وجود

... loading ...

وجود

جینا بھی عذاب

منگل 10 دسمبر 2024 جینا بھی عذاب

ایم سرورصدیقی

 

ملک میں اشیائے خورونوش اور فروٹ کے نرخوںمیں مسلسل اضافہ دیکھ کرلگتاہے پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیزنہیں ہے۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنراور افسروںکی فوج ظفرموج کے باوجود عوام کا کوئی پرسان ِ حال نہیں۔آخرانتظامیہ کسی مرض کی دواہے ۔ کوئی ہے اس سوال کا جواب ۔ کسی کے پاس؟سیاسی افراتفری، معیشت کے عدم استحکام اور خوفناک مہنگائی کے ماحول میںتیرہ جماعتی حکومتی اتحادپی ڈی ایم سرکار نے عوام کی باں باں کروادی ہے جب سے سلیب سسٹم کے تحت یوٹیلیٹی بلز کااجراء ہورہا ہے لوگوںکی چیخیں نکل گئی ہیں ،صرف ایک یونٹ کے تفاوت سے ہزاروں کافرق پڑ جاتاہے۔ عام آدمی بالخصوص عورتیں جھولیاں اٹھا اٹھاکر یہ سلیب بنانے والوںکو بددعائیں دیتی پھرتی ہیں ۔روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مہنگائی الگ ستم ڈھارہی ہے یعنی اس حکومت نے عوام کا جینا عذاب بناڈالاہے۔ اس کے علاوہ خدشہ ہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورانہ ہوسکا تو پھر عوام کی شامت آجائے گی۔پھربجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے عوام پر سائنٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی اسکیمیں تیار کی جائیں گی۔
ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا ۔انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے۔ ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو،منی بجٹ یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔حسب ِ معمول کہا جاتاہے کہ سب اچھا ہے۔ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ اب معلوم نہیں یہ کون سے عوام ہیں، جن پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا ۔پاکستان کی ہر حکومت غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے نہ جانے کتنے وعدے اور ان گنت کرتی ہے پھر مافیا نت نئے بحران ارینج کرتے ہیں ۔کبھی آ ٹا کبھی چینی ،کبھی آلو کبھی پیاز اور کبھی ٹماٹر نہیں ملتی اوور لوگ پھر پاگلوںکی طرح خریداری کرتے ہیں جس سے چیزیں اور مہنگی ہو جاتی ہیں۔ ایک اور بات ہمیشہ سیاسی افراتفری کے ماحول یا کمزور حکومتوں کے دور میں قیامت خیز مہنگائی ہو جاتی ہے۔ پھر عام آدمی اس بوجھ تلے دب کرچوں بھی نہیں کر سکتا ۔رہی سہی کثر منی بجٹ میںٹیکسزلگاکر عوام کادھڑن تختہ کردیا جاتاہے جس پر حکومتی ارکان بڑی ڈھٹائی سے سینہ تان کر کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا۔ اب عام آدمی کیا کرے جس کی قسمت میں ساری زندگی سسکنا، کڑھنا اور کوسنا ہی مقدر ہے۔ حکمران ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کرکے اس تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتے ۔
حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے دورمیںہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں ۔خود وزیر ِ اعظم نے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ۔لیکن کہایہ جارہاہے کہ مہنگائی کی شرح پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ سردیوں کے باعث بجلی کے بل کم آنے لگے ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی حکومت لینا چاہتی ہے ۔ یہ تو عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق سے کم نہیں ۔یہ بات تو طے ہے کہ جب بھی آ ئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا جاتاہے ،اس سے بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوںنے عوام کو افراط زر اور معاشی زوال کے چنگل میں پھنسا دیا ہے۔ اشرافیہ اپنی مراعات پرکوئی کمپرو مائز نہیں کرتی۔ عوام سے ہر وقت قربانیوںکا تقاضا کیا جاتاہے، جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے۔ انہیں شتربے مہار آزادی مل گئی ہے۔ ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے ۔ وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں ۔مختلف حیلوں بہانوں سے عوام سے پیسے بٹورے جا تے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں۔ عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔
حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں ۔ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے جس طرح حکومت اپنے مخالفین کو کچلنے کے لئے بھرپور ریاستی وسائل استعمال کررہی ہے اسی طرح عام آدمی کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کرناہوںگے ۔روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی طفل تسلیاں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا ۔دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ کچھ بے رحم فیصلے بھی کرناپڑیں گے۔ عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ا صلاح ِ احوال کے لئے ایک مشورہ مفت دیاجارہاہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے کی اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز، ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت

ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں! وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
ہمارے حکمران عوامی مسائل سے بے خبرہیں!

فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر وجود جمعرات 12 دسمبر 2024
فوج کی موجودگی سے کشمیریوں کی تعلیم متاثر

شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات وجود بدھ 11 دسمبر 2024
شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات

یہ رہبانیت ہے! وجود بدھ 11 دسمبر 2024
یہ رہبانیت ہے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر