... loading ...
ریاض احمدچودھری
مسلمانوں پر ہندو بلوائیوں کی طرف سے بلا اشتعال حملے انڈیا میں ‘معمول’ بن گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مذمت نہیں کی جاتی۔گزشتہ ماہ ایک اندوہناک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک خوفزدہ مسلمان بچی اپنے باپ سے چمٹی ہوئی تھی جن کو ہندو انتہا پسند گھیر کر ان پر تشدد کر رہے تھے۔اس کے چند روز بعد ہی مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ایک چوڑیاں فروخت کرنے والے مسلمان کی ویڈیو سامنے آ گئی جس کو ہندوؤں کا ایک ہجوم مکے، گھونسے اور لاتیں مار رہا تھا۔حملہ آور تسلیم علی نامی اس شخص کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ وہ ہندوؤں کی آبادیوں سے دور رہے۔پولیس میں درج کرائی گئی اپنی درخواست میں تسلیم علی نے کہا کہ ہندوؤں کے علاقے میں چوڑیاں فروخت کرنے پر ان کو پانچ چھ افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، مذہبی منافرت سے بھر پور گالیاں دیں، ان کا فون، پیسے اور ذاتی شناختی دستاویز چھین لیں۔لیکن حیران کن طور پر تسلیم علی کو اگلے دن گرفتار کر لیا گیا جب ان پر حملہ آوروں میں شامل ایک شخص کی تیرہ سالہ بچی نے تسلیم علی پر ان سے زیادتی کرنے کا الزام لگایا۔تسلیم علی کے خاندان والوں اور ہمسایوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ بچوں کا باپ اس طرح کی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔مارچ کے مہینے میں ایک چودہ سالہ مسلمان لڑکا جو پانی پینے کے لیے ایک ہندؤ مندر میں گیا تھا اس کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا۔جون میں دارالحکومت دہلی میں ایک مسلمان پھل فروش کو ہندوؤں کے علاقے میں پھل بیچنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔تین سال سے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے دستاویزی ثبوت جمع کرنے والے آزاد صحافی علی شان جعفری کا کہنا ہے ‘تشدد کی انتہا کر دی گئی ہے، یہ ہر جگہ کیا جاتا ہے اور بہت عام ہو گیا اور سب سے بڑھ کر اس کو اب برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔’انھوں نے کہا کہ انھیں ہر روز تین سے چار ایسی ویڈیو موصول ہوتی ہیں لیکن وہ صرف ایک یا دو ہی کی تصدیق کر پاتے ہیں اور پھر وہ اس کو سوشل میڈیا پر جاری کر دیتے ہیں۔انڈین معاشرے میں مذہبی تقسیم کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن جب سے انتہا پسند ہندو جماعت سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی حکومت میں آئے ہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد مزید بہت بڑھ گیا ہے۔
دہلی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر تنویر اعجاز کا کہنا ہے ‘مذہبی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ اقتدار میں آنے والوں کی حکمت عملی اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ساتھ بڑھتا ہے۔’ مذہبی تقسیم بڑھی ہے اور یہ ابھی مذہبی اور نسل پرستانہ قومیت کے جذبے سے اور زیادہ شدید ہو گئی ہے۔
بھارت میں تاحال مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ وہاں کئی شہروں میں مسلمانوں کو تنگ کرکے ان پر تشدد کیا جاتا ہے جس کی ویڈیوز اکثر سوشل میڈیا پر منظر عام پر آتی ہیں۔ مودی سرکار میں ایسے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرح کی ایک اور پریشان کن ویڈیو بھارت سے سامنے آئی ہے جس میں چند نوجوانوں کو طالب علم پر تشدد کرتے دکھایا گیا ہے۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک نوجوان تین مسلمان بچوں کو جوتے سے مارہا ہے اور انہیں اللہ کا نام لینے سے روکتا ہے۔ اس کے بجائے اپنے مذہبی نعرے زبردستی بلوانے پر مجبور کرتا ہے۔یہ واقعہ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے رتلام ضلع میں پیش آیا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ کیپ پہنا ایک نوجوان چپلوں سے بچوں کو مار کر گالم گلوچ کر رہا ہے۔ واقعے کی ویڈیو ایک شخص نے کیمرے میں ریکارڈ کر لی۔ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص اس وقت مزید پرتشدد ہو گیا جب ایک لڑکے نے مار کھاتے وقت اللہ کہا۔ جس کے بعد اس نے انہیں مزید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد خوفزدہ بچوں نے ہندو مذہبی نعرے لگانا شروع کر دئیے۔ پولیس کے مطابق واقعے کے وقت بچے ضلع رتلام کے امرتساگر تالاب میں زیر تعمیر تفریحی پارک کے پاس بیٹھے تھے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس نے معاملے کا نوٹس لے لیا۔
نریندر مودی کے پہلے دورے اقتدار میں مسلمانوں پر گاؤ رکشکوں (گائے کی حفاظت کرنے والے) کی طرف سے گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں پر یا گائے سمگل کرنے کے الزامات پر بہت سے حملے ہوئے تھے۔نریندر مودی نے ان حملوں پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔بی جے پی کے رہنما پرکاش جوادیکر نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت اس طرح لوگوں کو قتل کرنے کو برا سمجھتی ہے لیکن قانون کا نفاذ ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ 2019 میں فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائیٹ نے انڈیا میں نفرت پر مبنی جرائم کے بارے میں بتایا تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں ایسے جرائم کا نشانہ بننے والے 90 فیصد افراد مسلمان تھے۔ اور ایک وزیر کی طرف سے ایک مسلمان کو مارنے کے مجرم ٹھہرائے جانے والے آٹھ ہندوؤں کو ہار پہنائے جانے جیسے واقعات کے بعد الزامات لگتے ہیں کہ حملہ آور بی جے پی کی سپورٹ کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔
کانگریس پارٹی کی ایک رکن حسیبہ امین نے کہا کہ ‘ایسے واقعات آج ہمارے ملک میں صرف اور صرف ان غنڈوں کو ملنے والے تحفظ کی وجہ سے اتنے عام ہو گئے ہیں۔’ناقدین کا کہنا ہے کہ 2019 میں نریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمان مخالف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔کئی بار تشدد صرف جسمانی نھیں ہوتا بلکہ یہ اقلیتی برادری کو انتہائی برا پیش کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مثلاً گزشتہ برس جب انڈیا میں کووڈ پھیل رہا تھا تو مودی حکومت کے وزرا اور پارٹی کے ارکان سمیت ہندو رہنماؤں نے دلی میں ایک مذہبی اجتماع میں شریک ہونے والے مسلمانوں پر ‘کورونا جہاد’ کا الزام لگایا تھا۔