... loading ...
سمیع اللہ ملک
نائن الیون کے بعدباقاعدہ ایک سازش کے تحت پینٹاگون کے کرنل رالف پیٹرنے خطے کے جاری کردہ نقشے میں پاکستان کے کئی ٹکڑے دکھاتے ہوئے تاریخوں کاتعین بھی کیالیکن ہرسال اپنی خباثت کوچھپانے کیلئے مختلف توجیہات سامنے لاتارہا۔ پاکستانی میڈیا میں جب ہرطرف سناٹاتھاتواس وقت بھی قلمی دلائل کے ساتھ اس کامفصل جواب دیتارہا اورآخر میں28اگست2017 کومیں نے ایک آرٹیکل”کیاامریکاٹوٹ جائے گا”جب تحریرکیاتواس وقت چاروں طرف سے کئی جغادریوں نے یورش کردی اورکئی ایک امریکاکے نمک خواروں نے بھکاری کی خواہش قراردیتے ہوئے بڑاتمسخراڑایا لیکن آج خودامریکا کی کئی امیرریاستوں میں یہ مطالبہ سامنے آناشروع ہوگیاہے کہ ہماری ریاستوں کاٹیکس جنگی جنون کی تکمیل کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چاہے اس کیلئے یونائیٹڈاسٹیٹ آف امریکاسے چھٹکارا کیوں نہ حاصل کرناپڑے ۔گویاسوویت یونین کے طرح امریکابھی اب ٹکڑے ہونے جا رہاہے۔
آج سے چندماہ قبل بھی کیاکوئی سوچ سکتاتھاکہ ایک متکبرشخص ٹرمپ جب ننگرہارپرغیرجوہری بموں کی ماں کے نام سے موسوم سب سے بڑابم گراکردنیاکویہ کہہ کرڈرائے گاکہ امریکاجب چاہے اس دنیاکوپانچ منٹ میں خاکسترکرسکتاہے لیکن میرے رب کی طاقتوں کانہ دکھائی دینے والاایک انتہائی چھوٹاجراثیم کوروناوائرس کی شکل میں ایساواردہواکہ اس نے پوری دنیاکو ہلاکر رکھ دیا ہے۔واحدسپرپاوراوراس کے اتحادی بھی پریشان ہوگئے۔پریشان کیسے نہ ہوتے؟ معیشت کاپہیہ مکمل طور پررک چکا تھا۔ پیداواری عمل معطل ہوگیا تھا ۔تجارتی سرگرمیاں ایسی ماندہوئیں کہ امریکی پیٹرول پانی سے بھی سستاہوگیاہے۔تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔صارفین کااعتمادخطرناک حدتک ایسامجروح ہواکہ ابھی تک پوری طرح بحال ہونے کانام نہیں لے رہا۔اگرکوروناکی وباجلدختم نہ ہوتی توخطرہ کالارم بج اٹھاتھاکہ امریکاکے مالیاتی اورزرعی طور پر دیوالیہ ہونے پرایک ایسے معاشی بحران کو روکناممکن نہ ہوگاجوامریکا کے ساتھ ساتھ باقی دنیاکوبھی لپیٹ میں لے گااور معاملات کوانتہائی خرابی تک پہنچادے گا ۔
کورونانے عالمی معیشت کے بنیادی ڈھانچے کی بہت سی خامیوں اورکمزوریوں کوبے نقاب کردیا۔وباکے ہاتھوں عالمی معیشت کی مشکلات کئی گناہوچکی ہیں۔اس وباکے پھیلنے سے قبل ہی امریکامیں یہ خیال عام تھاکہ رواں بجٹ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا گراف ہزارارب ڈالرتک پہنچ جائے گالیکن امریکامیں کرنٹ اکاؤنٹ کاخسارہ دوہزارارب ڈالرکی حدچھوجانے سے دیگرقرضے بھی معیشت پر غیرمعمولی بوجھ کی صورت میں بڑھ گئے اوریہی وجہ ہے کہ صدربائیڈن کوامریکی قوم کواپنے خطاب میں بتانا پڑاکہ اگرامریکی سینیٹ نے مزیدقرض لینے کی منظوری نہ دی توامریکاکودیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں بھی معاشی حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق اسرائیل دیوالیہ ہوچکاہے اورنیتن یاہو جنگ کی آڑمیں اپنے اقتدارکوبرقراررکھنے کادھوکہ دے رہاہے۔
کاروباری سرگرمیاں جوکوروناکی وجہ سے ماندپڑچکی تھیں،اس کی بناپربینکاری نظام ابھی تک ڈھنگ سے کام نہیں کررہا۔آج بھی ہزاروں نہیں لاکھوں افراداپنے گھروں سے کام کر رہے ہیں اورہزاروں بینک کی برانچیں یاتوبندکردی گئی ہیں یاایک دوسرے میں ضم کردی گئی ہیں جس کی بنیادپرہزاروں عمارتیں خالی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کاماتم کرتے دکھائی دے رہی ہیں۔اس کے نتیجے میں ہزاروں افرادکوبیروزگاری کاسامناکرناپڑگیاہے۔حکومت کوٹیکس اور ڈیوٹی کی مدمیں ہونے والاخسارہ الگ ہے۔2008 کی کسادبازاری میں وفاقی ٹیکسوں کی مدمیں امریکی خزانے کو400ارب ڈالرسے زیادہ کانقصان برداشت کرناپڑاتھاجومسلسل جاری ہے۔اوراب حالت یہ ہے کہ اس بارامریکی خزانے کووفاقی ٹیکسوں کی مدمیں اِس سے کہیں زیادہ نقصان کاسامناکرناپڑے گا ۔سماجی بہبودکے کھاتے میں اس بار غیرمعمولی رقوم خرچ کرناپڑیں گی۔اس کیلئے الگ سے فنڈمختص کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی کیونکہ نظام کچھ ایساہے کہ ضرورت کے مطابق فنڈنگ خودبخودبڑھ جاتی ہے۔امریکی بجٹ میں کرنٹ اکاؤنٹ کاخسارہ کتنارہے گا،اس حوالے سے ماہرین مختلف اندازے قائم کر رہے ہیں۔بعض ماہرین کاکہنا ہے کہ صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے۔ ہوسکتاہے کہ بجٹ خسارہ چارسے پانچ ہزارارب ڈالرسے کہیں زیادہ کاہو۔اگر ایسا ہوا تو امریکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچانا انتہائی دشوارہوگا۔
2019میں امریکاکی خام قومی پیداوارکے حوالے سے تخمینہ21ہزارارب ڈالرتک لگایاگیاتھا۔تب کوروناوباکانام ونشان بھی نہ تھا۔ اب معاملات یکسرتبدیل ہوچکے ہیں۔ معیشتی سرگرمیاں ماندپڑچکی ہیں۔ایسے میں خام قومی پیداوارسے متعلق تخمینوں کاغلط ہو جانابھی حیرت انگیز نہ تھا۔اس کے نتیجے میں2020میں15فیصدکمی سے امریکاکی خام قومی پیداوار18ہزارارب ڈالرتک پہنچ گئی۔ایسی صورت میں امریکاکاکرنٹ اکاونٹ کاخسارہ خام قومی پیداوارکے28فیصدسے بھی زائدہوگیاہے۔بہت سے ماہرین کاخیال ہے کہ یوکرین کی جنگ کابوجھ ہی ناقابل تلافی تھا کہ اب اونٹ کی کمرپرآخری تنکے کے مصداق حالیہ اسرائیل کی مشرقِ وسطیٰ میں درندگی کابوجھ ممکنہ تباہی کے بھوت کی طرح سرپر کھڑا ناچ رہاہے تاہم عالمی مالیاتی اداروں کو بھی اپنی بقاکامسئلہ درپیش ہے اوریقیناوہ اپنایہ سارابوجھ تیسری دنیاکے مقروض ملکوں کی رگوں سے نچوڑنے کیلئے آئے دن نئی پابندیوں کے ساتھ حملہ آورہورہی ہیں جس کے نتیجے میں بالآخرتیسری دنیاکے عوام اپنی حکومتوں کے خلاف ایساردعمل دینے پرمجبورہوجائیں گی جس کی بنا پرعالمی طورپرکسادبازاری میں ایسا اضافہ ہوجائے گاکہ عالمی اقتصادی قحط کاجن نئے اندازسے عالمی تباہی کاموجب بن جائے گا۔
یہ ذہن نشیں رہے کہ یہ اعدادوشماربھی حتمی نوعیت کے نہیں۔یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکاکاکرنٹ اکاؤنٹ کاخسارہ اس بار اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے شدیدمنفی اثرات سے بچنے کیلئے فنڈنگ کااہتمام تقریباناممکن ہوجائے گا۔ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سودکی شرح میں اضافے کا امکان دکھائی نہیں دیتااورسچ تویہ ہے کہ سودکی شرح میں کمی ہی واقع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب زیادہ منافع کی امیدہی نہ ہوتوسرمایہ کاروں کوکس طورمتوجہ کیاجاسکے گا۔امریکامیں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والوں کوزیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانے پرآمادہ کرنااب جوئے شیرلانے کے مترادف ہوگا۔امریکامیں زیادہ سرمایہ کاری چین اور خلیجی ریاستوں،بالخصوص متحدہ عرب امارات کی ہے۔ چین کوبیرونی طلب میں کمی کا سامناہے یعنی برآمدات کاگراف نیچے آرہا ہے۔دوسری طرف خلیجی ریاستوں کی تیل کی آمدن کاگراف بھی گر رہا ہے۔ ایسے میں امریکی پالیسی سازوں کوسوچناپڑے گاکہ امریکی معیشت کیلئے توانارکھنے کیلئے سرمایہ کہاں سے آئے گا۔چین اورسعودی عرب دنیابھرمیں سرمایہ کاری کی ری سائیکلنگ کے حوالے سے سب سے اہم عوامل کادرجہ رکھتے ہیں۔اگر ان کی طرف سے سرمائے کابہاؤ متاثرہواتوعالمی منڈی میں امریکی ڈالرکی پوزیشن کمزورہوجائے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکاکواپنی معیشت کاتیاپانچاروکنے کیلئے کیاکرناچاہیے۔اس مرحلے پرامریکاکیلئے وہی آپشن بچاہے،جو 2008 کی کسادبازاری کے موقع پربچاتھایعنی یہ کہ کسی بھی اورسرمایہ کارکے آگے بڑھنے کاانتظارکیے بغیرامریکاکواپنے ٹریژری بونڈخودخریدناپڑیں گے۔امریکاکامرکزی بینک اس حوالے سے کلیدی کرداراداکرے گا۔ایسانہیں ہے کہ امریکا میں صرف کرنٹ اکاؤنٹ کایابجٹ خسارہ سر پر کھڑاہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکامیں کارپوریٹ سیکٹرکے قرضوں کابحران بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔یہ قرضے کم وبیش دس ہزارارب ڈالرسے کہیں زیادہ ہیں جوامریکی معیشت کے مجموعی ٹرن اوورکا50فیصدسے بھی زائد ہے۔معاملات کومزید خراب کرنے والی حقیقت یہ ہے کہ ان میں بیشتر قرضے نان انوسٹمنٹ گریڈکی کمپنیوں کے جاری کردہ ہیں اوراِن قرضوں کی حیثیت کچرے سے زیادہ کچھ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکی معیشت کاپہیہ رک چکاہے۔اس کے نتیجے میں سا لمیت بھی متاثرہے۔معیشت مزید خرابی کی طرف جائے گی۔ بہت سے ادارے دیوالیہ ہوجائیں گے۔یہ سب کچھ امریکی بینکاری نظام کے منہ پرزوردارطمانچہ ہوگا۔سینڈیکیٹیڈقرضوں کو بونس سمجھئے۔ کارپوریٹ بونڈکے ایک بڑے حصے کابلاواسطہ یابالواسطہ تعلق توانائی کے شعبے سے ہے ۔ توانائی کاشعبہ بھی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ماہرین کااندازہ ہے کہ عالمی پیداوارکے20فیصدکے مساوی اضافی صلاحیت ہے۔
چین کے اپنے مسائل ہیں۔چینی قیادت نے کچھ عرصے سے اپنے چندبنیادی معیشتی مسائل کوحل کرنے کے بجائے چھپانے کو ترجیح دی ہے۔ یہ حقیقت نظراندازکردی گئی ہے کہ کوئی بھی مسئلہ حل کرنے سے حل ہوتاہے،چھپانے سے ختم نہیں ہوتااورنہ ہی اس کے اثرات میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔یورپی یونین نے معاملات کوسلجھانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ یورپین سینٹرل بینک(ای سی بی)کے ذریعے کچھ وزن ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جرمنی اورچنددوسرے ارکان ایساکرنے کے خلاف ہیں۔ کوئی بھی اپنی کرنسی کوداؤپرلگانے کیلئے تیار نہیں۔ ای سی بی نے گزشتہ چندبرس قبل850ملین یورو مالیت کے سرکاری اورکارپوریٹ بونڈخریدنے کااعلان کیاتھاجس پرابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ یورپی یونین میں اندرونی سطح پرکس نوعیت کے مسائل پنپ رہے ہیں۔ایسالگتاہے کہ واشنگٹن کے قانون سازہرحال میں کسادبازاری کوروکناچاہتے ہیں۔یہ بجائے خودایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔کسی بھی معاشی خرابی کو مصنوعی طریقوں سے روکنے کی کوشش مزید مسائل کوپیداکرنے یاپہلے سے موجودمسائل کومزید سنگین کردیا کرتی ہے۔حکومتی سطح پرچاہے کتناہی بڑا بیل آؤٹ پیکیج دیاجائے،معیشتی خرابی کوروکناممکن نہیں ہوتا۔ بیل آؤٹ پیکیج کے نتائج کچھ مدت کے بعدظاہرہونے لگتے ہیں اورخرابیاں کھل کرسامنے آنے لگتی ہیں۔
امریکااوریورپ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جومعاشی سرگرمیاں رک گئی تھیں۔وہ ابھی تک پوری طرح بحال نہیں ہوسکیں۔اب بھی جو صنعتی یونٹ بندہوگئے تھے اورتجارتی اداروں کوتالالگ گیاتھا،اس کودوبارہ بحال کرنے میں مالیاتی مشکلات آڑے آرہی ہیں۔ لوگوں کی نقل وحرکت بھی محدودیابرائے نام ہے۔کوشش یہ کی جارہی ہے کہ خام قومی پیداوارمیں کمی واقع نہ ہو۔ایساتو ممکن ہی نہیں۔جب معیشت کاپہیہ رکاہواہو گاتوخام قومی پیداوارمیں کمی لازمی طورپرواقع ہوگی۔اس کمی کوروکنے کی کوشش کرنے کی بجائے اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ یہ کمی عارضی ہو۔
کوروناوباکے دوران کوشش یہ کی جارہی تھی کہ کسی نہ کسی طورکوئی بہت بڑابیل آؤٹ پیکیج میدان میں لایاجائے۔کوروناکے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال پردولت برساکر اس کے اثرات کومحدودرکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ جب یہ وباختم ہوگی اور معیشتی سرگرمیاں بحال ہوں گی تب مکمل بحالی کاعمل غیرمعمولی اقدامات کاطالب ہوگالیکن عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق تمام اندازوں کوحالات نے مات کردیاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیاامریکامالیاتی اورزرعی اعتبارسے دیوالیہ ہوچکاہے؟اگرکوروناکے بعدیوکرین کی جنگ کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگی اخراجات کے ہاتھوں پیداہونے والابحران امریکاکومالیاتی اورزرعی اعتبار سے دیوالیہ چھوڑکر رخصت ہواتوبھرپورمعاشی بحران کی حقیقت کوکیسے روکاجائے گا۔اس وقت امریکی پالیسی سازجوکچھ کررہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ امریکا مالیاتی اورزرعی سطح پرشدید ناکامی سے دوچارہے۔امریکی پالیسی سازوں کاکہنا ہے کہ دانش کاتقاضایہ ہے کہ جنہیں مالیاتی امدادکی غیرمعمولی ضرورت ہے انہیں مددفراہم کی جائے اورجن کی پوزیشن ذرابھی بہتر ہے،ان سے کہاجائے کہ مختصرعرصہ کیلئے خرابی کے اثرات کوکسی نہ کسی طور جھیلیں۔اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ معیشت کوکم ازکم عرصے تک ہولڈپررکھاجائے۔صرف ضرورت مندوں کی مددکی جائے۔صحتِ عامہ کے معاملات پرخاطرخواہ توجہ دی جائے۔
واشنگٹن میں بہت سوں کی رائے یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کاکریش کرجانااصل مسئلہ ہے۔یہ سوچ غلط نکلی۔معیشت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے وقت ٹرمپ اسٹاک مارکیٹ کوغیر معمولی اہمیت دیتے رہے۔کچھ مدت سے اسٹاک مارکیٹ میں جوکچھ ہوتارہااس کے نتیجے میں عارضی بنیاد پرکوئی بہتری لانے کی کوشش کی گئی یااسٹاک مارکیٹ کومصنوعی تنفس فراہم کرنے کی کوشش کی گئی تومعاشی اعتبار سے اعتماد بحال ہونے کی بجائے مزیدگرگیا۔ماہرین کے مطابق معیشت کوحقیقت میں بحال کرناہے،تواعتماد کی بحالی کوسب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔کسی بھی بڑی بحرانی کیفیت کے شدیدمنفی اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت کے اعتبارسے ٹرمپ انتظامیہ پرعوام کااعتمادبہت نچلی سطح پررہاجوان کے جانے کے بعدبائیڈن حکومت کو ورثے میں توملالیکن باوجودلاکھ کوششوں کے وہ اس بحران سے مکمل طور پرباہرنہیں نکل سکے اوراب صدارتی انتخاب میں امیدواروں نے دھڑلے سے ایک دوسرے کوموردِ الزام ٹھہراتے ہوے امریکا کی بربادی کاذمہ دار قرار دیا۔ اعتماد کے فقدان کاتعلق صرف مہارت تک یعنی معاشی پالیسی سازوں اوراندرون وبیرون ملک پروفیشنل سرمایہ کاروں تک محدودنہیں۔اس وقت50فیصدسے زائد امریکیوں کاخیال ہے کہ ٹرمپ اس منصب کیلئے موزوں نہیں جس کی وجہ کوروناسے نمٹنے کے حوالے سے ٹرمپ کی ناکام پالیسیوں کو قرار دے رہے ہیں۔باقی لوگوں کوچھوڑیے،ان کے پسندیدہ ”فوکس نیوز ٹی وی چینل” کودیکھنے والوں کے اعتمادمیں بھی اضافہ کرنے میں بھی ٹرمپ ناکام رہا۔
ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدارمیں شدیدتنقیدکے باوجودبھی معاملات کوسنجیدگی سے نہیں لیا،حقائق کوغلط اندازسے بیان کرتے رہے اور پالیسی کے حوالے سے غلطیوں پرغلطیاں کرتے چلے گئے۔اسٹاک مارکیٹ ہی کوسب کچھ گرداننے والے ٹرمپ کی سوچ کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے امریکی پالیسی سازوں کومعیشت کی تمام خامیوں اورخوبیوں کا جائزہ لیتے ہوئے متوازن اورقابلِ قبول پالیسی ترتیب دینی چاہیے تھی۔پالیسی سازوں کویہ بات کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کرنی چاہیے تھی کہ یہ سب کچھ کسی ریئلٹی ٹی وی کاپروگرام نہیں۔جس کے نتیجے میں اب امریکاکے معاشی اونٹ پرآخری تنکا کچھ یوں سامنے رہاہے کہ چین،روس کے علاوہ دیگردوملکوں نے آئندہ تیل کی خرید و فروخت اوراپنی تمام درآمد وبرآمدمیں ڈالرکوفارغ کرنے کامنصوبہ بنالیاہے گویاعالمی تجارت میں ڈالرکے استعمال سے یومیہ ڈھائی سوملین ڈالر کا کمیشن جواب کم ہوکرنصف رہ گیاہے،اب اس سے بھی محروم ہوناپڑے گا۔ گویااس کے بعدیہ پوچھنے کی ضرورت تو آن پڑی ہے کہ خودامریکاکی پانچ بڑی ریاستوں نے اپنے عوام کے ٹیکس کومزیدجنگی جنون میں خرچ کرنے پر شدیداحتجاج کرتے ہوئے آخری حدتک جانے کاعندیہ دے دیاہے توان حالات میں کیاامریکاٹوٹنے جارہاہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔