... loading ...
دریاکنارے/ لقمان اسد
پرانے زمانے کاواقعہ ہے کہ کسی ملک کابادشاہ کَشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔بادشاہ کے چندوزیر کچھ درباری اور کچھ غلام بھی ساتھ تھے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا اس لیے وہ بہت خوفزدہ تھا اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزر رہا تھااور بادشاہ اسے سختی سے باربارمنع کررہاتھا لیکن غلام پر منع کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ کا بالکل اثر نہ ہورہاتھا۔کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے فوراً اجازت دے دی اور دانا شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔غلاموں نے حکم کی تعمیل کی اور رونے والے غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک دیا۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو دانا شخص نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال لاؤاوردوبارہ کشتی میں سوار کرلو چنانچہ غلاموں نے اس کے سر کے بال پکڑ کر کشتی میں گھسیٹ لیا۔ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا بالکل خاموش اور پر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟ دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو چکی ہے اس لیے یہ خاموش ہو گیاہے۔ہمارے حکمران طبقہ کی روش بھی یہی ہے۔
وطنِ عزیز کوقیام عمل میں آئے پون صدی کاعرصہ گزر چکاہے لیکن اس تمام عرصہ میں اہم عوامی مسائل حکمرانوں کی ترجیح کبھی نہیں رہے۔ وہ مہنگائی اوربے روزگاری کوکوئی بڑامسئلہ تصور نہیں کرتے۔موجودہ ملکی صورتحال کاغیرجانبدارنہ تجزیہ کیاجائے تویہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس وقت عام طبقہ بری طرح مہنگائی اور بیروزگاری کے آسیب کاشکارہے۔غریب لوگ آئے دن بھوک اوربیروزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کرنے پہ مجبورہیں مگرہمارے حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔معاشی اور سیاسی طور پہ ملک شدید بحرانوں میں گھرا ہوا ہے لیکن انھیں کوئی غم نہیں کیونکہ ان کی ذاتی زندگی آسائشوں سے مالا مال ہے اور انہیں کبھی ان تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں رہا جو عوام کو درپیش ہیں۔ مہنگائی کی شرح 47.23 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔عالمی بینک کی جانب سے پاکستانی معیشت سے متعلق اکنامک ڈیولپمنٹ آؤٹ لُک اینڈ رِسک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو تاحال سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مزید 39 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں ۔غربت بڑھنے کی وجہ سیلاب کی تباہی، مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر ایک ماہ کی درآمد سے بھی کم ہیں۔ پاکستان میں قرضے معیشت کا 74 فیصد ہیں جوکہ پاکستان کے ایف آر ڈی ایل قانون کے تحت قرضے معیشت کا 60 فیصد ہونے چاہئیں۔رسک آؤٹ لُک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مالیاتی خسارہ 6.7 فیصد تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح محض 0.4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں مالی سال پٹرولیم مصنوعات 55 فیصد اور بجلی 47 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔ مالی سال 2025ء تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، مہنگائی، ادائیگیوں کا بوجھ بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ رپورٹ میں مالی سال 2024ء اور 2025ء تک ادائیگیوں کا بوجھ 29 ارب ڈالر سالانہ پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ 2025ء تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 2.2 فیصد تک پہنچ جائے گا۔آئی ایم ایف سمیت چینی کمرشل بینکوں کا قرض اوربانڈز کی ادائیگیاں کرنا بھی لازم ہوں گی۔ گروتھ ریٹ اورمہنگائی زیادہ رہنے کے باعث خطِ غربت میں کمی نہیں ہو سکے گی۔پاکستان کی حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) پر مبنی ہفتہ وار (مختصر مدت) افراط زر گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں گزشتہ ہفتے کے دوران غیر معمولی 47.23 فیصد تک بڑھ گئی۔ملک میں ایس پی آئی پچھلے سال اگست سے مسلسل بڑھ رہا ہے اور زیادہ تر 40 فیصد سے اوپر رہتا ہے۔ گزشتہ سال مہنگائی کی شرح 18 اگست کو 42.31 فیصد، یکم ستمبر کو 45.5 فیصد تھی اور اس سال 22 مارچ کو 46.65 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ہفتہ وار بنیادوں پر اضافہ بنیادی طور پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔جس کے نتیجے میں ہفتہ وار بنیادوں پر قلیل مدتی افراط زر کی شرح میں 0.51 فیصد اضافہ ہوا۔ جس میں اشیائے خورونوش بالخصوص آلو، چائے، روٹی، چکن، ایل پی جی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی، پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، سیلز ٹیکس میں اضافہ اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہے۔معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ اونچی قیمتوں کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سپلائی کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ نقل و حمل کی لاگت بھی شامل ہے جب کہ حکومت کی جانب سے صرف مارکیٹ میں مہنگائی کو کم کرنے پر توجہ دینے کے اب تک مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے محصولات بڑھانے کے لیے ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ، سبسڈی واپس لینے، مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ اور زیادہ ٹیکس لگانے جیسے سخت اقدامات کر رہی ہے۔یہ حکومتی اقدامات عام آدمی پر زندگی کی سانسیں مزید تنگ کردیں گے۔درحقیقت ہمارے حکمران طبقہ کو اس آزادی کی نعمت کی کوئی قدر نہیں جوہم سب کے آباؤ اجداد نے بے دریغ قربانیوں اوراپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے حاصل کی۔اگر انہیں یعنی ہمارے حکمرانوں کو آزادی کے حصول کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کا احساس ہوتا تو آج پاکستان دنیا کے نقشے پر ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ایک مضبوط معاشی قوت کے طور پر بھی ابھر چکا ہوتا اور ہم ایک ایک کوڑی کے لیے دوسرے ممالک اور آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور نہ ہوتے۔