وجود

... loading ...

وجود

دسمبرکانوحہ

بدھ 18 دسمبر 2024 دسمبرکانوحہ

……
سرور صدیقی

6دہائیاںپہلے عالم ِ اسلام پرجو سانحہ بیتا اس کی کسک آج بھی محب وطن محسوس کرتے ہیں جب بھی یاد آتی ہے سینے فگار،روح زخمی اور چہرہ چہرہ سوالیہ نشان بن جاتاہے ۔ایسی شکست،ایسی ہزیمت،ایسی شرمندگی کہ جب خیال آتاہے دل سے دھواں سا اٹھتا محسوس ہوتا ہے ۔ 16دسمبر بلاشبہ سقوط ِ ڈھاکہ عالم ِ اسلام کے لئے سقوط ِ بغداد کے بعد سب سے بڑا سانحہ ہے پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں ملک کو دو لخت ہونے کے نصف صدی بعدبھی یہ سوال اکثر سلگتارہتاہے کہ اب کیا ہوگا؟ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ پریشان کن سوال اس لئے بھی سر اٹھاتارہتاہے کہ اسی روز پشاور میں ایک اور خوفناک سانحہ اے پی ایس رونما ہوا جس نے پورے پاکستان کو ہلاکررکھ دیا اس دل سوز واقعہ کی یاد ایک دہائی سے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو مضطرب کر رہی ہے ایک لحاظ سے سانحہ اے پی ایس پاکستان کے روشن مستقبل پر حملہ تھا ۔شہدائے اے پی ایس نے قوم کو دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے یکجا کیا ہے۔پوری قوم آ ج اس لئے بھی فکرمندہے کہ وطن ِ عزیزکو پہلے سے بھی زیادہ سنگین خطرات میں گھرے پاکستان کو دیکھ کر آنکھیں نمناک اور سوچیں متفکر ہوجاتیں ہیںکہ ہر سال ماہ ِ دسمبرمیں ایسی سوچیں حاوی اس لئے بھی ہوجاتیں ہیں کہ ہم نے 1971ء سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا حالانکہ ملک کے دولخت ہونے پر کفِ افسوس ملتے ہوئے ملک کی قومی سیاسی، حکومتی اور عسکری قیادتوں سے ملک کی سلامتی و بقاء کیلئے فکرمند ہونے اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا استوار کرنے کی متقاضی تھی آج بھی اقتدارکی غلام گردشوںمیں ایک بار پھر ماضی کا بھیانک کھیل کھیلا جارہاہے کسی کے لئے یہ ملک محرومیوں کی لمبی داستان ہے جوسسکتے ارمانوںکے ساتھ زندگی کے دن پورے کررہے ہیں جن پر زندگی تنگ کردی گئی ہے ۔ اس ملک نے ہرکسی کو کچھ نہ کچھ ضرور عطا کیاہے لیکن پاکستان کو کسی نے کچھ نہیں دیا بلکہ اس کیلئے کبھی سوچا تک نہیں یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے یہ جو بڑے بڑے افسر،سرمایہ دار،جاگیردار،وزیر مشیر ہمیں نظر آتے ہیں جن کی گردنیں اتنی موٹی ہیں کہ کوشش کے باوجود مڑنہیں پاتیں پاکستان نہ بنتا تو وہ کسی ہندو بنئے سے محنت مزدوری کی اجرت لینے کے لئے گھنٹوں قطارمیں کھڑے رہتے ۔الحمد اللہ آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں ۔یہ آزادی ہمیں کسی نے تحفے میں نہیں دی یہ ملک ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا ۔اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی تھیں۔ ہزاروں مائوں،بہنوں بیٹیوں نے اس پاک دھرتی کے حصول کیلئے اپنی عصمت قربان کردیں، سینکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندوئوں،سکھوں نے اپنی رکھیل بنا ڈالا جن میںدرجنوں آ ج بھی زندہ ہوں گی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا اتنا بڑا جرم بن گیا تھا ظالموں نے بے شمار مائوں کے جگر گوشوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیا ۔ یہ پاکھنڈی دانشورجو آج ایکتا کے نعرے لگاتے ہیں اس وقت کہاں تھے جب جنوبی ایشیاء کے مسلمانوںپر اتنے ظلم ہوئے کہ امریتا پریتم جیسے شاعرہ بھی خون کے آنسو روتے دہائیاں دینے لگی ۔اپنے آپ کو پنجابی کہنے والے سکھوں نے پنجابی قوم پر ہی سب سے زیادہ ظلم کے پہاڑ توڑڈالے انہوںنے ماں بولی کا بھی خیال نہ کیا کاش انڈیا سے پاکستان آنے والی اس خون میں ڈوبی ریل گاڑی کو قومی عجائب گھر میں رکھا جاتا جس میں کٹے پھٹے اپنے ہی لہو میں نہائے زخمیوں، بے گناہ مسلمانوںکی لاشوں اور زخموں سے چیختی نوجوان لڑکیوں، مائوں سے چھاتی سے چمٹے معصوم بچوں کی لاشیں تھیں جن کا کوئی جرم نہ تھا جن کو ناحق ماردیا گیا ۔قومی المیہ یہ ہے کہ جن قوتوںنے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا وہ سازش، دھونس اور جبر سے اس ملک کے وارث بن بیٹھے وہ آج بھی ہم سے پاکستان بنانے کے جرم کا انتقام لے رہے ہیں بس انداز بدل گیا ان کا ذہن آج بھی1947ء جیساہے ہماری سمجھ میں بات نہیں آرہی، یہی پاکستان کے دشمن کبھی ڈیم نہیں بننے دیتے،کبھی حکومتوںکو عدم سیاسی استحکام سے دوچارکردیتے ہیں ،کبھی معاشی طورپر کمزور کرنے کی سازشیں کرتے ر ہتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے مفادات کیلئے حکومتوںکو بلیک میل کرتے ہیں اورہمارے ناعاقبت حکمران ہرقیمت پر اقتدار میں رہنے کی خاطر ان سے بلیک میل ہوتے رہتے ہیں جس سے اندازہ لگایاجا سکتاہے کسی کو پاکستان کی فکرنہیں ان بھیانک چہروں نے 25کروڑ عوام کو خوشیوں کو یرغمال بنایا ہواہے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ہر محب ِو طن پاکستانی ان کے نام اور مکروہ چہروںکو بخوبی جانتا اور پہچانتاہے یہ اس وقت بھی اقلیت میں تھے آج بھی اقلیت میں ہیں اور اقلیت میں لوگ ہمیشہ منظم ہوتے ہیں ۔ان لوگوںنے پاکستان کے سارے سسٹم کو یرغمال بنارکھا ہے ۔پاکستان یہ دشمن مذہب، صحافت، کاروبار سمیت زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں حکومت جمہوری ہو یا ڈکٹیٹروںکی کبھی یہ لوگ ملکی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچنے د یتے ان مکروہ چہروںنے غربت کو پاکستانیوںکے لئے بدنصیبی بنا دیاہے تمام محب وطن سیاستدانوں کو یہی گذارش ہے اب یہ بلیک میلنگ بند ہونی چاہیے ۔آپ تھوڑی سی قربانی دے لیں حالانکہ سب سے بڑی قربانی قائد اعظم محمد علی جناح نے دی تھی۔ قائد اعظم نے پاکستان کو زندگی کا مشن بنایا اور آپ کا مقصد ِ حیات پیسہ ،پیسہ اور فقط پیسہ ہے کچھ تو خدا کا خوف کھائیں قائد اعظم نے پاکستان اس لیے نہیں بنایا کہ یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو کرپشن ہو، لیڈر شپ کو مثالی ہونا چاہیے ، لیڈر پہلے خود مثال بنتا ہے پھر لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یادرکھوپاکستان کسی نے ہمیں تحفے میں نہیں دیا اس کے لئے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوںکو شہیدکردیا گیا۔ کئی کئی روز ان کی بے گورو کفن لاشیں کھلے آسمان تلے پڑی رہیں،ہندو ،سکھ بلوائی ہزاروں مسلمان جوان لڑکیوںکو اٹھاکرلے گئے،ہزاروںکی عصمت دری کی گئی پاکستان محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں اس کے حصول کیلئے جو قربانیاں دی گئیں تھیں آج کے ان نوجوانوںکو اندازہ نہیں جو14اگست کو جشن ِ آزادی مناتے ہوئے انڈین گانوںپر مزے سے ناچتے پھرتے ہیں یا وہ بچے جو گلیوں،سڑکوں پر موٹر سائیکل سے سلنسر اتارکر غل غپاڑہ کرتے پھرتے ہیں حالانکہ انہوںنے تو نظریاتی و جغرافیائی سرحدوںکی حفا ظت کرنا تھی ہماری سیاسی وعسکری کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ آج بھی نظریہ ٔ پاکستان کے مخالف، قائد ِ اعظم کے سیاسی حریف اور اس ملک کی ترقی کے دشمنوںکو اعلانیہ ،غیر اعلانیہ اتحاد ہے جبکہ محب ِ وطن عناصر منتشرہیں نصف صدی بعدبھی یہ سوال سلگتے رہتاہے کہ اب کیا ہوگا؟ پاکستان کا کیا بنے گا؟ اداروںکی ناکامی کا بین ثبوت ہے اس ماحول میں 6دہائیاں پہلے عالم ِ اسلام پرجو سانحہ بیتا شاید ہم نے اسے فراموش کردیا اور حال مست مال مست بن گئے خدارا سب کوحالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے کیونکہ 16دسمبر2014 ء کے خوفناک دن امن کے دشمنوں نے مستقبل کے معماروں کے مستقبل پر حملہ کیا جو ہر لحاظ سے ناقابل ِ برداشت تھا انتہاپسندی کو کچلنے ، دہشت گردی کے خاتمہ اور پرامن پاکستان کیلئے پوری قوم کو عہد کرنا ہوگا اے پی ایس حملے کی10ویں برسی سے واضح ہے کہ دہشتگردوں کا ایجنڈا ملک میں فساد اور انتشار پھیلانا ہے۔کیونکہ آج بھی ملک میں بدامنی، فوجی قافلوںپر حملے، دہشت گردی،غربت، مہنگائی،انتہاپسندی کے عفریت سے پوری پاکستانی قوم عاجز آئی ہوئی ہے اور حالات بہتر ہونے کی بجائے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوںکو پہلے سے زیادہ خطرات کا سامناہے ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ ہم مشکل میں ہیں پاکستان مشکل میں ہے اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم اتحاد، اتفاق سے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ان کا حق تسلیم کرنے سے نکل سکتے ہیں آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ عالم ِاسلام کو تاقیامت کسی اور16دسمبرکا منحوس دن نہ دیکھنا پڑے آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر