وجود

... loading ...

وجود

کشمیری انصاف کے منتظر

اتوار 24 نومبر 2024 کشمیری انصاف کے منتظر

ریاض احمدچودھری

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شکار کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹ قرار دے دیا۔ تنظیم نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ جموں و کشمیر سے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کو واپس لیا جائے، یہ قانون انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بالخصوص قتل، تشدد، آبروریزی اور اغوا کے واقعات کا باعث بن رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افسپا کے علاوہ پبلک سیفٹی ایکٹ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث ہے، صرف 2014ء کے دوران اس قانون کے تحت 16329 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 1990ء کے بعد 43 ہزار افراد مارے گئے ان میں 13226 عام شہری تھے، دوران حراست 800 افراد کی موت واقع ہوئی۔
مقبوضہ کشمیرمیں 31اکتوبر 2019کو بھارتی حکومت کی طرف سے نافذ کئے گئے پانچ سالہ صدارتی راج کے دوران قتل و غارت اور گرفتاریوں سمیت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکا سلسلہ جاری رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج ہٹائے جانے کے بعد جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی فورسز نے اس عرصے کے دوران 17 خواتین اور 31کمسن لڑکوں سمیت933کشمیریوں کو شہید کیاجن میں سے 240کوجعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا ، بہت سے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے گرفتارکرکے عسکریت پسند یاان کے معاون قراردیکر دوران حراست میں شہیدکیاگیا۔ گرفتارنوجوانوں میں سے زیادہ تر کے خلاف” پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے” جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ صدر راج کے دور میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت، گرفتاریاں، جائیدادوں کی ضبطی اور سرکاری ملازمین کی برطرفی بھی دیکھنے میں آئی جبکہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک ، ا?سیہ اندرابی اور دیگرسرکردہ حریت رہنمائوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرکے مختلف بھارتی جیلوں میں نظر بند کیا گیا۔ بھارتی فوجیوں نے رواں سال اب تک 79کشمیریوں کو شہید کیا جن میں سے 39کو جعلی مقابلوں میں یا ماورائے عدالت شہید کیا گیا۔ محاصرے اور تلاشی کی پرتشددکارروائیوں کے دوران 4ہزارسے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ صدر راج 13اکتوبر ہٹا دیا گیا لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم وجبر کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
بی جے پی حکومت کی نئی میڈیا پالیسی سے جو 2020ء میں متعارف کرائی گئی، مقبوضہ جموں و کشمیر میں معلومات تک رسائی کو روکا گیا جبکہ صحافیوں کو مسلسل گرفتار اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے ہزاروں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے جس کا مقصد مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنا ہے۔ آزادی پسند رہنمائوں کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں اور ہندوئوں کے حق میں اسمبلی حلقوں کی حلقہ بندیاں کی گئیں۔ اس ظلم و بربریت کے باوجود کشمیری استصواب رائے کے مطالبے سمیت اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کے لیے پرعزم ہیں۔لندن کی برٹش لائبریری میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے نے معروف PENپنٹر پرائز وصول کرتے ہوئے اس موقع پر حق خود ارادیت کے لیے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد کو اجاگر کیا۔اروندھتی رائے نے انسانی حقوق کے کشمیری کارکن خرم پرویز سمیت نظربند صحافیوں، کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ ایوارڈ ادبی خدمات اور فکری تصانیف کے ذریعے معاشرتی سچائیوں کو بے نقاب کرنے والے مصنفین کو دیا جاتا ہے۔
2018 میں، اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے، کشمیر میں گورنر راج کے تحت چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد ریاست میں صدر راج نافذ کر دیا تھا۔ انہوں نے ہی ریاست میں مرکزی حکومت کے نظام کے نفاذ کے اعلان پر دستخط کیے تھے۔اس سے قبل اسی برس جون میں محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت سے بی جے پی نے حمایت واپس لے لی تھی، جس کے بعد ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پھر جموں وکشمیر سیاسی بحران میں ڈوبتا چلا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کو پانچ اگست 2019 کو منظور کروایا اور اس طرح آئین کی دفعہ 370 کے تحت اسے حاصل خصوصی اختیارات کو ختم کر دیا اور ریاست کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاست دانوں اوربھارت میں آزاد ذہن رکھنے والے سیاسی تبصرہ نگاروں کا یہ ہی خیال ہے کہ اس علاقے میں تعینات پانچ لاکھ سے زیادہ فوج اور 2019 میں عام انتخابات کے پس منظر میں اس بات کی امید بہت کم ہے کہ یہاں خون ریزی تھم جائے۔
سابق بھارتی وزیر خارجہ اوربھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے دو مرتبہ دورے کے دور ان انکی وہاں ایک سینئر حکومتی شخصیت سے ملاقات ہوئی جس نے انہیں بتایا کہ میکاولی اور چانکیہ کی طرح ہر ایک کا کوئی نہ کوئی ریاستی نظریہ یا پالیسی ہوتی ہے لہٰذا بھارت کی بھی کشمیرکے حوالے ایک پالیسی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی باغی کو ختم کرنے کیلئے طاقت کا استعمال۔ جہاں تک بھارت کی کشمیر پالیسی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے غلطیاں ہی غلطیاں کی گئی ہیں۔ بھارت کی حالیہ حکومت اتفاق رائے، جمہوری یا انسانی طریقوں سے مسائل کے حل میں یقین نہیں رکھتی بلکہ وہ صرف طاقت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا جانتی ہے اور یہ بات کشمیریوں کے دلوں میں بھارت کیلئے مزید نفرت کا سبب بن رہی ہے۔ یوں کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم صرف اور صرف فورسز کے سہارے کشمیر پر قابض ہیں۔بھارت کی مسلم اکثریت والی ریاست کشمیر میں جس کی کل آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ کے قریب ہے حریت پسندوں کو بھر پور عوامی حمایت حاصل ہے۔لیکن مودی حکومت حریت پسندوں اور پاکستان سے اس مسئلہ پر بات چیت کرنے کے معاملے پر سخت گیر موقف اپنائے ہوئے ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر