... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
بوڑھی عورت کے جھریوں زدہ چہرے پر پہلی بار حقیقی خوشی کے آثار نظر آئے۔ایک ایسی خوشی جو دل سے پھوٹتی ہے اور چہرے پر آ کر لوسی دینے لگتی ہے، اس خوشی کے استفسار سے پہلے ہی بوڑھی عورت بول اٹھی کہ بغاوت کی فصل پک چکی ہے تبدیلی اب اِس قوم کا مقدر ہے ۔۔۔
پھر مجھے حجاج بن یوسف کے وہ الفاظ یاد آئے جو بغدادکی فضائوں میں معلق ہو کر رہ گئے۔۔
“سروں کی فصل پک چکی اب کاٹنے کا وقت آگیا ” ۔۔۔
جہاں قابل احتساب اقلیت کے ہاتھوں ناقابل احتساب اکثریت یرغمال ہو !!
جہاں غیر منصف اہلیت کے ہاتھوں عوام کا حق خود ارادیت سبوتاژ ہو!!
جہاں حکمرانوں اور عوام کے درمیان غلام اور آقا کا فرق بتدریج بڑھ رہا ہو!!
جہاں 7643افراد کے ہاتھوں 25کروڑ لوگوں کا معاشی گینگ ریپ ہو!!
جہاں جہالت پسندی اور روشن خیالی کے درمیان معرکہ آرائی ہو رہی ہو!!
جہاں ڈگری یافتہ نسل نو کو بے روزگاری کا ناسور، رشوت ، سفارش ،اقرباپروری،منشیات ،خودکشی اور ظلم و استحصال کی صورت ڈس رہا ہو!!
جہاں جمہوریت ، جمہور کو سوکھے پتوں کی طرح پائوں تلے کچل رہی ہو!!
جہاں راستے تحفظ اور شہری پناہوں کے طلب گارہوں!!
جہاں گلیوں کے پیچ و خم میں بارود بھرا ہو!!
جہاں امن !
لا قانونیت، مذہبی جنونیت،افراط زر ، نام نہادد ہشت گردی،غربت، بے روز گاری، راشی پولیس کی بدمعاشی، حکمرانوں کی من مرضی کے تاریک کنویں میں ڈوب رہا ہو!!
جہاں صبحیں اور شامیں نوحہ گری کی نذرہو رہی ہوں !!
جہاںذوق تخریب تعمیر کے تصورمیں رچ بس گیا ہو!!
جہاں آدرش،روشنی،پیمان زندگی،تہذیب کا تقدس پامال ہو رہا ہو!!
جہاں اسیر ذہنوں میں تعمیری سوچ بھرنے والے حکیم سعید اور غازی صلاح الدین کا قتل سیاسی مصلحتوں کا نتیجہ ٹھہرے!!
جہاں دن دیہاڑے منصف کا بیٹا گن پوائنٹ پر اُٹھا لیا جائے !!
جہاں امن کے داعی عاشقِ رسول کو سر ِ راہ درندے اپنی درندگی کا نشانہ بنادیں!!
جہاں کھربوں روپے کے بجٹ سے عوام کیلئے صرف دس ارب مختص ہوں !!
جہاں ہر ماہ مہنگائی اور حکمرانوں کے منی بجٹ کے ساتھ لاشوں میں اضافہ ہوتا ہو!!
جہاں حکومت وقت مقتدر طبقات کے تحفظ کیلئے محاصل کا بوجھ عوا م کی کمر پر لادنے کیلئے بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی ہو!!
جہاں بانی پاکستان کی پارٹی کے چہرے پر جعلی لیبل لگا کر قیادت دھرتی کے اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ِ ملک منتقل کر دے !!
جہاں سیاست عوامی خدمت کے بجائے خاندانی وراثت بن جائے !!
جہاں سیاست کے منفی رحجانات اور منافقانہ رویے بھائی کو بھائی اور بیٹے کو باپ سے لڑا رہے ہوں!!
جہاں کرپٹ بیوروکریسی اپنے بھتیجوں ،بھانجوں کو ملازمتوں سے نواز کر ،”ضرورت ہے ” کے اشتہا ر کے ذریعہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر تی ہو!!
جہاں ہر شعبہ ناانصافیوں،کھوکھلے نعروں، اسمگل شدہ ثقافت اور ذہنی ڈیپریشن کی زد میں ہو!!
جہاں افلاس سے وعدوں کا دم گھٹنے لگا ہو!!
جہاں خواہشا ت کی آنکھیں نابینا اور جذبے سچائی کی سولی پر لٹکے ہوں!!
جہاں 25کروڑ لوگوں کی خود اعتمادی کے پر نوچ لیے گئے ہوں!!
جہاں ایک خالی جیب باپ عید پر کپڑے مانگنے والے لخت ِ جگر کو زمین پر پٹخ کر موت کے گھاٹ اُتار دے اور بجٹ پیش کرنے والا وزیر خوشیوں کے شادیانے بجائے !!
جہاں بے قرار،کج نصیب،راندۂ درگاہ قوم کی سوچوں نے آنیوالے دنوں کیلئے کفن سی لئے ہوں!!
جہاں لہو ٹپکتی نظر یں خزاں کا موسم اگا رہی ہوں !!
جہاں غموں کی کھیتی آنسوئوں سے سیراب ہو رہی ہے!!
وہاں مایوسی کا غصے میں بدلنا فطری امر ہے اور انقلاب کسی ہراول کا منتظر ہے۔ 98فیصد لوگوں کے یقین کی لو تھر تھرا رہی ہے کہ قیادت کی کسوٹی پر کون پورا اترے گا،بغاوت کی ہولناک خاموشی کاتسلسل ٹوٹنے والا ہے کہ ضبط کی رفاقت کو78سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط جبرو استبداد،ظلم و ناانصافی کا نقاب الٹے گا کہ ارتقا کا مزاج تغیرات سے افزوںہے!!
دھوکے کی بنیاد پر ظلم کے طویل اقتدار کی دیوار کب تک کھڑی رہے گی آخر اسے گرنا ہے ،زمین بوس ہونا ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔