وجود

... loading ...

وجود

کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی

منگل 03 دسمبر 2024 کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی

ریاض احمدچودھری

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارتی فوج کی سفاکیت اور بربریت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔کشمیر میں مظالم تو پہلے ہی جاری تھے اب ان کی شخصی آزادی بھی چھین لی گئی۔ان کو گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔بھارت و اقوام متحدہ کی قراردادوں تک کو نہیں مانتا اس کی اپنی کٹھ پتلی اسمبلی کی قرارداد کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہوگی۔عام کشمیری کو اس بات کا علم ہے اسی لیے وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔جسے بھارت کی طرف سے کچلنے کی ہمیشہ کوشش کی گئی ہے۔غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اسمبلی کے سپیکر عبدالرحیم راتھر نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کیلئے اسمبلی کی طرف سے منظور کی گئی قراردادمزید کارروائی کے لیے متعلقہ حکام کو بھجوا دی گئی ہے۔ قرارداد اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں منظوری کے فورا بعد بھجوادی گئی تھی ،بطور سپیکر ان کا کردار ووٹوں کی گنتی کے ذریعے غیر جانبدارانہ عمل کو یقینی بنانا تھا تاہم انہوںنے اپنی غیر جانبدانہ پوزیشن برقراررکھی۔ قرارداد کے حق میں 62 اور مخالفت میں 28 ووٹ ڈالے گئے تھے۔
قرارداد میں بھارتی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی، آئینی ضمانت اور دفعات کی بحالی کے لیے آئینی طریقہ کار پر کام کرنے کے لیے بات چیت شروع کرے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ساز اسمبلی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت کی توثیق کرتی ہے، جس نے کشمیر کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق کا تحفظ کیا اور اس کی یکطرفہ برطرفی پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ جموں وکشمیر اسمبلی بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی، آئینی ضمانت اور دفعات کی بحالی کے لیے آئینی طریقہ کار پر کام کرنے کے لیے بات چیت شروع کرے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ قرارداد ایک آنکھ نہیں بھائی، اِس کے 29 ارکان اْس اسمبلی کا حصہ ہیں اور اْن سب ہی نے درمیان میں کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا، سپیکر کی بار بار اپیل کے باوجودنشستوں پر نہ بیٹھنے اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کرتے رہے۔ بی جے پی ارکان نے خصوصی حیثیت کی بحالی کے خلاف نعرے بازی کی اور قرارداد پیش کرنے والوں پر پاکستانی اور ملک دشمن ایجنڈا کے حامی ہونے الزام عائد کیا۔ معاملہ اسوقت بگڑ گیا جب بھارتی پارلیمنٹ کے رْکن انجینئر عبدالرشید کے بھائی خورشید شیخ آرٹیکل 370 اور 35۔اے کی فوری بحالی کے مطالبے کا بینر اْٹھائے ایوان میں داخل ہوئے، یہ دیکھ کر بی جے پی کے ارکان بالکل ہی آپے سے باہر ہو گئے، انہوں نے خورشید شیخ کو گھیر لیا، ہنگامہ آرائی عروج پر پہنچ گئی،انتہائی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بی جے پی کے لوگوں نے قرار داد کی کاپیاں چھیننے کی کوشش کی تو ہاتھا پائی بھی ہوئی۔یہ اچھی ضد اور ہٹ دھرمی ہے، بھارت اقوام متحدہ کی ساری قراردادوں کو ہوا میں اْڑا چکا ہے، شملہ معاہدے کی بھی اِس نے لاج نہیں رکھی اور خود ہی یکطرفہ طور پر کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35۔اے کو منسوخ کر دیا تھا، بھارتی سپریم کورٹ بھی اِس پر مہر ثبت کر چکی ہے، اِس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے وہاں باہر سے لوگوں کو بسانا بھی شروع کر دیا تاکہ اگر کبھی بادل نخواستہ استصوابِ رائے کرانا پڑ گیا تو فیصلہ اس کے حق میں ہی آئے۔زیر بحث دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیر میں ظلم و ستم کا نیا دور شروع کر دیا، انٹرنیٹ بند کر دیا، وہاں کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ ختم کر دیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی، ہزاروں کشمیری بالخصوص نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا، وہ بھارت کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ کشمیری عوام نے مودی سرکار کے کالے قانون کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کو مسترد کر دیا۔ بھارتی سیاسی تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ مودی حکومت کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کشمیری خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔کشمیری بخوبی واقف ہیں کہ یہ کام صرف بھارتی پارلیمان ہی کر سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے اگلا دور نریندر مودی کا نہ ہو اور ایسی حکومت بن جائے جو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحال کر دے۔ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے منتخب ہونے کے بعد یہی کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں کشمیر کی حیثیت ختم کرنے والی مودی حکومت کسی صورت اِس آرٹیکل کو بحال نہیں ہونے دے گی لیکن یہ حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی، اْنہیں اْس حکومت کا انتظار کرنا ہو گا جو اِس آرٹیکل کو بحال کرائے۔اہل ِ کشمیر کی جدوجہد تو دہائیوں سے جاری ہے، اْن کے ہمت و حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے،وہ اچھے دِنوں کی آس میں بھارتی حکومت کے تمام تر مظالم سہہ رہے ہیں، زیادتیاں برداشت کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جاتا ہے، وہاں کے رہائشی بنیادی انسانی سہولیات اور حقوق سے محروم ہیں لیکن عالمی برادری خاموش ہے، آج تک کوئی بھارت کو اْس کا اصل چہرہ نہیں دِکھا سکا۔ بھارت نے لگ بھگ ایک دہائی تک مقبوضہ کشمیر میں انتخابات نہیں ہونے دئیے، رواں برس ستمبر میں انتخابات ہوئے تو حکمران جماعت بْرے طریقے سے ہار گئی،سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود تین مراحل میں 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 29 نشستیں ہی حاصل ہوسکیں جبکہ نیشنل کانفرنس کے اتحاد نے کل 53 نشستیں حاصل کیں جس میں نیشنل کانفرنس 42 اور کانگریس نے چھ نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ بعد میں چار آزاد امیدواروں اور ایک اور جماعت کے واحد رکن نے بھی نیشنل کانفرنس کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے پارلیمانی رہنما عمرعبداللہ وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟ وجود بدھ 04 دسمبر 2024
سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟

یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی وجود بدھ 04 دسمبر 2024
یورپ میں چین کی بڑھتی موجودگی

درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش وجود بدھ 04 دسمبر 2024
درگاہ اجمیر شریف کو مندر بنانے کی سازش

کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی وجود منگل 03 دسمبر 2024
کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی

دنیا ہماری انگلیوں پر وجود منگل 03 دسمبر 2024
دنیا ہماری انگلیوں پر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر