... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میںکسان یونینز اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی دہلی چلو تحریک 6 دسمبر سے دوبارہ شروع ہو گئی، “دہلی چلو مارچ” کسان مزدور مورچہ اور کسان یکجہتی مورچہ کے زیر اہتمام ہو رہا ہے۔ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مزاحمت کے بعد کسانوں نے ٹریکٹر کی بجائے چھوٹے جتھوں میں دہلی پیدل جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسانوں کے “دہلی چلو” مارچ کے پیش نظر دارالحکومت کی سرحدوں اور اس سے متصل پورے علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔
بھارت میں کسانوں کے ‘دہلی چلو’ مارچ پر پولیس ٹوٹ پڑی۔ جھڑپوں میں 8 کسان زخمی ہوگئے جبکہ آنسو گیس کے استعمال سے کئی کسانوں کی حالت خراب ہوگئی۔ پولیس نے کسانوں کو دہلی سے 2 سو کلو میٹر دور پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر شمبھو کے مقام پر روکنے کی کوشش کی جس کے باعث ہائی وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ کسانوں کی جانب سے حکومت سے قرض معافی کی ضمانت، کسانوں کی ریاستی مدد اور آمدن بڑھانے کا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ہریانہ کے سرحدی ضلع انبالہ میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔پولیس سے ہونے والی جھڑپوں کے بعد کسانوں نے دہلی کی جانب اپنا مارچ بھی روک دیا ہے۔
کسان رہنما سرون سنگھ پانڈھر کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کسانوں کے جائز مطالبات کو نظرانداز کر رہی ہے حالانکہ کسان گزشتہ 10 مہینوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، ہم نے احتجاج دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ہریانہ پولیس کو آگاہ کیا کہ ہمارا مارچ پرامن ہوگا۔ وزیر مملکت برائے ریلوے روینت سنگھ بٹّو اور ہریانہ کے وزیر زراعت نے کسانوں کو دہلی پیدل جانے کا اشارہ دیا، وقت آگیا ہے حکومت وعدوں کو پورا کرے، اگر دہلی جانے کی اجازت نہ ملی تو تصادم ہوگا۔خیال رہے کہ اس سے قبل فروری میں کسانوں کی دہلی جانے کی پہلی کوشش ہریانہ میں سکیورٹی فورسز کی سخت مزاحمت کا شکار ہوئی جس میں کئی کسان ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
بھارت میں “دہلی چلو مارچ” کسانوں کے اتحاد اور مودی سرکار کی زرعی پالیسی میں کی جانے والی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بنی ہوئی ہے، مودی سرکار کسان مارچ تحریک اور آزادی حق رائے کا گلا گھو نٹ کر اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ ہزاروں احتجاج کرنے والے بھارتی کسانوں کو سیکورٹی فورسز کے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نہنگ سکھوں کے تحفظ میں آ گئے ہیں۔سکھ کسان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ہریانہ پولیس نے شمبھو اور کھنوری میں پولیس کی رکاوٹوں کو توڑنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے نہتے عوام پر آنسو گیس کے گولے برسائے۔دوسری جانب بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی کسانوں کے مطالبات پر غور کرنے میں ناکامی پر مرکزی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔مودی سرکار کی جانب سے احتجاج کو مہرہ بنا کر بھارت کے سات اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولیات پر مکمل پابندی عائد کی گئی، اس اقدام کے خلاف پنجاب سے باہر بھی کسان یونینز نے احتجاج کو وسیع کرنے کی کال دے دی۔
کسانوں نے شمبھو سرحد پر پولسی کی جانب سے لگائے جانے والے بریکیڈس ہٹا دیئے تھے۔ہریانہ حکومت نے کسانوں کے احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے امبالہ ضلع کے 11 گاؤں میں9دسمبر تک موبائل انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات معطل کی ہیں۔ یہ پابندیاں امبالا کے لوہگڑھ، دادیانا، مانک پور، سلطان پور، ککرو گاؤں ، دیوی نگر، لہارس، کالومجرہ اور دیگر گاؤں میں لگائی گئی ہیں۔کسان اپنے مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطالبات میں ایم ایس پی پر قانونی گرینٹی، بجلی کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں،کسانوں کے قرض معاف کرنا، کسانون اور دیگر ملازمین کیلئے معاوضہ اور لکھیم پوری تشدد کے متاثرین کیلئے انصاف شامل ہیں۔ کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر شمبھو سرحد پر سیکورٹی سخت کی گئی ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ ہم پریشان ہیں، انتہائی پریشان ہیں، ہمارے بچے بھوک سے مر جائیں گے، اس سے بڑی پریشانی اور کیا ہوسکتی ہے۔ نئی زرعی اصلاحات کے تحت بڑی بڑی کارپوریشنز قیمتیں کم کردیں گی اور ان کا روزگار تباہ ہوجائے گا۔متعارف کروائے گئے قوانین کے تحت کسانوں کو اپنی فصل کم سے کم قیمت کی ضمانت دینے والی سرکاری تنظیموں کے بجائے اوپن مارکٹ بشمول سپرمارکیٹ چینز میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے گی۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی صنعت کو بڑی کمپنیاں قبضے میں لے لیں گی جو قیمتوں کو کم کرنے پر مجبور کریں گی۔سونی پت زرعی مارکیٹ تاجروں کی ایسوسی ایشن کے صدر پاون گوئل کے مطابق حکومت کچھ کمپنیوں خواہ وہ بھارتی ہوں ہو یا غیر ملکی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسانوں کو گمراہ کررہی ہے۔ اگر یہ قانون مستقبل میں جاری رہتا ہے تو کسان، مزدوروں تک محدود ہوجائیں گے اور صرف بڑی کمپنیوں کے ورکرز بن جائیں گے۔تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ یہ تبدیلیاں زراعت کے لیے ضروری ہیں جو اب تک بھارت کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔کسانوں کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ ان کی پیداوار کی کم از کم قیمت خرید کا جو سابقہ نظام تھا اسے برقرار رکھا جائے۔ کسان حکومت کی طرف سے ہر طرح کی یقین دہانی تحریری شکل میں دینے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔