... loading ...
حمیداللہ بھٹی
باغیوں کی دمشق کی طرف پیش قدمی سے قبل ہی صدر بشارالاسدنے اقتدار سے الگ ہوکر روس میں پناہ لے لی ۔اس وجہ سے کسی خاص مزاحمت کے بغیر ہی پورے ملک سے بعث پارٹی کی سیکولر حکومت کاخاتمہ ہوگیا ۔ یہ پارٹی کہنے کوتو بظاہر ایک سیاسی جماعت تھی لیکن اِس پر عسکری اِدارے کااِس حد تک کنٹرول تھا کہ فوجی افسروں پر بعث پارٹی کے ممبر بننے پربھی کوئی قدغن نہ تھی۔ 1970میں حافظ الاسد بھی ایسے حالات میں عسکری انقلاب کے ذریعے ملک کے صدر بنے جب وہ شامی فضائیہ کے چیف کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے ۔ اُن کی صدارت میں انتخابات بھی ہوتے رہے لیکن سیاسی جماعتوں کاکردار برائے نام ہی تھا ملک پر اصل گرفت بعث پارٹی کی صورت میں فوج کی تھی۔ یہ نظام غیرجمہوری ہونے کے باوجود اسرائیلی خطرے کی وجہ سے ابتدامیں تو خوب پسند کیا گیا۔یہ پسندیدگی چار دہائیوں تک محیط رہی لیکن اظہارِ رائے پرلگائی جانے والی بے جاپابندیوں سے لوگ بدظن ہوتے گئے۔ اسدخاندان نے عوام میں بڑھتی نفرت کے باوجود اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی 2000ء میں حافظ الاسد کی وفات کے بعداُن کے بیٹے بشارالاسد نے اقتدار سنبھالاتو آغاز میں کسی حد تک نرمی سے کام لیا لیکن جلدہی عوامی تنقید سے اُکتا گئے اوراظہارِرائے پروالدسے بھی زیادہ پابندیاں لگاتے گئے۔ اسدخاندان عقیدے کے اعتبار سے علوی ہیں اِس فرقے کی ملکی آبادی میں تعدادبیس فیصدسے کم ہے لیکن ملک کی اسی فیصد آبادی کا مسلک شافعی سنی ہے۔ اسی لیے وزیرِ اعظم کا تقررکرتے ہوئے اکثریتی مسلک سے انتخاب کیا جاتا رہا تاکہ بے چینی جنم نہ لے مگر عملی طورپر ایسا نہ ہوالیکن کیااپوزیشن کے آنے سے اکثریت مطئمن ہو گئی ہے؟ اِس سوال کا درست جواب حاصل کرنے کے لیے بھی کچھ انتظاربہتر ہوگا موجودہ حالات میں بشارالاسد کی اقتدار سے علیحدگی اور ملک بدری کواقتدارکی تبدیلی کہیں یاانقلاب کا نام دیں حقیقت یہ ہے کہ شام کے موجودہ حالات سے گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
ہیت التحریر شام کے سربراہ کانام ابومحمد الجولانی ہے اِن کا خاندان حکومتی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر شام سے نقل مکانی کر چکا۔ الجولانی کاگروہ ماضی میں کچھ عرصہ القائدہ سے بھی منسلک رہا اور عراق میں امریکہ کے خلاف لڑائی میں حصہ بھی لیا اِس دوران الجولانی گرفتارہوکر پانچ برس تک جیل رہے پھر یہ گروہ 2017 میں القائدہ سے الگ ہو گیا اور اپنی تمام تر توجہ شام میں اقتدار کی تبدیلی پر مرکوز کر لی اور امریکی اہداف کے حصول میں معاون بن گئے۔ خیال ہے کہ دوران گرفتاری جیل میں ہی الجولانی کے خیالات میں یہ تبدیلی آئی۔ عین ممکن ہے سوچ میں یہ بات درست ہو مگر سیکولر ذہن رکھنے والے شامیوں کویقین ہے کہ شدت پسندی اِس گروہ کے ذہن میں ہنوز راسخ ہے اورچاہے اِس گروپ نے فی الحال وزیرِ اعظم کو اُن کے عہدے پر فائز رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن خونریزی کاخطرہ موجودہے۔ ایک بات جو بہت ہی حیران کُن ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی شدت پسند گروہ تشکیل پاتا ہے اُس کی توجہ مسلم مملکتوں کو تاراج کرنے پر کیوں ہوتی ہے؟اِس سوال کا جواب مسلم رہنمائوں کوضرور حاصل کرناچاہیے اگر درست جواب حاصل ہو گیا تو ممکن ہے مستقبل میں مزیدمسلم ممالک تباہی سے بچ جائیں یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کا مسلک الگ الگ تھا لیکن اسرائیل نے کسی قسم کی تفریق کیے بغیر مسلمان جان کر ماردیا۔
اسدخاندان روس اور ایران کابااعتماد دوست رہا ہے ۔روس کا جو واحد نیول بیس بیرونِ ملک ہے وہ بحیرہ روم کے ساحل پر شام میں طرطوس کی بندرگاہ پر ہے جبکہ لبنان کی حزب اللہ کوایران ہتھیاروغیرہ براستہ شام ہی پہنچاتارہا ہے مگر روس اِس وقت یوکرین جنگ میں مصروف ہے جبکہ ایران معاشی وجوہری حوالے سے مسائل کا شکار ہے۔ اسی بناپر دونوں ہی اپنے اتحادی کوکمک نہیں پہنچاسکے اور بشارالاسد کے چوبیس سالہ اقتدار کا سورج پُراسرار حالات میں غروب ہو گیا جس کے بعد خطے میں اسرائیل کو للکارنے والا کوئی ملک نہیں رہا ۔اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہونے مقابلہ کاخطرہ ختم ہوتے ہی شام سے 1974 میںطے شدہ جنگ بندی معاہدے سے دستبرداری کااعلان کرتے ہوئے حملے تیز کردیے ہیں اور شام کے خلاف فضائی کے ساتھ زمینی کاروائی بھی شروع کردی ہے۔ اُس نے دفاعی اعتبارسے اہم ترین گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیاہے جس سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ حالات بنانے میں پسِ پردہ کوششیں ہوئی ہیں تاکہ کسی خون خرابے کے بغیر ہی نہ صرف بشارالاسد اقتدار سے الگ ہو جائیں بلکہ عسکری طاقت بھی تتربتر ہوجائے وگرنہ ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ چودہ برس سے اپوزیشن کا راستہ روکنے والی طاقتور سرکاری فوج بیرونی حملے کا مقابلہ کیے بغیر ہی ہتھیارڈال کربھاگ جائے۔
شام میں اپوزیشن کی پیش رفت کئی حوالوں سے غیر متوقع ہے گزشتہ ہفتے جب شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضے ہوا جو دفاعی حوالے سے شامی حکومت کااہم ترین شہر ہے کیونکہ یہاں فوج کا آرٹلری سنٹرہے 2016 میں جب اِس شہر پر اپوزیشن نے قبضہ کیا تو چند ہی ہفتوں میں حکومت نے روس اور ایران کے عسکری تعاون سے واگزار کر الیا لیکن حالیہ قبضے کے دوران حکومت نے شہر واگزار کرانے میں دلچسپی لینے اورصفیں درست کرنے کی بجائے ایسی خاموشی اختیار کر لی جس سے شکست تسلیم کرنے کاتاثر ملا جس سے اپوزیشن کاحوصلہ بڑھا اور ملک کے چوتھے بڑے شہر حمہ کی طرف تیز رفتار پیش قدمی شروع کر دی یہ شہر اپوزیشن کا مرکز تصورکیا جاتا ہے یہاں حافظ الا سد کے دور میں بدترین قتلِ عام بھی کرایا گیا اور ملک سے بڑے پیمانے پر ہجرت شروع ہوئی ۔
امریکہ اور اسرائیل دونوں اسدخاندان کے مخالف ہیں امریکی ناپسندیدگی کی وجہ روس کی طرف جھکائو رکھنا ہے جبکہ اسرائیلی خفگی لبنان میں تشکیل پانے والی حزب اللہ کی حمایت کرناہے عرب بہار کے نتیجے میں جب عوامی بیداری ہوئی اور لوگ بادشاہت کی بجائے جمہوریت کی خواہش کرنے لگے تو روس اور ایران نے شامی حکومت کی بہت مدد کی جس کی بدولت بشارالاسد کااقتدار برقرار رہا مگر اب ملک چھوڑنے اور بیرونی حملوں کے باوجود روس محض اِتنا کر سکا کہ شامی مسلہ پرغورکے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا ہے شایداِس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اسرائیل نے شامی بحریہ کے مرکزکو نشانہ بنایاہے اہم ترین محلِ وقوع کی وجہ سے شام پر امریکہ اور اسرائیل کی نظرتوعرصے سے تھی اب جاکر اپوزیشن کے تعاون سے انھوں نے تو مقصدحاصل کرلیاہے اور اہم ترین اتحادی کھونے سے روس اور ایران کوبدترین ہزیمت ہوئی ہے
مگر ایک سوال بہت غور طلب ہے کہ الجولانی جس پر امریکہ نے دس لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔ اُسے اقتدار دلانے میں دلچسپی اور شامی ٹھکانوں پرامریکی بمباری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسرائیلی اور امریکی فضایہ دونوںنے شام کے دفاعی مراکز پر تابڑ توڑ حملے شروع کر رکھے ہیں ۔اِ س دوران اپوزیشن بھی استعمال ہوئی مگر بشارالاسدکی طرف سے اقتدارسے علیحدگی کے بعدمزید حملوں کاکوئی جواز نہیں رہا۔ ایک ہی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے کہ شام کی رہی سہی دفاعی قوت ختم کرنا مقصودہے تاکہ مستقبل میں اِس ملک سے اسرائیل کے خلاف کسی نوعیت کی کارروائی کا کوئی امکان تک نہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔