وجود

... loading ...

وجود

عمران خان پھانسی کے لیے تیار؟

جمعه 13 دسمبر 2024 عمران خان پھانسی کے لیے تیار؟

رفیق پٹیل

سینیٹرفیصل واوڈا کے نامعلوم سیاسی نظریات کی شاید ہی کوئی تشریح کرسکے گا، ان کے موجودہ اور سابقہ بیانات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ البتہ پی ٹی آئی چھوڑنے کا فائدہ انہوں نے خوب اٹھایا ہے۔ اب وہ خود کو طاقتور حلقوں کا نمائندہ کہتے ہیں۔ آج کل فیصل واوڈا ہر جگہ بانی پی ٹی آئی کو پھانسی کی سزا دینے کے موضوع پر بات کررہے ہیں۔ ان کی پیپلز پارٹی کی قیادت اور ایم کیو ایم کی قیادت سے بہت زیادہ قربت ہے ۔ان دو جماعتوں کی مدد کے بغیر وہ سینیٹ کے رکن منتخب نہیں ہوسکتے تھے۔ میڈیا کے سامنے وہ بظاہر بانی پی ٹی آئی کی زندگی بچانے کی بات کررہے ہیں۔فیصل واوڈا کے ماضی قریب کا رویہ بانی پی ٹی آئی کے بارے میںمو جودہ نئے بیان کو مشکوک بنا رہا ہے۔ کل بھی اور آج بھی وہ ان لوگوںکا ساتھ دے رہے ہیںجو بانی پی ٹی آئی کے شدید مخالف ہیں اور ہر صورت میں بانی پی ٹی آئی کو سیاسی عمل سے باہر کرنا چاہتے ہیں، خو د ان کے خیالات بانی پی ٹی آئی کے بارے میں اچھے نہیں تھے ۔بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے بارے میں گفتگو کامقصد پارٹی کی تقسیم کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ بانی پی ٹی آئی سے اچانک ہمدردی سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ پردے کے پیچھے وہ کیا کر ہے ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم ہے حقیقت کیا ہے یہ سچ کبھی سامنے آجائے گا۔ پاکستان کی سیاست میں پردے کے سامنے کچھ اور اور پردے کے پیچھے کچھ اورکہانی چلتی ہے۔ امید ہے کہ اپنے بیان کے برعکس دیگر جماعتوں کو بانی پی ٹی آئی کو پھانسی کی سزا کی حمایت کے لیے آمادہ نہیں کررہے ہونگے، جن لوگوں سے وہ ملاقاتیں کررہے ہیں انہیں بانی پی ٹی آئی کے زندہ رہنے سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں بانی پی ٹی آئی کو موت کی سزا یا عمر قید کی سزا سے پاکستان کے حالات میں کسی بہتری کی توقع کر نا دانشمندی نہیں ہے۔ اس عمل سے مزید عدم استحکام کی صورت پیدا ہوگی ۔بانی پی ٹی آئی سزا قبول کرنے کے لیے تیا ر ہو سکتے ہیں کسی یک طرفہ مفاہمت پر انہیں آمادہ کرنا ممکن نہیںہے یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان میں سیاسی استحکام، خوشحالی اور ترقی کے لیے سنجیدہ کوششوں کی اشدضرورت ہے ۔شاید فیصلہ ساز قوتیں اس سلسلے عالمی معاشی ماہرین ،سیاسی اور سماجی محقّقین کی جانب سے وضع کردہ رہنما اصولوں کو پس پشت ڈال کر اپنا کوئی نیا فارمولا تیار کر رہی ہیں او ر ماہرین کے ایسے کسی مصدقہ فارمولے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے جس کو اپنا کر بعض ممالک نے تیز رفتار ترقی کی ہے۔ حکمران جماعتوں کے اس رویّے کی وجہ سے پاکستان سیاسی،معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی میں مبتلا ہے ۔
پاکستان کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پر ڈالنا ٹیکنالوجی کے موجودہ جدید دور میں بچوں کا کھیل ہے۔ بظا ہر یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ،امریکی تحقیقی اداروں ،دنیا کے معاشی اور دیگر اہم شعبوں کے ماہرین نے وہ فارمولا پیش کر دیا ہے جس پر عمل درآمد سے کوئی بھی غریب ملک امیر ملک بننے کے سفر کا آغا ز کر سکتاہے ۔منصفانہ انتخابات،آزاد عدلیہ،صاف ستھری بد عنوانی سے پاک انتظامیہ اور عوام کے بنیادی حقوق اس کے رہنما اصول ہیں۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ وقتی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس فارمولے کو وہ اپنے اقتدار کے لیے خطرہ تصورر کرتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت عوامی حمایت سے محروم ہے اور برسراقتدار جماعتیں عوامی سطح پر اپنا وجود کھو رہی ہیں جس کی مثال فروری 2024کے عام انتخابات تھے جس میں تحریک انصاف کے سوا تقریباً تمام جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ہرقسم کی آزادی تھی۔ البتہ تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی تھی اس کے پاس کوئی انتخابی نشان نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان بلانہیں دیا نہ ہی کوئی اور نشان دیا۔ اس کے امیدواروں کو مجبوراً آزاد حیثیت سے انتخابی عمل میں شرکت کرنے پر مجبور کردیا گیا جو امیدوار انتخابات کے فارم لینے جاتے تھے انہیں گرفتار کیا جاتاتھا انتہائی مشکل طریقوں اور عدالتی کارروائیوں کے بعد وہ انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصّہ لینے کے قابل ہوئے ،ان کی انتخابی مہم پر رکاوٹیں تھی۔ عمومی طور پر سوشل میڈیا یا زیر زمین سینہ بہ سینہ مہم چلاکر تحریک انصاف نے انتخابات میں حصہ لیا اور آٹھ اکتوبر کی شب تک وہ ملک بھر میں تقریباًدوتہائی نشستوں پر آگے تھے۔ اچانک نتائج کا اعلان روک دیا گیا۔انٹرنیٹ کی سروس بند ہوگئی ۔پی ٹی آئی اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق پریذائیڈنگ افسران اور وہاں موجود تما م سیاسی جماعتوں کے ایجنٹوں کے دستخط شدہ فارم 45کے بجائے ریٹرننگ افسران کے دستخط کردہ فارم 47کے نتائج کا اعلان نامہ پوری رات گذر جانے کے بعد دوسرے اور تیسرے دن جاری کیا گیا جو پریزائیڈنگ افسران کے فارموں کے مجموعی اعداد و شمار سے مختلف تھا اور بعض نشستوں پر تیسری اور چوتھی پوزیشن والوںکو کامیاب قرار دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دوتہائی سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن نتائج تبدیل کرکے مسلم لیگ ن ،پی پی اور ایم کیو ایم کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ہارنے والوں کو کامیاب قرار دے کر حکومت بنانے کا موقع دیا گیا۔ حکمراں جماعت آج تک اپنی حکومت کو جائز قرار دینے کے ٹھوس شواہد خصوصاً فارم 45پیش نہیں کرسکی ۔یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کی وجہ سے حکمران جماعتوں کے لیے مسائل ختم نہیں ہوئے ۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں مبیّنہ دھاندلی اورعمران خان کی گرفتاری نے پورے نظام کو ہلا رکھا تھا۔ اب بعض مبصّرین اچھل اچھل کر بیان دے رہے ہیں کہ عمران خان کوفوجی عدالت کے ذریعے پھانسی دی جائے گی جیسے انہیں فیصلہ پہلے سے معلوم ہے۔ بالواسطہ وہ دفاعی ادارے پر الزام عائد کر رہے ہیں بعض لوگ سوشل میڈیا پر اس طرح تبصرہ کر رہے ہیں جیسے وہ خود جاکر پھانسی دینا چاہتے ہوں۔ ابھی ڈی چوک اسلام آباد کی فائرنگ پر عالمی میڈیا کے الزامات سے حکومت کی جان نہیں چھوٹی تھی کہ ایسی گفتگو شروع کردی گئی جس کا نقصان پی ٹی آئی کے بجائے حکمراں جماعتوں کو ہورہا ہے۔ حکمران جماعتوں کے رہنما مسلسل ملک کے اہم ادارے پر سارا بوجھ ڈال کر خود چھپ جانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اور ان کی آنے والی نسلیں ان عہدوں پر فائز رہیں۔ بادشاہت کے دور میں بھی ایساممکن نہیں تھا آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی نے دنیاکو ایک ایسا گائو ں بنادیا ہے جہاں کسی خبر کو چھپانا انتہائی مشکل کام ہے۔ ایک ایسی حکومت جسے عوامی حمایت حاصل نہیں جس کے جائزہونے کے بارے میں فروری انتخابات کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے دنیابھر کا میڈیا انکار کر رہا ہے ۔آئین میں کی گئی ترامیم پر اقوام متحدہ اور دنیا بھر کے قانونی ماہرین نے تنقید کی تھی ۔اب پوری دنیا کے میڈیا میں ڈی چوک میں فائرنگ کے واقعات پر تنقید ہورہی ہے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بیرون ملک عوامی مقامات پر جا نہیں سکتے۔ اس صورت حال میںمعاشی اور سیاسی استحکام کاحصول ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک شفّاف جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ پر مشتمل حکومت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی خوشحالی عوام کی خوشحالی اور انہیں با اختیا ر بنانے میں پوشیدہ ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر