... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی ریاست جھاڑکھنڈ میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے شرانگیز مذموم مقاصد کو الیکشن کمیشن نے ناکام بناتے ہوئے انتخابات کے دوران مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور نفرت آمیز مہم چلانے پر بی جے پی کو نوٹس جاری کردیا۔بھارتی الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اشتہار بند کرنے کا حکم دیا، جس پر اشتہاری مہم کو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اب ہٹا دیا گیا ہے۔بھارتی الیکشن کمیشن نے بی جے پی سے اس اقدام پر وضاحت طلب کر لی ہے۔بھارتی الیکشن کمیشن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سمیت تمام ویب سائٹس سے بھی انتخابی مہم کے سلسلے میں مسلمانوں کیخلاف منفی اور شرانگیز مواد ہٹانے کا حکم بھی دیا۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کسی بھی مذہب، نسل، طبقے اور فرقہ کے خلاف نفرت آمیز مہم چلانا انتخابی ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
مذکورہ اشتہار میں سر پر اسکارف اوڑھے خواتین، ٹوپی پہنے مردوں کو اپوزیشن کے حامی جھارکھنڈ مکتی مورچا کے رہنما کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اس سے قبل نریندر مودی بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو گْھس پیٹیا قرار دیتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کر چکے ہیں۔رواں برس بھارت کے انتخابات میں بی جے پی اور مودی کے مسلم مخالف بیانیے پر انتخابات میں جیت کے حوالے سے بین القوامی ذرائع ابلاغ نے ایک رپورٹ شائع کی کہ ‘مودی سرکار مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مہم کے تحت انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے، مودی سرکار جہاد کے لفظ کا استعمال کر کے بھارتی عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہی ہے۔ مودی کی مسلم مخالف سوچ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری جسمانی تشدد کو ہوا دے رہی ہے جو بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔’
حال ہی میں سماج وادی پارٹی کی ایک مقامی رہنما ماریہ عالم نے مسلمانوں سے کہا کہ “وہ ووٹ کا جہاد کریں”جس پر بی جے پی نے شدید نفرت کا اظہار کیا۔ ایک انتخابی مہم کے دوران مودی نے مسلمانوں کو دراندازوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں سے تشبیہ دی مگر حقیقت میں مسلمان قومی آبادی کے 15 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی نمائندگی میں تقریباً 20 ہزار شہریوں نے مودی سرکار کی طرف سے نفرت انگیز تقریر کے الزامات کے خلاف کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو خط لکھا۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے بھی مودی کی انتہاپسند سرگرمیوں کے خلاف شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ کانگریس کے رکن اسمبلی پرمود تیواری نے کہا کہ مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو بدنام کیا ہے اور یہ الفاظ کبھی بھی ایک بھارتی وزیر اعظم کے الفاظ نہیں ہوسکتے ہیں۔مودی کے نفرت انگیز ریمارکس نے مسلمانوں پر تشدد کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ بی جے پی ہندو توا نظریے کے تحت کام کر رہی ہے جو کہ خود آر ایس ایس کے نظریے کی پیروکار جماعت ہے۔مودی سرکار کی دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلم مخالف سرگرمیاں اور بیانات اس امر کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی صرف ہندو انتہا پسند جماعت ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب تک زندہ ہیں، کسی بھی قیمت پر دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں کے لیے بھارتی آئین کے تحت دیے جانے والے کوٹے کو مسلمانوں میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔انھوں نے حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘کانگریس پارٹی اور اس کے شہزادے (راہل گاندھی) اپنے ووٹ بینک کی سیاست کے لیے پچھلے دروازے سے مسلمانوں کے لیے کوٹہ لا کر پسماندہ طبقات کے حقوق چھین کربھارتی آئین کو پامال کر رہے ہیں۔’ ‘یہ وہ لوگ ہیں جو پارلیمان چلنے نہیں دینا چاہتے، یہ وہ لوگ ہیں جو الیکش کمیشن پر سوال اٹھاتے ہیں اور اب اپنے ووٹ بینک کے لیے آئین کو بدنام کرنے کے لیے نکلے ہیں۔’ ‘لیکن کانگریس والے سن لیں، جب تک مودی زندہ ہے، میں دلتوں کا کوٹہ، قبائلیوں کا کوٹہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو نہیں دینے دوں گا۔’اسی طرح ایک اور انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ آج بھارت ڈوزئیر نہیں بھیجتا بلکہ گھر میں گھس کر مارتا ہے۔کانگریس کے دور میں اخبارات سرخیاں ہوا کرتی تھیں کہ بھارت نے ممبئی کے دہشت گردانہ حملے پر ایک اور ڈوزیئر پاکستان کو سونپا۔ ہمارے میڈیا کے لوگ بھی تالیاں بجاتے تھے کہ ڈوزیئر بھیج دیا گیا لیکن آج بھارت ڈوزئیر نہیں بھیجتا بلکہ گھر میں گھس کر مارتا ہے۔’ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی مسلمان مخالف بیانیے سے عوام میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟’یہ پوری طرح سے غلط بیانی ہے۔ اس کے پس پشت ان کی واضح حکمت عملی ہے۔ کانگریس نے 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی بات کہی تو اس سے یہ پیغام گیا کہ وہ آئین کو بدلنا چاہتے ہیں کیونکہ آئین کو بدلنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی اور آئین ایک ایسی چیز ہے جو کہ پسماندہ طبقے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
انسانی حقو ق کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا کہ نریندر مودی مسلسل پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلمان درانداز ہیں اورانکے بچے دیگر کمیونٹوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور 80فیصد ہندو بھارت کی اقلیت بن جائیں گے۔ملکی سطح پر مودی کے اس بیان پر کڑی تنقید کی گئی۔ نریندر مودی نے عام انتخابات کے دوران کامیابی کیلئے جھوٹے دعوے کیے تھے، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعت کانگریس پر بے بنیاد الزامات عائد کردیے تھے کہ بھارت کے شہریوں سے قیمتوں اثاثے لیں گے اور آپس میں تقسیم کریں گے۔