... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے’ جسے مودی سرکار کی پوری سرپرستی حاصل ہے۔اس ایجنڈے کے تحت مسلمانوں کو وہاں مذہبی آزادی حاصل ہے اور نہ جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں۔رواں برس میں اب تک دو مساجد کو نذر آتش اور مسمار کیا گیا ہے۔ اس کام کیلئے ہندو انتہاء پسند جماعت وشواہندو پریشد’ بجرنگ دل اور مودی سرکار کی پروردہ آر ایس ایس کوحکومت کی پوری آشیرباد حاصل ہے۔ حلال جہاد’ گاؤرکھشا’ بلڈوز پالیسی ‘ شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کیخلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں کوئی ایسی اقلیت نہیں جو جنونی ہندوؤں کے شر سے محفوظ ہوجس کا سب سے زیادہ نشانہ مسلمان بن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار عالمی اداروں’ تنظیموں اور اقوام متحدہ کو بھارت میں انسانی حقوق کی یہ پامالیاں کیوں نظر نہیں آرہیں۔ انکی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے ہی بھارت بدمست ہاتھی کی طرح بپھرا ہوا ہے۔ ایسا کون سا عالمی قانون ہے جس کی بھارت نے خلاف ورزی نہ کی ہو۔ اسکے شر سے نہ بھارتی مسلمان محفوظ ہیں نہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمان۔ جبکہ پاکستان میں ہونیوالی بیشتر دہشت گرد کارروائیوں میں بھارت کا ہی ہاتھ ملوث نظر آتا ہے جس نے اپنی چانکیائی سیاست سے اب افغانستان کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ اس تناظر میں انسانی حقوق کے دعویدار عالمی اداروں’ تنظیموں اور عالمی برادری کو بھارتی شرانگیزی کا سخت نوٹس لینا چاہیے تاکہ مسلمانوں کیخلاف اسکے جنونی ہاتھوں کو روکا جا سکے۔
بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے سنبھل کی جامعہ مسجد کو شہید کرکے اسکی جگہ مندر کی تعمیر کیلئے کرائے جانے والے سروے کے دوران پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے براہ راست فائرنگ کردی جس سے 3 مسلمان شہید ہوگئے۔ جامعہ مسجد کے ماضی میں مندر ہونے کا دعویٰ کرکے انتہاپسند ہندوؤں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھاجس میں موقف اختیار کیا گیا کہ جامعہ مسجد کو مغل دور میں ایک مندر کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا۔ مسجد سے ملنے والے نوادرات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ جس پر مسجد کمیٹی نے کسی بھی ایسی چیز کے ملنے کو جھوٹ اور سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جامع مسجد کو ایک اور بابری مسجد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالت نے فریقین کا مؤقف سننے کے بعد مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ گزشتہ روز مسجد کے باہر انتہاء پسند ہندو جمع ہوئے تو ایک ہزار سے زائد مسلمان بھی جمع ہو گئے جنہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس نے براہ راست فائرنگ کردی۔خواتین سمیت 20 مظاہرین پکڑ لئے گئے۔ مسلمانوں نے درندگی کیخلاف احتجاج کیا۔ مسجد کے سروے کے خلاف علاقہ مکینوں نے احتجاج، توڑ پھوڑ اور پتھراؤکیا۔شہر میں کشیدگی بڑھنے پر انٹرنیٹ سروس معطل اور سکول بند کر دیئے گئے۔ سمبھل میں پیش آنے والے واقعے میں وائناڈ سے نو منتخب رکنِ پارلیمنٹ پریانکا گاندھی اور راہول گاندھی سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے شدید مذمت کرتے ہوئے بذریعہ سوشل میڈیا کہا ہے کہ اقتدار میں بیٹھ کر امتیازی سلوک، ظلم اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرنا عوام اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے انصاف کرنا چاہیے۔ راہول کاندھی کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی جانبداری اور جلد بازی سے سمبھل میں ماحول خراب ہوا اور لوگوں کی جانیں گئیں، اس کی ذمے داری بی جے پی حکومت ہے۔اس واقعے میں 2 خواتین سمیت 25 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ شہر کے باہر سے آنے والوں کے داخلے پر یکم دسمبر تک پابندی عائد کر دی گئی ہے۔سمبھل میں انٹرنیٹ سروس معطل، تعلیمی ادارے بند جبکہ جامع مسجد کے گرد علاقے کو سیل کر دیا گیا ہے۔
اتر پردیش اور ہریانہ میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کی سرپرستی میں سَنگھ پریوار کی طرف سے مساجد کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے خلاف نماز کی ادائیگی کے مقامات پر جاری حملوں پر بھی بھارتی مسلمانوں کو شدید تشویش لاحق ہے۔ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کی بے حرمتی کے ایک اور قابل مذمت واقعہ میں انتہاء پسند ہندو گروہوں کی جانب سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے مقامات پر گائے کا گوبر پھینکنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔عالمی برادری کی جانب سے تشویش کے اظہار کے باوجود تری پورہ میں مسلمانوں، آن کی عبادت گاہوں، گھروں اور کاروباری مقامات پر قابل مذمت حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بی جے پی جن ریاستوں میں برسراقتدار ہے، وہاں سینکڑوں افراد کو ‘غیرقانونی سرگرمیاں (امتناع) ایکٹ’ جیسے سیاہ قانون کے تحت گرفتار کیاگیا ہے جن میں نامور وکلاء اور صحافی بھی شامل ہیں یہ وہ افراد ہیں جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم انداز میں خلاف ورزیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ انتہاء پسند ‘بی جے پی’ اور اس سے منسلکہ ‘بَجرنگ دَل’،’وِشوا ہندو پریشد’ اور ‘مہاراشٹرا ناونِرمن سینا’ جیسے جتھوں کے کارکن ریاست مہاراشٹرا میں مسلمانوں کی دکانوں، مساجد اور مزارات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں۔
مودی کا نظریہ نسلی اور مذہبی منافرت کی مہم کے سوا کچھ نہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے ہندوتوا اور فاشزم پر مبنی نظریات امن کیلئے خطرہ ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کو سمجھنا چاہیے کہ بھارت میں اقلیتیں مذہبی منافرت سے تحفظ اور مذہبی آزادی کا مساوی حق رکھتی ہیں۔ نریندر مودی فاشسٹ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ تھے جو نسلی برتری کے نظریے پر یقین رکھتے تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں خوف پھیلا کر اپنے ووٹ بینک میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا۔