وجود

... loading ...

وجود

پہنچی وہیں پہ خاک ، جہاں کا خمیر تھا

بدھ 11 دسمبر 2024 پہنچی وہیں پہ خاک ، جہاں کا خمیر تھا

ریاض احمدچودھری

محترم لیاقت بلوچ، نائب امیر جماعت اسلامی، پاکستان نے کہا ہے کہ شام میں اسد خاندان کے 54 سالہ اقتدار کا ہی خاتمہ نہیں ہوا عالمی اسٹیبلشمنٹ اور استعماری قوتوں کا آلہ کار غاصب خاندان اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ دنیا بھر کے حکمران شامی اسد خاندان کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ پاکستان کی قومی سیاست کو بھی خاندانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے سے آزاد کرانا پاکستان کی سلامتی، وحدت اور استحکام کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔ شام میں غاصب حکمران خاندان سے اقتدار طاقت کے ذریعے چھین لیا گیا۔اقتدار بچانے کے لیے پْرامن انسانوں کے قتلِ عام کا فلسفہ خود بْرے انجام سے دوچار ہوا۔ شام میں اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے والوں کو ماضی سے سبق اور شامی عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا جمہوری حق تسلیم کرلیا جائے گا۔
شام کو نئی جنگ اور عالمی استعماری قوتوں کی کشمکش کی آماجگاہ نہ بننے دیا جائے۔ عوام کا آزادانہ جمہوری فیصلہ ہی شام کی طاقت بنے گا۔سعودی عرب، ترکی اور ایران مشترکہ کوششوں سے شام کو مستحکم کرنے اور شام کی اکثریتی عوام کو اعتماد دینے کا کردار ادا کریں۔ پاکستان اندرونی سیاسی، اقتصادی استحکام کے ذریعے ہی عالمِ اسلام اور عالمی محاذ پر مضبوط کردار ادا کرسکتا ہے۔صدر بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے شامی باغیوں کی تحریک حیات تحریر الشام نے 27اکتوبر کو جس بغاوت کا آغاز کیا تھا ،وہ 8دسمبر کو دارالحکومت دمشق پر قبضے سے مکمل فتح پر منتج ہوئی۔جس کے بعد صدر بشار الاسد فرار ہوکر روس پہنچ گئے،جس نے انھیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دی ہے۔اسرائیل نے موقع سے فائدہ اٹھاکر نہ صرف جولان میں شام کے علاقے پر قبضہ کرلیا بلکہ دمشق پر فضائی حملہ کرکے اسلحہ کے ذخائر تباہ کردئے۔امریکہ نے اس کی پوری مدد کی اور اس کی فضائیہ نے بھی وسطی شام میں 57تابڑتوڑ فضائی حملے کرکے شامی فوج کی قوت مزاحمت کو کچل دیا۔اس طرح باغی تحریک کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے ،جن کا اصل نام احمد الشرع ہیاور جو ماضی میں القاعدہ کے ساتھ وابستہ رہے ہیں ،دمشق پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور عہد کیا ہے کہ اس عظیم فتح کے بعد وہ شام کی نئی تاریخ رقم کریں گے۔
بشار الاسد کے وزیراعظم کو باغیوں نے برقرار رکھا ہے جو فی الحال ملک کا نظم ونسق چلائیں گے۔بشار الاسد کے فرار کے بعد شامی فوج نے اپنی وردیاں اتار پھینکیں اور شہریوں نے باغیوں کے ساتھ مل کر فتح کا جشن منایا۔صدارتی محل،سرکاری عمارات اور بڑے شاپنگ سینٹروں میں لوٹ مار کے مناظر دیکھے گئے۔نئے رہنما ابو محمد الجولانی نے جنگجوئوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سرکاری اداروں پر قبضہ نہ کریں جبکہ سابق صدر کے حامی ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کے ہزاروں ارکان شام سے چلے گئے ہیں۔شام میں الاسد خاندان 50 سال سے زائد عرصے تک برسراقتدار رہا، بشار الاسد کو اقتدار اپنے طاقتور فوجی والد سے وراثت میں ملا جو 1971 ئ سے لے کر جون 2000 ء میں اپنی موت تک برسر اقتدار رہے۔ جولائی 2000ء ، طب کے سابق طالبعلم بشار الاسد شام کے صدر، بعث پارٹی کے سربراہ اور فوج کے کمانڈر اِن چیف بن گئے۔11 سال بعد عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے تو بشار الاسد نے سخت کریک ڈاون کیا۔جیسے جیسے مزید شامی مظاہروں میں شامل ہوتے گئے، ویسے ویسے مخالفین کی اکثریت کو دہشت گرد قرار دینے والے صدر بشار الاسد طاقت کا استعمال بڑھاتے گئے جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔اس کے بعد کے برسوں میں لاکھوں شامی جاں بحق ہوئے اور بشار الاسد پر شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عاید کیا گیا۔جنگ کے سائے میں انہوں نے حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں انتخابات کرائے جنہیں بہت سے لوگوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔جنگ کبھی نہ جیتنے کے باوجود بشار الاسد اپنے پیروکاروں بشمول اقلیتی علوی سیاسی جماعت کی حمایت سے اقتدار پر محدود طور پر قائم رہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام گیئر پیڈرسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ شام کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ ہے – ایک ایسی قوم جس نے تقریباً 14 سال کے انتھک مصائب اور ناقابل بیان نقصان کو برداشت کیا ہے۔ اس سیاہ باب نے گہرے داغ چھوڑے ہیں، لیکن آج ہم محتاط امید کے ساتھ ایک نئے آغاز کے منتظر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال شامیوں کی واضح خواہش کی نشاندہی کرتی ہے کہ مستحکم اور جامع عبوری انتظامات کیے جائیں۔ تمام شامی بات چیت، اتحاد اور بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے احترام کو ترجیح دیں۔ ہم ایک مستحکم اور جامع مستقبل کی جانب سفر میں شامی عوام کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایڈ چیف ٹام فلیچر نے کہا کہ شام میں واقعات قابل ذکر رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ کے تنازع نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا ہے۔ اب بہت سے لوگ خطرے میں ہیں۔ ہم ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ وائٹ ہاؤس سے اس حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ، صدر بائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں ہونے والے غیر معمولی واقعات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بشار الاسد اپنے ملک سے فرار ہو گیا۔ اس کا محافظ ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں روس تھا۔ روس اور ایران اس وقت کمزور حالت میں ہیں اور اب وہ اس کی (بشار الاسد) کی حفاظت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے کہا ہے کہ ظالم اسد کی آمریت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ خطے میں یہ تاریخی تبدیلی مواقع فراہم کرتی ہے لیکن خطرات سے خالی نہیں ہے۔ یورپ قومی اتحاد کے تحفظ اور تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی شامی ریاست کی تعمیر نو میں مدد کے لیے تیار ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت

ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں! وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں!

فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر

شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات وجود بدھ 11 دسمبر 2024
شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات

یہ رہبانیت ہے! وجود بدھ 11 دسمبر 2024
یہ رہبانیت ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر