... loading ...
عماد بزدار
ملک آباد کا ہر فرد شاہ میر کے ذکر پر احترام سے سر جھکا لیتا تھا۔ وہ ایک ایسا نام تھا جو نہ صرف علاقے کی گلیوں میں بلکہ مجلسوں، عبادت گاہوں، اور ہر دل کی دعا میں شامل تھا۔ شاہ میر کی شخصیت ایک مثالی نیکی، شرافت اور سخاوت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنا، بیواؤں کے لیے وظائف جاری کرنا، اور بھوکوں کے لیے کھانے کا اہتمام کرنا اس کے معمولات میں شامل تھا۔ اس کی سخاوت کی کہانیاں ہر زبان پر تھیں، اور لوگ اسے “ملک آباد کا مسیحا” کہتے تھے ۔
شاہ میر کے لیے یہ سب کچھ محض ایک جذبۂ خدمت نہیں تھا بلکہ ایک ذریعہ تھا اپنی حیثیت اور اثر و رسوخ کو مزید مضبوط کرنے کا۔ وہ اپنے نیکی کے مظاہرے خاص طور پر ان مواقع پر کرتا جہاں اس کے “کارنامے ” زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ وہ اپنی نیکیاں نہایت سوچ سمجھ کر منتخب کرتا تھا، ان افراد کی مدد کو ترجیح دیتا جو اس کے اثر و رسوخ کو بڑھا سکتے یا اس کی نیک شہرت میں اضافہ کر سکتے تھے ۔
شاہ میر کی ہر محفل میں عزت تھی، لیکن اس عزت کے پیچھے ایک عجیب سا تضاد چھپا تھا۔ وہ ہر ضرورت مند کی وقتی مدد کرتا تھا لیکن اس کے پاس کبھی ان وجوہات پر بات کرنے کا وقت نہیں تھا جو ان لوگوں کو ضرورت مند بناتی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ ملک آباد میں غربت، بے بسی، اور محرومی کوئی اتفاق نہیں، بلکہ اس نظام کی پیداوار ہے جو چند طاقتوروں کے مفاد میں ڈھالا گیا تھا۔ اور شاہ میر خود انہی طاقتوروں کا سہولت کار تھا۔
شاہ میر کے قریبی حلقے میں وہی لوگ شامل تھے جو اس نظام کے اصل معمار تھے ۔ بڑے زمیندار، سیاست دان، اور کاروباری شخصیات، جو ملک آباد کے وسائل کو اپنی مرضی سے قابو میں رکھتے تھے ، شاہ میر کے بہترین دوست تھے ۔ وہ ان کی محفلوں کی زینت بنتا، ان کے مفادات کا تحفظ کرتا، اور ان کے خلاف کبھی کچھ نہ کہتا۔ وہ جانتا تھا کہ یہی لوگ اس کے اثر و رسوخ اور مراعات کے ضامن ہیں۔شاہ میر کی نیکیاں ہمیشہ ان افراد کے لیے مخصوص ہوتی تھیں جنہیں وہ نظام کے اندر محتاج رکھنا چاہتا تھا۔ جب بھی کوئی کسان اپنی فصل سے محروم ہوتا یا کوئی مزدور اجرت نہ ملنے کی شکایت کرتا، تو شاہ میر آگے بڑھ کر ان کی وقتی مدد کرتا، مگر ان طاقتوروں سے کبھی سوال نہ کرتا جن کی وجہ سے یہ لوگ مجبور تھے ۔ وہ دراصل ایک ایسے نظام کا حصہ تھا جو محتاجی پیدا کرتا تھا، اور پھر ایسے “نیک”لوگوں کو موقع دیتا تھا کہ وہ اپنی نیکی کے ذریعے خود کو بڑا ثابت کریں۔
ایک دن، ایک نوجوان لڑکا، فاروق، شاہ میر کے پاس آیا۔ فاروق کے کپڑوں سے غربت جھلکتی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں شعور کی چمک تھی۔ اس نے کہا، “شاہ میر صاحب، میری ماں بیمار ہیں، ان کے علاج کے لیے پیسے درکار ہیں۔”شاہ میر نے اپنی جیب سے رقم نکال کر دینے کی کوشش کی، لیکن فاروق نے پیسے لینے سے پہلے ایک سوال پوچھا:
“آپ جیسے نیک لوگ ہر وقت مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں، لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ لوگوں کو مدد کی ضرورت کیوں پڑتی ہے ؟”
شاہ میر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے بات بدلنے کی کوشش کی، “بیٹا، دنیا ایسی ہی ہے ۔ ہر کوئی اپنی قسمت کے ساتھ جیتا ہے ۔ ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ جو ممکن ہو، وہ کریں۔”
فاروق مسکرایا، مگر اس کی مسکراہٹ تلخ تھی۔ “شاہ میر صاحب، دنیا ایسی نہیں ہے ، اسے ایسا بنایا گیا ہے ۔ آپ کی نیکیاں ان لوگوں کے لیے ڈھال کا کام کرتی ہیں جو اس نظام کو چلا رہے ہیں۔ آپ ان کے خلاف کبھی نہیں بولتے ، کیونکہ آپ ان کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آپ کی خاموشی انہیں اور مضبوط بناتی ہے ۔”
یہ بات سیدھی شاہ میر کے ضمیر تک پہنچی۔ اس رات، وہ دیر تک جاگتا رہا۔ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس نے خود سے سوال کیا، “کیا میں واقعی نیک ہوں، یا صرف نیکی کا نقاب اوڑھے ہوئے ہوں؟” اسے اپنا چہرہ نقاب کے بغیر نظر آیا، اور وہ چہرہ اسے اجنبی لگا۔
شاہ میر نے اپنی زندگی کے تمام اعمال کو ٹٹولنا شروع کیا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ واقعی انصاف کا ساتھ دینا چاہتا ہے تو اسے ان طاقتوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا جو لوگوں کی بدحالی کی اصل ذمہ دار ہیں۔
اسی لمحے ، ایک خیال نے اسے جکڑ لیا۔ اگر وہ اپنی نیکی کے نقاب کو اتار دے ، تو اسے اپنی زندگی کی ہر آسائش کو قربان کرنا ہوگا۔ اسے ان طاقتور حلقوں کا سامنا کرنا ہوگا جنہوں نے اسے یہ مقام اور یہ مراعات فراہم کی تھیں۔ مگر یہ سب کچھ اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
شاہ میر نے گہری سانس لی اور اپنی نظریں جھکا لیں۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ سب سوالات صرف وقتی ہیں، اور وہ پھر سے اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ نیکی کا نقاب اس کے لیے ایک سہولت تھی، ایک ذریعہ تھا، جس سے وہ اپنی مراعات یافتہ حیثیت کو قائم رکھ سکتا تھا۔