بلکہ ان کا مؤقف ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے حق میں رہا ہے ۔ ملکوں کے معاملات ذاتی تعلقات سے کہیں بڑھ کر ہوتے ہیں، نہ تو ٹرمپ اتنے کم عمر ہیں کہ عمران خان کے مؤقف سے بے خبر ہوں، اور نہ ہی عمران خان اتنے معصوم ہیں کہ وہ عالمی معاملات سے لاعلم ہوں۔ موجودہ رجیم اور اس کے سہولت کاروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بایئڈن کے جانے کے بعد ان پر سے امریکی حمایت کا ہاتھ اُٹھ جائے گا، اور انہیں ویسی امریکی حمایت نہیں ملے گی جیسی پہلے تھی۔ عمران خان نے
نہ صرف مشرف دور میں بلکہ جب وہ وزیراعظم بنے ، تب بھی اسی ٹرمپ کو کھلے لفظوں میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بات کی تھی۔ نومبر 2018 میں ٹرمپ نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا:
We no longer pay Pakistan the $Billions because they would
take our money and do nothing for us, Bin Laden being a
prime example, Afghanistan being another. They were just
one of many countries that take from the United States
without giving anything in return. That’s ENDING!"
Donald J. Trump (@realDonaldTrump), November 19, 2018
جواباً عمران خان نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور کہا:
"Trump’s false assertions add insult to the injury Pak has
suffered in US WoT in terms of lives lost & destabilised &
economic costs. He needs to be informed abt historical facts.
Pak has suffered enough fighting US's war. Now we will do
what is best for our people & our interests."
Imran Khan (@ImranKhanPTI), November 19, 2018
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمران خان کا مؤقف ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کے تحفظ اور قومی مفاد کے حق میں رہا ہے ۔ اب جب وہ جیل میں ہیں اور امریکی مداخلت سے امیدیں لگانے کی بات کی جا رہی ہے ، تو یہ تاثر موجودہ حکومت کے ہرکاروں کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے ، جو بایئڈن کے جانے کے بعد امریکی حمایت کے ہاتھ اُٹھ جانے کے خوف سے کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی سفر کی گہرائی کو سمجھنا اور ان کے مؤقف کو سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنا ضروری ہے ۔ ان کا موقف کبھی بھی بدلتا یا عارضی مفادات پر مبنی نہیں رہا۔ ان کی جدو جہد پاکستان کی خودمختاری کے تحفظ اور ملکی مفاد کے حق میں رہی ہے ،اور یہ حقیقت آج بھی قائم ہے ۔