... loading ...
حمیداللہ بھٹی
فلسطینی علاقوں پرجاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری کو تیرہ ماہ سے زائدعرصہ ہوگیا ہیں مگر یکطرفہ بمباری میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اِس دوران قطراور مصر کی طرف سے ثالثی اور مصالحت کی کچھ کوششیں ہوئیں، جو اِس بناپربارآور ثابت نہ ہوسکیں کہ اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے کی حماس کی رضامندی کومحض جزوی طورپر توقبول کیا مگر زیادہ سنجیدگی نہ دکھائی کیونکہ اُسے امریکی پشت پناہی حاصل ہے جس کے نتیجے میں فلسطین کے ساتھ لبنان ،شام اور عراق تک حملوں کو وسعت دے رہاہے۔ دراصل اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے مکمل خاتمے تک جنگ بندی کی کوئی پیشکش قبول نہیں کرے گاجوسراسر ہٹ دھرمی اور طاقت کا اظہار ہے کیونکہ اسرائیل کواپنے دفاع کا حق حاصل ہے تو فلسطینیوں کوکیوں نہیں؟
مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ گزشتہ برس سات اکتوبر کے حماس حملوں کواسرائیل نے نعمت تصور کرتے ہوئے جغرافیائی حدودکواپنی پسند کے مطابق تبدیل کرنے کی دیرنیہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اسی لیے ثالثی اور مصالحت کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے رہااور مزیدزمینی حدودہتھیانے کے لیے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے ۔گزشتہ برس سات اکتوبر سے اسرائیل کے فلسطین پر حملوں کے دوران غزہ کی تعمیرات کھنڈرات بن چکیںاِس دوران کتنی اموات ہوئیں اور زخمیوں کی تعداد کیا ہے؟ اِس بارے درست اعدادوشمار کسی کے پاس نہیں کیونکہ بمباری کی زدوالے علاقوں تک ذرائع ابلاغ کی رسائی محدودہے ۔غزہ پر ہونے والے فضائی حملے جنگ ہرگز نہیں کیونکہ غزہ والوں کے پاس اپنے دفاع کے لیے فضائی ہتھیار نہیں بلکہ اُنھیں یک طرفہ بمباری کا سامنا ہے۔ اسی لیے اقوامِ عالم سمیت ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے انسانی حقوق کے اِدارے اسرائیلی حملوں کو نسل کشی کہتے ہیں۔ دنیا کا واحدملک امریکہ ہے جو اسرائیلی کاروائیوں کواُس کا دفاعی حق قرار دیتا ہے ،اب جبکہ حماس تمام قیدیوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کرچکی مگر اسرائیل کی بے نیازی سے لگتاہے کہ اُسے امن سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیلی قیدیوں کی فوری رہائی کامطالبہ کرنا وگرنہ سارے مشرقِ وسطیٰ کو جہنم بنانے کی دھمکی سے واضح ہوتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ تبدیلوں کے دوراہے پر ہیں اوراِس حوالے سے امریکہ اوراسرائیل میں کامل اتفاق ہے ۔
قطر جس نے اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی سے بددل ہوکر ثالثی کی کوششیں روک دی تھیں اُس نے ثالثی کی کوششیں ازسرِ نو دوبارہ
کرنے پررضامندی ظاہر کردی ہے جسے ٹرمپ کی طرف سے جنگ بندی کے لیے ہونے والی کوششوں کا حصہ تصورکیاجارہا ہے مگر حالات وواقعات ایسے کسی خیال کی نفی کرتے ہیں یہ دراصل خطے میں امریکی مداخلت روکنے کی کمزورسی کوشش ہے کیونکہ امریکی قیادت میں قائم نیٹو جیسی دنیا کی سب سے بڑی دفاعی تنظیم کی طرف سے اُردن کے دارالحکومت عمان میں دفتر قائم کرنے کا فیصلہ تشویشناک ہے اُردن جوکہ اسرائیل کاہمسایہ اور دوست ملک ہے اسی لیے عمان میں دفتر بنانے کے فیصلے کواسرائیلی دفاع کومزید مضبوط اور وسیع کرنے کی کوششوں کاحصہ سمجھاجارہاہے ماضی میں اُردن نے نیٹوسے تعلقات بڑھانے میں ہمیشہ فیاضی کا مظاہر ہ کیا جس کی بناپر اُسے خطے میں نیٹو کے اہم شراکت دار کا درجہ حاصل ہے لیکن حالیہ تبدیلوں کے تناظر میں دفترقائم کرنے کا فیصلہ ایسے گہرے تعلقات کاعکاس ہے جو نیٹوکی بڑھتی دلچسپی کوظاہرکرتا ہے نیٹو کے نئے سربراہ مارک رونے ہیں جنھوں نے اُردن میں دفتر بنانے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کے ممالک سے ہمارے گہرے تعلقات ہیں جو ماضی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور دیرپاہوں گے مزید وضاحت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ہم نے مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے لیے نیا خصوصی ایجنڈا ترتیب دیا ہے تاہم مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کی طرف نیٹو کی توسیع ہمارے جنوبی پڑوس کی طرف توسیع تو ہوگی لیکن یہ ٹرانس اٹلانٹک کونیٹو میں لانے والی تنظیم کی شق نمبر پانچ والی توسیع جیسی نہیں ہوگی۔ جس کامطلب یہی ہے کہ نیٹو نے مشرقِ وسطیٰ کو مستقل زیرِ نگین رکھنے کے لیے اسرائیل کو خطے میں مستقل بالادست طاقت رکھنے کا ایسا فیصلہ کیاہے جس کی بدولت خطے میں روس اور چین کی مداخلت وبالا دستی کا خدشہ ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائے۔
اسرائیل کے دفاع میں امریکہ جس حدتک آگیاہے یہ انصاف سے متصادم ہے اگر اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے تو امریکہ بھی اُس کی کوششوں کو مربوط بناتے ہوئے انصاف کا قتلِ عام کرنے میں مصروف ہے اسرائیل کو لاحق خطرات ختم کرنے کے لیے منصوبے کے تحت ایران و عراق کے درمیان آٹھ برس تک جنگ کا میدان سجایا گیا اور جب صدام حسین کو مزید استعمال کرنے کی ضرورت نہ رہی تو کویت پر حملے کی پاداش میں عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا گیا کرنل قذافی کو ایک مصنوعی بغاوت کے زریعے مارکر لیبیاجیسے خوشحال ملک کوعملی طورپرکئی حصوں میں تقسیم کردیاگیاخطے کے ممالک کو اتحاد سے دوررکھنے کے لیے مسلکی اختلاف کو ہوا دی گئی اورسعودی عرب و ایران کو مدِ مقابل لایا گیا مگر چین کی کاوشوں سے یہ دونوں اسلامی ممالک اب تعلقات کوبہتر اور مستحکم بنانے کی روش پر گامزن ہیں مصر تو صدرالسیسی کی قیادت میںویسے ہی آلہ کارہے اب لگتاہے کہ شامی صدر بشارالسد کوجلدانجام تک پہنچانے کی حکمتِ عملی پرکام شروع ہوگیا ہے اسی لیے برسوں سے جاری لڑائی میں اچانک تیزی آئی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے دوسرے بڑے شہر حماسے سرکاری فوجیں شکست کھاکر میدان چھوڑ چکیں اور باغی جنگجودارالحکومت دمشق سے محض دس کلومیٹر کی دوری پررہ گئے ہیں ظاہرہے اچانک فتوحات کابڑھنا باغیوں کی جدید ہتھیاروں تک رسائی کے بغیرممکن نہیں لبنان میں حزب اللہ نے بڑی مہارت سے اسرائیلی پیشقدمی روکی کیونکہ لبنانی عوام حزب اللہ کوملکی دفاع کے لیے ناگزیر تصور کرتی ہے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کے قتل کے مقام کا لوگوں کی زیارت میں تبدیل ہونااسی عوامی محبت کا عکاس ہے مگر فلسطینی علاقوں کوہتھیانے اور اسرائیلی رقبہ بڑھانے کے منصوبے میں مدددینے کے لیے نیٹو نے قدم رکھ دیا ہے جوفلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافے کی طرف اشارہ ہے ۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے قراردادکی حمایت دنیا کے 157 نے کی جبکہ مخالفت میں جو واحد ووٹ آیا وہ اسرائیل کا اپنا تھاالبتہ رائے شماری کے موقع پر سات رُکن ممالک غیر حاضر رہے قراردادکی منظوری سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی غاصبانہ اور نسل کشی پرمبنی پالیسیاں دنیا کو پسند نہیں مگرچونکہ وہ دنیا کی واحد سُپر پاور امریکہ کا چہیتا اور منظورِ نظر ہے اسی لیے انسانی احقوق کی تنظیموں یا اقوامِ متحدہ کی کسی قرارداد وں کوخاطرمیں نہیں لاتا ظاہرہے جب دنیا کی واحد سُپر پاور اُس کے تمام غیرقانونی اورناانصافی پر مبنی اقدامات کی پشت پناہی کرنے کو موجودہوتو بھلا دنیا کیاکر سکتی ہے اب جبکہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ جغرافیائی تبدیلیوں کے دوراہے پر ہے عرب لیگ اور مسلم ممالک اِس اہم موقع پر بھی خاموش ہیں مباداکسی اور ملک کو جارحیت کانشانہ بنناپڑے یہ ڈروخوف ہی مسلم اُمہ کے زوال کی بڑی وجہ ہے صرف نفاق چھوڑکر اتحاد سے متفقہ لائحہ عمل بنانے سے جغرافیائی تبدیلیوں کا عمل روکا جا سکتا ہے جس کا مسلم اُمہ میںفقدان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔