... loading ...
ریاض احمدچودھری
راجستھان کی ایک عدالت نے ہندو انتہا پسند جماعت ہندو سینا کے سربراہ وشنو گپتا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست سماعت کے لیے منظور کی ہے۔جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ معروف صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے احاطے میں ایک مندر موجود ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ درگاہ کے مقام پر مندر کو بحال کیاجائے۔وشنو گپتا کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے درگاہ کے مقام کا سروے کروایا جائے، اس کی تاریخی اور مذہبی اہمیت کا تعین کیا جائے۔انتہا پسند ہندو رہنما نے درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر درگاہ کی پہلے سے کوئی رجسٹریشن موجود ہے تو اسے منسوخ کرکے یہاں ہندوؤں کو عبادت کا حق دیا جائے۔عدالت نے اجمیر درگاہ کمیٹی، وزارت اقلیتی امور اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو نوٹس جاری کردیے اور مقدمے کی سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کردی۔
عدالت کے اس اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے بھارت کی عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں فوری مداخلت کرے۔ 1991 کا پلیسز آف ورشپ ایکٹ واضح طور پر کہتا ہے کہ 15 اگست 1947 کے بعد سے کسی مذہبی تعمیرات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔خیال رہے کہ بھارتی عدالت کا یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ریاست اترپردیش کے شہر سنبھل میں ہندو انتہاپسندوں نے ایک اور مسجد کی جگہ ہندو مندر ہونیکا دعویٰ کیا جس پر ہونے والے احتجاج میں 3 افراد ہلاک ہوگئے۔خود کو قوم پرست کہنے والی ہندوتوا تنظیم ‘شیو سینا ہندوستان’ نے اجمیر کے عقیدت مندگان کے عقیدے پر وار کرتے ہوئے درگاہ کو مندر قرار دے دیا ہے اور وہاں پوجا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے فوری بعد اجمیر شہر میں تناؤ پیدا ہو گیا اور وہاں بھاری پولس فورس کو تعینات کر دیا گیا ہے۔اجمیر کے ایس پی راجندر سنگھ کے مطابق ”دھمکی دینے والی تنظیم بالکل انجان ہے اور ہم پوری طرح مستعد ہیں۔” اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ ہے جہاں ہر روز ہزاروں عقیدت مندگان زیارت کے لئے پہنچتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد سے عقیدت مندگان میں سخت غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔گزشتہ دنوں راجستھان میں اچانک نفرت آمیز خبروں میں تیزی آ گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان سب خبروں کے پیچھے 29 جنوری کو ریاست میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں۔ اس کے بعد اگلے برس وہاں اسمبلی انتخابات بھی ہونے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے تحت الور اور اجمیر کی پارلیمانی سیٹ اور منڈل گڑھ کی اسمبلی سیٹ پر ووٹنگ کا عمل ہوگا۔ راجستھان سے لگاتار اقلیتوں کے خلاف تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔ جن میں الور میں مبینہ گورکشکوں کے ذریعہ کئے گئے قتل اور مارپیٹ کے واقعات شامل ہیں۔
راجستھان کانگریس کے نائب صدر ممتاز مسیح کا کہنا ہے ” ریاست بھر میں لوگ بی جے پی کی حکوت سے ناراض ہیں ، اس لئے بی جے پی جیت کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کر رہی ہے جس میں فرقہ وارانہ تقسیم (پولیرائزیشن )سب سے خطرناک ہے۔ ”راجستھان میں لگاتار نفرت پھیلانے کے واقعات کے درمیان اب درگاہ اجمیر شریف کے خلاف ویڈیوں وائرل کر دیا گیا۔ گجرات میں بی جے پی کے قلعہ میں کانگریس نے نقب لگا دی ہے اور بی جے پی کو اپنی ہار صاف دکھائی دے رہی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے سرینگرکی تاریخی جامع مسجدمیں اجتماع سے خطاب میں ریاست اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کے خلاف سراپا احتجاج مسلمانوں پر پولیس کی فائرنگ اور کئی مسلم نوجوانوں کی مو ت پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مساجد اوردرگاہوں کے خلاف جاری مذموم مہم خطے کے کروڑوں مسلمانوں کیلئے انتہائی دل آزاری کا باعث ہے ،حکومت اور عدلیہ کی حمایت یافتہ اس مہم کے انتہائی سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔بھارت میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے راجستھان میں عالمی شہرت یافتہ درگاہ اجمیر شریف سے متعلق ہندو انتہاپسندوں کے متنازعہ دعوے پر بی جے پی اور آر ایس ایس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ درگاہ اجمیر شریف گزشتہ 800 سال سے موجود ہے۔ اس وقت مغلوں کی حکومت تھی۔ شہنشاہ اکبر نے وہاں بہت سی چیزیں تعمیر کی تھیں۔ اسکے بعد پھر مرہٹوں کی حکومت آئی،درگاہ اجمیر شریف کو انگریزوں کو 18ہزارروپے میں بیچ دیا گیاتھا۔ جب ملکہ الزبتھ نے 1911میں دورہ کیا تو انہوں نے وہاں ایک واٹر ہائوس تعمیر کریاتھا۔ نہرو کے بعد سے بھارتی وزرائے اعظم درگاہ پر چادر بھیجتے رہے ہیں۔ پی ایم مودی بھی وہاں ‘چادر’ بھیجتے ہیں۔اسد الدین اویسی نے سوال کیاکہ بی جے پی اورآر ایس ایس ملک میںمساجد اور درگاہوں کے حوالے سے نفرت کیوں پھیلارہی ہے؟
بھارت میں عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔مودی حکومت ملک میں بھائی چارے کی فضا اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کر رہی ہے۔ اگر ہندو کہیں گے کہ مسجد یا درگاہ کی جگہ کچھ اور تھا۔تو اگلی بار کوئی مسلمان بھی کہہ سکتا ہے کہ مندر کی جگہ پر پہلے مسجد موجود تھی۔ بی جے پی اورآر ایس ایس کی ہدایت پرمساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس ملک میں نفرت کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ انہوں نے اترپردیش کے ضلع سنبھل میں تشددکے حالیہ واقعہ کا بھی حوالہ دیا جہاں پولیس کے تشدد سے چار لوگوں شہید ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ہندوتوا تنظیم ہندو سینا نے مقامی عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں دعویٰ کیاگیاہے کہ درگاہ اجمیر شریف ایک مندر پر قائم کی گئی ہے۔ عدالت نے ہندوتوا تنظیم کی اس درخواست کو سماعت کیلئے منظور کر لیا ہے۔