... loading ...
زریں اختر
اگر ما ںہی بیٹے کے سر پر غموں کا پہاڑ توڑ دے تو؟یہ ایسا واقعہ ہے کہ اس کی نوعیت کو الفاظ نہیں دے پا رہی کہ اندوہ ناک لکھوںیا ہیبت ناک ؟ حسد کی آگ کیا اتنا اندھا بھی کر سکتی ہے ؟ ایسی انسانیت سوز قتل کی سازش جوگھر کی عورتوں نے گھر کی اکیلی عورت کے لیے گھڑی کہ اس کا شوہر روز گار کے سلسلے میں سعودیہ عرب میں تھا۔ جس طرح آگ بھڑکتی اور پھیلتی ہے اور کچھ نہیں دیکھتی بالکل اسی طرح حسد کی یہ اندھی آگ بھی پھیلی اورپورا گھر بھسم کر ڈالا ۔ اب قدیر(مقتولہ کا شوہر) کس دل کے ساتھ اس مکان میں قدم رکھے جسے اس کی ماں اور بہن نے اس کی بیوی ، اس کے بچے اور ایک ہونے والے بچے کی ماں کے لیے قتل گاہ بنا دیا ؟ اس خوف ناک آگ کی تپش میںاس کے بیٹے، پوتے اور باپ سب کی زندگیاںجھلس گئیں ۔ حسد و جلن کی اس آگ نے اتنا اندھا کیا کہ وہ عورتیں اپنے ابدی انجام کی تو کیا فکر کرتیں وہ دنیا میں بھی اپنے انجام سے بے خبر ہوگئیں کہ ایک خبر یہ بھی آئی کہ جب وہ حوالات یا جیل پہنچیں تب بھی آنکھوں پہ بندھی حسد کی پٹی کھلی نہیں تھی اور وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ’ کیا یہاں لوگ نہیں رہتے ؟ کیا یہ انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں؟رہیں، اب رہیں گی تو پتا چلے گا کہ کتنا رہنے کی جگہ ہے۔جیل کی ایک رات بھی بہت ہے اور ابھی تو ہزاروں راتیں باقی ہیں ،گھر کی چھت ہی نہیں گنوائی ،رشتے ہی پامال نہیں کیے ، ہاتھ ہی خون سے نہیں رنگے ،دین و دنیا گنوائی ہیں۔وہ عورت جسے بیٹے کی خوشی نہ بھائے بلکہ وہ الٹا حسد میں جلنے لگے اور اس میںاتنی اندھی ہو جائے(میں یہاں قتل کی تفصیلات نہیں دہرا سکتی) تو اس کا آخری مقام جیل کی کال کوٹھڑی ہی ہونی چاہیے اور اس کو آخری سانس تختہ دار پر ہی آنی چاہیے۔
یہ واقعہ مرکزی ذرائع ابلاغ پر اور یوٹیوب چینلوں پرتو مستقل بیان ہورہا ہے۔ یوٹیوبر شاہد ثقلین نے قاتلہ ماں کے اس بیان پر کہ” بیٹا پیسے بیوی کے اکائونٹ میں بھیجتا تھا اور بیوی ماں کو دیتی تھی”، تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیٹے کو چاہیے تھا کہ ماں کے نام سے ایک اکائونٹ الگ بنوا دیتا اور اس میں اس کو الگ سے پیسے بھیج دیا کرتا۔یہ باتیں اگرچہ کہ اب پچھتاؤں کے ذیل میں ہیںاور شاہد صاحب نے بھی یہ جس طرح بیان کیاتھا کہ جیسے اب یہ سب کہنے کا کیا فائدہ۔ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ شکایت بیٹے سے کرنی تھی ، جو کہنا سننا تھا وہ بیٹے سے تھا ۔دوسری طرف بیٹے کو طلاق کا مطالبہ اور بہو پر بد چلنی کا الزام لگانے والی ماں پر بھروسہ نہیں کرناتھا۔ کرداری خصوصیات سے عاری اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل رشتوں کی تقدیس کبھی کبھی کیسی بھاری پڑ جاتی ہے۔
خیال پر کو ئی گرفت نہیں، لیکن عمل پر ہے ۔ قتل کا خیال جس کو آیا ، ساس نند میں سے کسی کے منہ پر یوں آیا ہوگا کہ ‘دل کرتا ہے کہ اس کی جان ہی لے لوں’ اور دوسرے نے کہا ہوگا کیوں نہیںلے سکتے۔ اس موقع پر اگر اندر سے کوئی آواز نہیں آئی کہ یہ کیا سوچ رہی ہو؟ یا زبان پر آنے پر سننے والے نے نہیں ٹوکا کہ یہ کہہ بھی کیسے سکتی ہو؟ نہ خیال اندر ہی روکنے والی سوچ آئی نہ زبان پر آنے پر باہر سے رد آیا ۔عورتوں کے درمیان یہ پہل جس نے بھی کی ،بات قتل تک پہنچی ، حسد کی چنگاریوں کو ہوا مل گئی ۔
زہرہ کی اور اس کی نند یاسمین کی جو تصویریں میڈیا پر آئیں ، یہ بھی یو ٹیوبر شاہد ثقلین نے بتایا کہ زہرہ کے بارے میں لوگوں کاکہنا ہے کہ ‘ وہ سنجیدہ طبیعت کی تھی اور کچھ عرصے قبل ماں کے انتقال کے بعد اور بھی سنجیدہ رہنے لگی تھی ‘۔ اس کی تصویر میں بھی اگرچہ کہ اس کے لباس سے معلوم ہورہا ہے کہ کسی تقریب کی ہے لیکن چہرے پر ہنسی تو دور کی بات ہلکی سی مسکراہٹ بھی نہیں ہے ، یہاں تک کہ آنکھیں بھی خاموش ہیں۔ دوسری طرف یاسمین کی تصویر کہ اگر ان کے شخصی محاسن و عیوب کے متعلق نہ بھی بتایا جائے تو چہرے کے تاثرات سے کوئی اندازہ لگا سکتاہے اور تفتیشی ماہرین بھی بتا سکتے ہیںکہ یاسمین کے دیکھنے کا انداز اور آنکھوں کا تاثر اس کی مزاج کی تیزی اور ذہن کے سازشی ہونے کی نشان دہی کررہا ہے ۔
یوٹیوبر نے جو خبریں دیں ، اس میں یہ بھی تھا کہ زہرہ اپنے باپ کے گھر رہ رہی تھی تو اس کی ساس اسے آکر لے گئیں، یہ بھی کہ زہرہ نے قتل کی واردات سے ایک دن قبل کچھ ایسا تذکرہ بھی اپنے باپ سے کیا کہ وہ کچھ نامناسب یا غلط سا ماحول میں محسوس کررہی ہے ، لیکن جیسا کہ ہم اپنے بہت سے احساسات کو خود ہی وہم سمجھ کر رد بھی کردیتے ہیں ، حالا ںکہ اس کا باپ پولیس میں ہے ، اس کے باوجود اسے معصومیت نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ زہرہ اپنے کمرے کا دروازہ کھلار کھ کر سوتی تھی ۔ اس کی معصومیت نے ایک خیال کو وہم سمجھ کر رد کر دیا اور ان عورتوں کی سفّاکیت کہ قتل کے شیطانی خیال کواس کے ہولناک انجام تک لے گئیں۔
یوٹیوبر مہرین سبطین نے وہ محاورہ بولا جو زہرہ کے شوہر قدیر کے لیے میرے ذہن میں تھا کہ اس پر تو غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔کبھی کوئی بیماری بھی ناگہانی کی طرح گھیر لیتی ہے، حادثہ ایک الگ ناگہانی ہے ، دہشت گردی اس سے بڑھ کر ناگہانی ہے ، جنگی صورت ِ حال تو المیوں کا سلسلہ ہے ، اور اس طرح کا واقعہ ؟
میاں بیوی کے رشتے کے درمیان کسی کا آنا ، دوری پیدا کرنا ، دراڑ ڈالنا،مذہبی و اخلاقی تعلیمات کے مطابق گناہِ عظیم ہیں کہ یہ کام شیطان کے چیلے ہی انجام دیتے ہیں ۔ کوئی بیماری کسی سے اس کا محبوب ساتھی چھین لے ، کوئی حادثہ ، کوئی اندھی گولی ۔۔۔غم اپنی جگہ ہے لیکن بہت فرق ہے۔
کون کہہ سکتا ہے کہ کسی کی جوان اولاد بیماری سے جاں بحق ہوجائے تو اس میں، روڈ ایکسیڈنٹ میں مر جائے تو اس میں اور پشاور اسکول میں شہید ہونے والے بیٹوں کی اموات میںکوئی فرق نہیں ؟جہاں دکھ اور غم کی نوعیت کا پیمانہ بدلا وہاں لواحقین کے لیے صبرکا پیمانہ بھی بدل جاتاہے، بدلنا پڑجاتا ہے ۔
یہ کہنا بڑا آسان ہوتاہے کہ میں تمہاری جگہ ہوتا تو یہ کرتا، کوئی بھی قدیریا زارا کے باپ کے دکھ کا اندازہ نہیں کرسکتا۔ زارا کے بیٹے پر جو ماں کی اچانک جدائی کیا لاشعوری اثرات مرتب کررہی ہے؟ وہ اس افراتفری کے ماحول میں کیا محسوس کررہا ہے ؟ اس کی سمجھ میں کیا آرہا
ہے؟ اس کے لیے قدیر کو چاہیے کہ کسی ماہر نفسیات سے ضرور رابطہ کرے کہ وقت گزرنے کے ساتھ جب حقیقت اس کے سامنے آئے تو اس کے ان اثرات کو جو خود اس کی شخصیت کی بڑھوتری کے لیے مضر ہوں ، کیسے زائل کیا جاسکتاہے اور اس کو کیسے ان اثرات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
قدیر اپنی ماں کو کیسے معاف کرسکتاہے؟ اس کی ماں نے (کیوں کہ تمام قاتلین میں وہی گھر کی بڑی تھی ) اس کی بیوی پر ظلم کیا ، اس پر ظلم کیا ، اس کے باپ پر ظلم کیا اور اس کے بیٹے پر ظلم کیا اور اس ان دیکھی روح پر ظلم کیا ۔
قدیر اپنی ماں کو اپنی بیوی کا قتل معاف کرسکتاہے لیکن کیا وہ اپنے ڈھائی سالہ بیٹے اور اپنی اس اولاد کا قتل بھی معاف کرسکتاہے جو دنیا میں نہیں آئی ؟ کیا زارا کا باپ اپنی اکلوتی بیٹی کا قتل معاف کر رہاہے ؟
انصاف کا تقاضا کیا ہے؟