وجود

... loading ...

وجود

شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات

بدھ 11 دسمبر 2024 شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات

میری بات/روہیل اکبر

شام میں انقلاب کے بعد حالات پر امن ہوگئے۔ 24سال سے اقتدار پر قابض بشارالاسد روس بھاگ گئے ۔شام میں کیا ہوا کیسے ہوا اور کیوں ہوا اس پر مختلف لوگوں کی مختلف باتیں ہیں اور ہر فرد اپنے اپنے نظریے کے مطابق اس کے حق اور خلاف دلیلیں دے رہا ہے مگر ان سب باتوں سے ہٹ کر شام اور پاکستان کے حالات میں بہت سی قدریں مشترک ہیں ۔وہاں بھی ظلم ،زیادتی اور کرپشن اپنے عروج پر تھی اور یہاں بھی اپنے عروج پر ہے۔ وہاں کی جیلیں بے گناہ ،مظلوموں اور معصوم بچوں سے بھری پڑی تھیں اور یہاں بھی ہماری جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹنے اور باغیوں کی فتح کے بعد شام کی جیلوں سے آزاد ہونے والے قیدیوں کی خوفناک داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ جیلوں سے آزاد کیے جانے والے ہزاروں افراد اپنی قید کے دنوں کی داستانیں سنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ایک قیدی نے بتایا کہ قید میں میرا کوئی نام نہیں تھا، بس ایک نمبر تھا مجھے بشار حکومت نے اٹھا کر قید میں ڈال دیا اور میرے گھر والے سمجھتے رہے کہ میں مر گیا ۔میرے ساتھ بہت سے افراد کو بھی ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر جیل میں رکھا گیا جنہوں نے کئی سال جیل میں گزار دئیے ۔آزاد ہونے والے کچھ اور افراد نے بتایا کہ انہیںاگر رہائی نہ ملتی تو پھر کچھ ہی دیر بعدپھانسی دی جانی تھی ۔شام کی جیل میں قید ایک اور قیدی علی حسن کو 39 سال بعد جیل سے آزادی ملی۔ علی حسن کو 1986میں شامی فوجیوں نے شمالی لبنان میں ایک چیک پوسٹ سے گرفتار کیا تھا، ان کی عمر اس وقت 18 سال تھی اور وہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے ۔گرفتاری کے بعد سے ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ سابق شامی صدر بشارالاسد کے انسانی مذبح خانے سے ایک چھوٹے بچے کوبھی بازیاب کرایا گیا جس جیل میں یہ بچہ موجود تھا۔ یہ بشار کی ایک بدنام زمانہ جیل کہلاتی ہے ۔بچے کے انسانی مذبح خانے سے باہر نکلنے کی افسوسناک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔ شام کی جیل سے آزاد ہونے والی خواتین کے الفاظ بھی سوشل میڈیا صارفین کو حیرت میں مبتلا کررہے ہیں ۔میں یہ ویڈیو سن رہا تھا تو پشاور کے اس بچے کی ویڈیو بھی میری نظروں کے سامنے چلنا شروع ہوگئی جو بتا رہا تھا کہ جب میں قید سے رہائی کے بعد گھر پہنچا تو ماں خوشی برداشت نہ کرسکی اور فوت ہوگئی کیونکہ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں مرچکا ہوں۔
شام میں 2000 کی دہائی کے دوران شام میں اغوا، من مانی حراست اور شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے جیسے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیاتھا شامی جیلوں کو صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے بھردیا گیا شام کے جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے اراکین کو عام شہریوں کو طویل عرصے سے ماورائے عدالت کارروائیاں کرنے کے لیے وسیع مراعات حاصل تھے اور انھیں مجرمانہ جرائم سے استثنیٰ حاصل تھا ۔2008 میں بشارالاسد نے اس استثنیٰ کو سیکورٹی فورسز کے دوسرے محکموں تک بڑھا دیا۔ جس کے بعدوہاں کی خفیہ پولیس نے سیاسی مخالفین اور حکومت کے خلاف بولنے والوں پرنہ صرف تشدد کیابلکہ کئی کئی سال قید میں رکھا اور پھرقتل کردیا گیا۔ لبنان پر شامی قبضے کے بعد سے تقریباً 600 لبنانی سیاسی قیدیوں کو سرکاری جیلوں میں ایک طویل عرصہ رکھا گیا کچھ کوتو 30 سال سے بھی زائد عرصے تک رکھا گیا وہاں کی حکومت نے سیاسی مخالفین کے خلاف سفری پابندیوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزاد این جی اوز کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔2010 میں شام نے یونیورسٹیوں میں چہرے کے نقاب پر پابندی لگا دی تھی۔ شام میں قیدیوں کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک کی حوصلہ افزائی کی گئی جس طرح ہمارے ہاں سیاسی قیدیوں پر غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل سمیت اور بہت سے سیاسی قیدی اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا درد ناک قصہ بھی بتاچکے ہیں ۔2023 میں کینیڈا اور نیدرلینڈز نے شام کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) میں مقدمہ دائر کیا جس میں پر تشدد کاروائیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ۔مشترکہ درخواست میں شامی حکومت پر شامی آبادی کو اجتماعی طور پر سزا دینے کی حکمت عملی کے طور پر “ناقابل تصور جسمانی اور ذہنی درد اور تکلیف” دینے کا الزام لگایا گیا ہے لیکن روس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں بشار الاسد کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کوششوں کو ویٹو کر دیا۔ اسی طرح2000 کی دہائی کے دوران بشار الاسد کا معاشی لبرلائزیشن پروگرام بدعنوانی اور اقربا پروری کی علامت بن گیا کیونکہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے اسکے وفادار تھے جنہوں نے نجکاری کے زیادہ تر شعبوں اور کاروباری اثاثوں پر قبضہ کر لیا جنہوںنے حکومت کو شامی عوام کی اکثریت سے الگ کر دیا جسکے بعد محنت کش طبقے نے بڑے پیمانے پر آنے والی اس معاشی تبدیلی سے نفرت کرنا شروع کردی۔ بدعنوانی کا تسلسل، علویوں کا فرقہ وارانہ تعصب، اقربا پروری اور وسیع پیمانے پر رشوت خوری جو کہ پارٹی، بیوروکریسی اور فوج میں موجود تھی، عوام کے غصے کا باعث بنی جس کے نتیجے میں 2011 کا شامی انقلاب برپا ہوا جو طویل عرصے سے حکومت کی استحصالی پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے تھے ۔شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں شام میں جنگی معیشت پروان چڑھی ۔اس کے نتیجہ میں ریاست کے بڑھتے ہوئے کردار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بشار الاسد اور اس کی اہلیہ اسماء نے شام کے اقتصادی اثاثوں کو اپنے وفاداروں میں ضم کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاکہ پرانے کاروباری اشرافیہ کو بے گھر کر کے معیشت پر ان کی اجارہ داری قائم کی جائے ۔بشارالاسد کا بھائی مہر الاسد بھی شام کی ریاستی سرپرستی میں چلنے والی کیپٹاگون ڈرگ انڈسٹری کی کارروائیوں کی نگرانی کر کے اور جنگ کے زیادہ تر سامان پر قبضہ کر کے دولت مند ہو گیا ہے۔ حکمران جوڑے کے پاس شام کے جہاز رانی، رئیل اسٹیٹ، ٹیلی کمیونیکیشن اور بینکنگ کے شعبوں کا بڑا حصہ تھا۔وہاں پر بدعنوانی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ شام کو عرب دنیا کا سب سے کرپٹ ملک سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے سال تک بدعنوانی انڈیکس میں شام عالمی سطح پر دوسرے نمبر پرتھااور پاکستان بھی بدعنوانی میں بہت آگے ہمیں بنگلہ دیش اور شام کے حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی انا اور ضد کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے اقربا پروری ،کرپشن اور چور بازاری جیسی لعنت کو ختم کرکے غریب عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھانے کے لیے مل جل کر کوششیں کرنی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر کسی کو کہیں بھاگنے اور چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت

ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں! وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں!

فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر

شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات وجود بدھ 11 دسمبر 2024
شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات

یہ رہبانیت ہے! وجود بدھ 11 دسمبر 2024
یہ رہبانیت ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر