... loading ...
جاوید محمود
آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی ؟ہم بھی کیا لوگ ہیں جو مستقبل کا نہیں سوچتے آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی دو اعشاریہ دو فیصد سالانہ کی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو اگلے 40برس میں یہ آبادی 25 کروڑ سے بڑھ کر ساڑھے 40کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ تصور کریں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور معاشی بحران میں دھنسا ملک۔ اگر اس کا حل تلاش نہ کیا گیا تو حالات کنٹرول سے باہر ہوں گے ۔پاکستان جو 1947میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 15 واں بڑا ملک تھا، 77 برس میں چھ گنا اضافے کے بعد اس وقت دنیا کا پانچواں بڑا گنجان ملک ہے۔ اور اگلے 40 برس میں چوتھا بڑا ملک بن جائے گا اور انڈونیشیا اور برازیل کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ یو اینڈ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن پاکستان کی سربراہ ڈینل بیکر نے ان تازہ اندازوں پر تبصرہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ جب پاکستان کی موجودہ آبادی کی روزگار تعلیم اور صحت کی ضروریات ہی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں تو جب ساڑھے 40 کروڑ آبادی ہو جائے گی تب کیا ہوگا؟ ڈینل بیکر کے اس سوال کی روشنی میں اگر پاکستان کے سماجی و اقتصادی ترقی کے اعشاریوں کا جائزہ لیا جائے تو آبادی میں بے تحاشا اضافے سے پیدا ہونے والے مسائل کا خیال ہی پریشان کر دینے کے لیے کافی ہے۔ مثلا اگر بیرونی امداد پر نگاہ ڈالی جائے تو پاکستان اس وقت اسرائیل اور مصر کے بعد امریکی امداد حاصل کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے جس میں فوجی امداد کے علاوہ سماجی ترقی کی مد میں امداد بھی شامل ہے۔ لیکن اگر دنیا کے 171 ممالک کے فوجی اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان فوجی اخراجات کے اعتبار سے دنیا کا 24 واں بڑا ملک ہے۔ اس کے باوجود زندگی کے لیے محفوظ 144 ممالک کی فہرست میں پاکستان 137ویں نمبر پر ہے جبکہ شرح خواندگی کے حساب سے 172ممالک کی فہرست میں 156ویں نمبر پر ہے۔ 166ممالک میں ایک عام آدمی کی اوسط عمر کسی بھی پاکستانی شہری کی اوسط زندگی سے زیادہ ہے۔ اگر روز مرہ اخراجات سیر و تفریح کی سہولیات معاشی ترقی ماحولیات بنیادی آزادیوں صحت انفراسٹرکچر جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کے شعبوں کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو 224 ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان معیار زندگی کے اعتبار سے 168ویں نمبر پر آتا ہے جبکہ انسانی ترقی کی اقوام متحدہ کی 179 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 139 ہے ۔ان مسائل کی بنیادی جڑ اداروں کا عدم استحکام مربوط حکمت عملی کی غیر موجودگی اور کرپشن ہے ۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان جس کا شمار پہلے ہی دنیا کے سب سے کم آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے وہاں کرپشن سے جو شعبے سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں سر فہرست سرکاری ملازمتی شعبہ ہے جس میں کرپشن کی شرح 40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس کے بعد عدلیہ اور ارکان پارلیمان ہیں جو بالترتیب 14فیصد کرپشن میں ملوث ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے ارکان اور پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن کی شرح بھی یکساں یعنی 12 ،12 فیصد اور میڈیا میں کرپشن کی شرح آٹھ فیصد ہے۔ ٹرانسپیرنسی کے سروے کے مطابق گزشتہ برس کم از کم 18 فیصد پاکستانی شہری اپنے مسائل حل کرانے کے لیے کسی نہ کسی سطح پر رشوت دینے پر مجبور ہوئے۔ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح کیا ہے؟ اس بارے میں کسی کے پاس سائنسی ریسرچ پر مبنی اعداد و شمار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں میں ترقی کا کتنا فرق ہے ،اس کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ ایک سرکردہ پاکستانی مصنف نے قبائلی علاقوں میں طالبانائزیشن کے موضوع پر اپنی کتاب میں اندازہ لگایا ہے کہ فاٹا میں ایک عام آدمی کی اوسط آمدنی صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں کی نسبت 30فیصد اور پاکستان کے ترقی یافتہ شہری علاقوں کی نسبت 50سے 60فیصد کم ہے اور فاٹا طالبان کا گڑھ بن چکا ہے ۔ آبادی میں اضافے کے ضمن میں ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان کی 40فیصد آبادی 15برس یا اس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کا اقتصادی تعلیمی اور روزگار مستقبل کیا ہے اور جب یہی آبادی اگلے 40برس میں دُگنی ہو جائے گی مگر معیار زندگی کے انڈیکٹرزجوں کے توں رہیں گے تو کیا ہوگا؟ یہ اگر ہم آج نہیں سوچیں گے تو پھر کب سوچیں گے ؟آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔