... loading ...
جاوید محمود
نیویارک میں پی آئی اے انوسٹمنٹ کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کو لیز دے کر مزید تباہی سے دوچار کر دیا گیا۔ اپنوں کی بد انتظامی اور کرپشن کے ہاتھوں تباہ پاکستانی اثاثہ ماہر امریکی سرمایہ کاروں کی نظر میں آگیا۔ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ کے نامزد بھارتی نژاد مشیر راما سوامی نے پی آئی اے انوسٹمنٹ کی ملکیت دی روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کو نیویارک سٹی کی انتظامیہ کو تین سال کے لیے کرائے پر دینے جانے کے بارے میں جو بیان جاری کیا ہے وہ ان کی تقرری کی منظوری اور عہدہ کا چارج دینے سے نہ صرف قبل ہے بلکہ ہوٹل کی لیز کے قانونی اور مالی تجزیہ اور دیگر حقائق کو نظر انداز کر کے صرف یہ عمومی تاثر لیے ہوئے ہے کہ نیویارک سٹی کی حکومت 220ملین ڈالرز کرایہ ایک غیر ملکی حکومت پاکستان کو ادا کر رہی ہے جو کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم سے ادا کیا جا رہا ہے جبکہ نیویارک سٹی گورنمنٹ نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ ہوٹل روزویلٹ کے سابقہ ملازمین کی یونین کے مطالبات پر مبنی 66ملین ڈالرز کے واجبات بھی لیز کے لیے ادا کیے جانے والے 220میں سے منہا کر لیے جائیں گے ۔
یاد رہے کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک میں سات دن قیام کیا تھا۔ تبدیلی اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کو ترک کرنے کے انتخابی نعروں سے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے روزویلٹ ہوٹل کا انتخاب کیا تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے پیش رو نواز شریف نے کبھی روزویلٹ ہوٹل میں ٹھہرنا پسند نہیں کیا تھا جو پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی ملکیت تھا ۔وہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے جب بھی نیویارک گئے انہوں نے ورلڈ رف سٹور یا نیویارک پیلس کا ہی انتخاب کیا ۔پاکستانی رہنماؤں کے دوروں کے دوران ہمیشہ ہی صحافیوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے میڈیا سینٹر روز ویلٹ ہوٹل میں بنائے جاتے رہے ہیں ۔مہنگے ترین ہوٹلوں کے انتخاب پر ماضی کے حکمرانوں کا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ کیونکہ ان ہوٹلوں میں دیگر ملکوں کے سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت قیام کرتے ہیں تو ان سے ملاقاتیں طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ نیویارک کے روز ویلٹ ہوٹل کے قیام کو ایک صدی ہو گئی ہے ۔اس کا افتتاح 23ستمبر 1924ء میں ہوا تھا۔ امریکی صدر تھیوڈر روز ویلٹ کے نام پر بنائے گئے اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ 20لاکھ ڈالرز رقم صرف ہوئے تھے۔ یہ ہوٹل ایک خفیہ زیر زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔روز ویلٹ ہوٹل دنیا بھر میں وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے اپنے مہمانوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چائلڈ کیئر اور پالتو جانوروں کے لیے بھی خصوصی سروس مہیا کرنا شروع کی تھی۔ اس کے علاوہ 1947 میں روز ویلٹ وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے کمروں میں ٹیلی ویژن سیٹ مہیا کیے ۔کونریڈ ہیلٹن نے 1943میں یہ ہوٹل خرید لیا۔ کرونا کونریڈ ہیلٹن بعد میں والڈ ڈروف اسٹوریا اور دی پلازہ جیسے اعلیٰ معیار کے ہوٹلوں کے مالک بھی بن گئے لیکن انہوں نے اپنا قیام روز ویلٹ ہوٹل کے صدارتی سویٹ میں ہی رکھا۔ 2015میں جب نواز شریف نیویارک تشریف لے گئے تو اس وقت بھی انہوں نے ویلڈررف سٹوریا کا ہی انتخاب کیا تھا جبکہ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس ہوٹل میں مقیم تھے۔ جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو اتنے مہنگے ہوٹلوں میں قیام پر امریکی صحافی اکثر حیران ہوا کرتے تھے۔ 2008میں صدر آصف علی زرداری جب نیویارک گئے تھے تو وہ روز ویلٹ ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور ان کے قیام کے لیے ہوٹل کا صدارتی سویٹ بک کرایا گیا جس کا ایک رات کا کرایہ چھ ہزار ڈالرز یومیہ تھا ۔اس سے قبل سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے اکتوبر 2006میں امریکہ کے دورے کے دوران نیویارک میں اس ہوٹل کا انتخاب کیا تھا۔ صدر مشرف کا یہ دورہ اخراجات کے اعتبار سے مہنگا ترین دورہ تھا۔ اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق صدر مشرف کے قیام کے دوران پاکستان سفارت خانے میں 28لیموزین کرائے پر حاصل کی تھیں ،جن کا کرایہ لاکھوں ڈالرز میں ادا کرنا پڑا تھا۔ صدر مشرف اکتوبر 2001میں بھی اپنے امریکی دورے کے دوران اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ 1979میں پی آئی اے نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس کو لیز پر حاصل کر لیا۔ اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ 20برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔ 1979 میں پی آئی اے نے اس شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل کی عمارت کو تین کروڑ 60لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔ پی آئی اے کو ہوٹل کی عمارت خریدنے سے پہلے ہوٹل کے اس وقت کے مالک پال ملسٹین کے ساتھ ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔ پال ملسٹین کا خیال تھا کہ ہوٹل کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے قبل 2005میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کے ساتھ ایک سودے میں روز ویلٹ کے 99 فیصد شیئر خرید لیے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف ایک فیصد شیئر ہی رہ گئے۔ 2007میں پی آئی اے نے ہوٹل کی مرمت اور
از سرنو تزئین و آرائش کاکام شروع کیا جس پر چھ کروڑ 50لاکھ ڈالر کا خرچہ آیا۔ اس کے بعد پی آئی اے نے اپنے مالی خساروں کو پورا کرنے کے لیے ہوٹل کو بیچنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا ۔روز ویلٹ ہوٹل نیویارک کے مرکز مین ہٹن کی 45 ویں اور 46ویں ا سٹریٹ کے درمیان واقع ہے جو نیویارک کے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن سے صرف ایک بلاک دور ہے۔ یہاں سے ٹائم اسکوائر اور براڈوے جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں ۔
پاکستان کے سابق حکمرانوں اور عالمی لیڈروں کی روزویلٹ ہوٹل سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں لیکن اب پاکستان کا یہ اثاثہ روز ویلٹ لیز پر ہے ۔اس پر المیہ یہ ہے کہ ٹرمپ کے مشیر راما سوامی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جان لیو فیور کی ایک پوسٹ کے جواب میں لکھا کہ غیر قانونی تارکین وطن کے لیے ٹیکس دہندگان کی مالی اعانت سے چلنے والا ہوٹل پاکستانی حکومت کی ملکیت ہے جس کا مطلب ہے کہ نیویارک شہر کے ٹیکس دہندگان غیر ملکی حکومت کو ہمارے اپنے ملک میں غیر قانونی رہائش کے لیے موثرطریقے سے ادائیگی کر رہا ہے، یہ پاگل پن ہے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر انڈین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستان حکومت نے کمزور معیشت اور ہوا بازی کے شعبے کو نقصانات کے باعث 22اکتوبر 2020میں روز ویلٹ ہوٹل کو بند کر دیا تھا تاہم اس سہولت سے ٹیکسوں اور دیگر اوورہیڈز میں تقریبا 20کروڑ ڈالر سے زیادہ کے واجبات جمع ہوئے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر آخر پاکستان پر ایسے بھونڈے الزامات کیوں لگا رہے ہیں؟ اب بھی وقت ہے حکومت پاکستان کو اس کا بھرپور جواب دینا چاہیے کیونکہ ان کے الزامات سے پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی بدنامی ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔