وجود

... loading ...

وجود

مساجد کومندروں میں تبدیل کرنے کی سازش

جمعه 20 دسمبر 2024 مساجد کومندروں میں تبدیل کرنے کی سازش

ریاض احمدچودھری

حال ہی میں مسلمان تجارتی اداروں اور ہوٹلوں کا بائیکاٹ، مسلمانوں کو کرائے پر مکان دینے سے انکار، مسلمان گھروں پر بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلانے کے بعد ‘اچھل کود کرنے والے گروپوں کی جانب سے نئے نئے دعوے سامنے آنا شروع ہو گئے، جو ہندو مفادات کی ٹھیکیداری کے دعوے کے ساتھ جگہ جگہ قدیم ہندو مندروں کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے تمام وسطی دور کی مساجد اور درگاہوں پر آثار قدیمہ کے سروے کرانے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔’ دستخط کنندگان کی مضبوط رائے ہے کہ صرف وزیر اعظم وہ واحد شخص ہیں جو ان ‘غیر قانونی، نقصان دہ سرگرمیوں’ کو روک سکتے ہیں! اب اس امید پر کیا کہا جائے؟ یہ خط عبادت گاہ (خصوصی ضابطہ) ایکٹ 1991 کو نافذ کرنے میں حکومت، پولیس اور عدالتوں کی ناکامی پر ایک مایوس کن ردعمل ہے، جس میں اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور جس کے مطابق ہندوستان میں امن، خوشحالی اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے عبادت گاہوں کا کردار ویسا ہی رہنا چاہیے جیسا کہ وہ 15 اگست 1947 کو موجود تھا۔اترکاشی میں ایسی ہی اچھل کود کرنے والے گروپوں کو اس مطالبے پر جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی کہ نجی ملکیت پر بنائی گئی ایک نئی مسجد انہیں ‘مسجد کی طرح نہیں لگتی’ تھی۔ انہوں نے اس بنیاد پر ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ اس میں کوئی گنبد نہیں تھا اور اس زمین کو اس بنیاد پر متنازعہ بنا دیا کہ اس کا استعمال مختلف تھا۔ ریاستی حکومت نے اْتراکھنڈ ہائی کورٹ کو یہ بتانے کے باوجود کہ اس ساخت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے ‘مہاپنچایت’ کی اجازت نہیں دی جائے گی، آخرکار ‘شرائط’ کے ساتھ اجازت دے دی گئی۔ بلا شبہ عدالت کو یہ بتایا جائے گا کہ شرائط پوری کی گئیں اور کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کی گئی۔
بھارت کی ریاست اتر پردیش میں 185 سال پرانی مسجد کا ایک حصہ تجاوزات کے نام پر شہید کر دیا گیا۔سپریم کورٹ نے بلڈوزر چلانے کو ناقابلِ قبول قرار دیا تھا پھر بھی کچھ دنوں بعد فتح پور ضلع میں حکام نے مسجد کا ایک حصہ منہدم کر دیا۔ضلعی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد کا مسمار کیا گیا حصہ غیر قانونی تھا۔پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کا دعویٰ ہے کہ 17 اگست کو مسجد کے کچھ حصوں کو غیر قانونی تعمیر کی وجہ سے ہٹانے کا نوٹس دیا گیا تھا۔ پی ڈبلیو ڈی کے مطابق مسجد کے عہدیداروں کو ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا جس پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تاہم انہوں نے اس حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔دوسری جانب نوری مسجد مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نے پی ڈبلیو ڈی کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔نوری مسجد کی انتظامی کمیٹی کے متولی محمد معین خان نے کہا ہے کہ نوری مسجد 1839ء میں بنائی گئی تھی اور یہاں کی سڑک 1956ء میں بنائی گئی تھی، اس کے باوجود پی ڈبلیو ڈی مسجد کے کچھ حصوں کو غیر قانونی قرار دے رہا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ میں عبادت گاہ (خصوصی ضابطہ) قانون 1991 کے مختلف پہلوؤں کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع ہوگئی ہے۔ یہ قانون کسی عبادت گاہ کی نوعیت تبدیل کرنے یا 15 اگست 1947 کو موجودہ حالت سے مختلف حالت میں تبدیلی کے لیے مقدمہ درج کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔بی جے پی کے رہنما اشونی اپادھیائے نے اس معاملے میں عبادت گاہ قانون کی دفعات 2، 3، اور 4 کو منسوخ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دفعات شہریوں اور مذہبی گروہوں کو عبادت گاہ پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے قانونی حق سے محروم کرتی ہیں۔مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور مہاراشٹر کے ایم ایل اے جتیندر اوہاڈ نے اس قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے۔ ان کے مطابق، یہ قانون ملک کے امن و امان، بھائی چارے، اتحاد اور سیکولرزم کو محفوظ رکھتا ہے۔
جمعیت علماء ہند نے بھی اس قانون کے نفاذ کے لیے ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ دوسری جانب، گیان واپی مسجد انتظامیہ نے عدالت میں مداخلت کی درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہ قانون کے خلاف دائر درخواستیں چالاکی سے مسجد کو نشانہ بنانے کی کوشش ہیں۔یہ قانون 1991 میں کانگریس حکومت کے دور میں پی وی نرسمہا راؤ نے پیش کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق، 15 اگست 1947 سے پہلے موجود عبادت گاہوں کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں ایک سے تین سال تک قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس وقت ایودھیا کیس عدالت میں زیر سماعت تھا، اس لیے اسے اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے سروے کی اجازت دے کر عبادت گاہوں کے تنازعات کو بڑھا دیا ہے۔ دشینت دوے نے کہا کہ اس سے ملک میں مذہبی تنازعات بڑھیں گے اور عدالت کو اس پر روک لگانی چاہیے۔
جب 29 نومبر 2024 کو ایک مقامی عدالت نے راجستھان میں اجمیر شریف درگاہ کے سروے کا حکم دیا، تو دو دن بعد دہلی کے سابق نائب گورنر نجیب جنگ اور سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے 15 دیگر سول سروس افسران کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کو ایک کھلا خط لکھا جس میں ‘اس مخصوص ہم آہنگی والے مقام پر ایک نظریاتی حملے’ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس خط کے دستخط کنندگان میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔خط میں تسلیم کیا گیا کہ بین المذاہب تعلقات ہمیشہ اچھے نہیں رہے ہیں لیکن اس میں کہا گیا کہ ”گزشتہ 10 سالوں کے واقعات صاف طور پر مختلف ہیں کیونکہ ان میں کئی متعلقہ ریاستی حکومتوں اور ان کی انتظامیہ کا واضح طور پر جانبدارانہ کردار دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔”


متعلقہ خبریں


مضامین
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں! وجود اتوار 22 دسمبر 2024
خطہ پنجاب تاریخ کے آئینے میں!

عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق وجود اتوار 22 دسمبر 2024
عمران خان اور امریکی مداخلت:حقیقت اور پروپیگنڈے کا فرق

پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟ وجود اتوار 22 دسمبر 2024
پاکستانی لانگ رینج میزائل کس کے لیے خطرہ ہیں؟

مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں وجود اتوار 22 دسمبر 2024
مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں

بھارت بنگلہ دیش چپقلش وجود هفته 21 دسمبر 2024
بھارت بنگلہ دیش چپقلش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر