وجود

... loading ...

وجود

ایک اور یونان کشتی حادثہ

هفته 21 دسمبر 2024 ایک اور یونان کشتی حادثہ

دریا کنارے /لقمان اسد

”ہمارے علاقے میں کام کرنے والے ایجنٹ گاؤں کے درجنوں لڑکوں کو یونان اور اٹلی بھجوا چکے تھے۔ میرا بیٹا کچے ذہن کا تھا جو اُن کی باتوں میں آ گیا اور ہمیں بار بار یہی کہتا تھا کہ اگر آپ نے مجھے یورپ نہیں بھجوانا تو میں گھر چھوڑ دوں گا۔یہ الفاظ ہیں 13اور14دسمبر کو کشتی حادثہ کی نذر ہونے ہونے والے 13سالہ محمد عابد کے والد جاوید اقبال کے جو اب اپنے اُس فیصلے پر بُری طرح پچھتا رہے ہیں جب 13 سالہ بیٹے کی ‘ضد’ کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے غیرقانونی طریقے سے اسے یورپ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔’یونان کشتی حادثے میںچالیس پاکستانی جاں بحق ہوئے، کشتی میں تراسی پاکستانی سوار تھے,لاپتہ پاکستانیوں میں بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے ،اس حادثہ کی خبر سن کر مجھے افضل حیات کی بیوہ یاد آگئی جس کا خاوند گزشتہ برس 14 جون کو یونان کشتی حادثہ کا شکار ہونے والوں میں سے ایک تھا ۔اس بیوہ کے الفاظ ہیں کہ ”جس انسان کے ساتھ آپ نے زندگی کے 20 سال گزارے ہوں اور وہ بھی غربت اور کمزوری کے دن جب ہم میاں بیوی ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ وہ اچانک حادثاتی موت کا شکار ہو جائے کہ گھر والے تو دور کسی انسان نے اس کی نعش تک نہ دیکھی ہو۔ ایسے میں دل کو صبر دلانا مشکل ہی نہیں ایک ناممکن سی بات ہے۔ لیکن اب ایک سال سے جب کوئی نام و نشاں نظر نہیں آ رہا تو دل نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہا۔’
گزشتہ برس بھی جون میں یونان میں ایک کشتی ڈوبی تھی جس میں 350 پاکستانی بھی شامل تھیتب پاکستان میں اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اس حادثے میں 281 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ 12 پاکستانی زندہ بچ گئے تھے ۔ باقی لاشوں کی شناخت ہی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔جس وقت یہ حادثہ ہوا تھا اس کے دو ہفتے بعد عیدالاضحیٰ تھی اور اب اس حادثے کو ڈیڑھ برس مکمل ہو رہا ہے کشتی حادثہ کا شکار ہونے والے افضل حیات کی عمر 45 برس تھی۔ اس نے علاقے کے عام نوجوانوں کی نسبت دیر سے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے وہ محنت مزدوری اور کاشت کاری کرکے اپنا گھر بار چلا رہاتھا ۔والدین نے ان کی شادی بھی جلد ہی کر دی تھی۔ جب وہ بیرون ملک روانہ ہوا تو وہ پانچ بچوں کا باپ تھا۔ جن میں بڑے بیٹے کی عمر اب 20 سال ہے جبکہ باقی بچوں کی عمریں بالتریب 17، 15، 13 اور آٹھ برس ہیں۔ان کے خاندان نے یہ ڈیڑھ سال امید اور بے یقینی کے بھنور میں ایسے گزارا ہے کہ ایک دن جب دل کو رب کی رضا پر راضی کرتے اگلے ہی دن کوئی جھوٹی خبر ان کی امید کو جگا دیتی جس وجہ سے گھر میں ہمہ وقت اداسی کا ماحول چھایا رہتا ہے۔,افضل کی والدہ آج بھی کہتی ہیں کہ ‘ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنے زیادہ لوگ مر جائیں اور ان کی نعشوں کی شناخت نہ ہو۔ یقیناً انھوں نے میرے افضل سمیت بہت سے لوگوں کو پکڑ رکھا ہے۔ کسی نہ کسی دن وہ ان کو چھوڑ کر واپس بھجوا دیں گے۔اس حادثے میں افضل حیات کے علاوہ بھی جان کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین کی اکثریت نے اپنے بچوں کی موت کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔
13 اور14دسمبر کی شب ہونے والے کشتی حادثہ میں یونانی کوسٹ گارڈ زنے لاپتہ پاکستانیوں کی تلاش کا ریسکیو آپریشن ختم کردیا ہے، جس کے بعد تمام لاپتہ افراد کو مردہ تصورکیا جائے گا۔اور افضل حیات کے لواحقین کی طرح ان کے انتظار میں بھی لواحقین کی آنکھیں سولی پر ٹنگی رہیں گی انسانی اسمگلرز کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ کوسٹ گارڈ اور سرویلینس سسٹم سے بچنے کے لیے بڑے بحری جہازوں کے بجائے چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ 11 سے 12 دسمبر کی شب تارکین وطن کو لیبیا سے تین مختلف کشتیوں میں سوار کیا گیا۔ یہ کشتیاں ڈھائی دن تک سمندر میں رہیں، جن میں سے دو محفوظ رہیں جبکہ ایک حادثے کا شکار ہو گئی۔تاہم متاثرین کی عمریں 15 سے 40 سال کے درمیان تھیں، جن میں زیادہ تر 25 سے 30 سال کے نوجوان شامل تھے۔ کشتی میں 15 سے 16 سال کے تین کم عمر بچے بھی موجود تھے۔ زیادہ تر افراد کا تعلق پنجاب کے ضلع سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے علاقوں سے تھا۔سرکاری ذرائع کے مطابق لیبیا میں ابھی بھی کم و بیش 5 ہزار پاکستانی موجود ہیں، یورپ جانے کے خواہشمند یہ افراد مختلف پاکستانی و لیبیا کے ایجنٹوں کے پاس ہیں۔ یہ پاکستانی قانونی طور پر پاکستان سے ویزہ لے کر لیبیا پہنچے اور یورپ جانے کی خواہش نے ان کی جان لے لی لیکن کیا سالِ گزشتہ کی طرح اس حادثہ کے ذمہ داروں پر قانون کی گرفت کسی جائے گی اس کا جواب نہیں میں ہے کیونکہ جون 2023میں ہونے والے حادثہ پر خاندانوں اور رشتہ داروں کی معلومات پر147 انسانی اسمگلرز کی نشاندہی ہوئی جس کی روشنی میں 200 کے قریب مقدمات درج ہوئے’مگر طاقتور قانون کے کمزور جال کو پیسوں کی طاقت سے توڑنے میں کامیاب ہوگئے لواحقین کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے ہم سے ابتدائی ایام میں صرف ایجنٹ کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا اس کے علاوہ کسی سرکاری ادارے نے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔ جبکہ نعشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے سیمپل لئے گئے ۔اور حالیہ حادثہ میں فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے کریک ڈاؤن کے نام پر پھالیہ سے مبینہ انسانی اسمگلر محمد حسن کو گرفتار کر لیا ہے۔جبکہ ابھی تک چار مقدمات کا اندراج ہوا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
امریکا ، دہشت گردی اورپاکستانی عوام وجود منگل 11 مارچ 2025
امریکا ، دہشت گردی اورپاکستانی عوام

بھارت پر امریکی ٹیکس عائد وجود منگل 11 مارچ 2025
بھارت پر امریکی ٹیکس عائد

امریکی گولڈن ویزا کی فیس 50لاکھ ڈالر وجود منگل 11 مارچ 2025
امریکی گولڈن ویزا کی فیس 50لاکھ ڈالر

توبہ کا دروازہ کھلا ہے، دیر نہ کریں! وجود پیر 10 مارچ 2025
توبہ کا دروازہ کھلا ہے، دیر نہ کریں!

نیٹو کا خاتمہ اورعالمی سیاست پر اس کے اثرات وجود پیر 10 مارچ 2025
نیٹو کا خاتمہ اورعالمی سیاست پر اس کے اثرات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر