... loading ...
ریاض احمدچودھری
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے متعلق رپورٹیں جاری کی ہیں۔ اور بھارتی حکام سے مسلمانوں کی املاک کی “غیر قانونی” مسماری کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ایمنسٹی کے مطابق مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے بعد “سزا” کے طورپر ان کی املاک مسمار کی گئیں۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے املاک کی مسماری کو ماورائے عدالت سزا کی ایک شکل قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے کیونکہ مودی حکومت کے اس اقدام نے سینکڑوں لوگوں کو، جن میں بیشتر مسلمان ہیں، بے گھر اور ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا ہے۔ایمنسٹی نے جے سی بی تعمیراتی سازو سامان تیار کرنے والی کمپنی سے بھی مطالبہ کیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اپنی مشینوں کے استعمال کی عوامی مذمت کریں۔ اسی کمپنی کے بلڈوزر”بطور سزا” املاک کو مسمار کرنے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے ہیں۔
پانچ ریاستوں، آسام، گجرات، مدھیا پردیش، اترپردیش اور دہلی میں حکام نے مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے واقعات کے بعد “سزا” کے طورپر ان کی املاک مسمار کیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، کی ان پانچ میں سے چار میں حکومت ہے۔بھارتی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی مسماری، جسے سیاسی لیڈران اور میڈیا ‘بلڈوزر انصاف’ کہتی ہے، ظالمانہ اور خوفنا ک ہے… وہ خاندانوں کو تباہ کررہے ہیں۔ اسے فوری طورپر روکا جانا چاہئے۔دہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھادہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھا۔ ایودھیا شہر میں وزیر اعظم مودی کے ذریعہ رام مندر کے افتتاح کے بعد فرقہ وارانہ تشدد بھڑکنے کے بعد بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا۔اس سے قبل قومی دارالحکومت دہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھا۔ 2021 میں اترپردیش کے بارہ بنکی ضلع میں 100سال قدیم مسجد کو منہدم کردیا گیا جب کہ 2023 میں پریاگ راج شہر میں سڑک کی توسیع کے نام پر سولہویں صدی کی ایک مسجد مسمار کردی گئی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص یوگی آدیتیہ ناتھ کے اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے، جنہوں نے فوری انصاف کی فراہمی کے نام پر ملزمین کی املاک کو مسمار کردینے کی پالیسی شروع کی۔ ان کے بعد بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ قانونی ماہرین اسے بھارتی قانون کے خلاف قرار دیتے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن’بلڈوزر انصاف’ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے کسی بھی شخص پر الزام لگنے یا جرم ثابت ہونے کے بعد اس کا گھر گرائے جانے کو انسانی حقوق کے خلاف اور ماورائے قانون قرار دے دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بلڈوزر جسٹس کیس میں فیلصہ سناتے ہوئے انتظامیہ کو قانونی عمل کی پیروای کے بغیر کسی کا گھر گرانے سے روک دیا۔ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کسی بھی گھر کو گرانے سے 15 دن قبل اس گھر کے لوگوں کو نوٹس دے گی اور انتظامیہ نوٹس میں گھر کی غیرقانونی تعمیر’ مجوزہ قانون کی خلاف ورزی اور گھر گرانے کی مخصوص وجہ بتائے گی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ انتظامیہ عدلیہ کے اختیار خود استعمال کر کے کسی کو مجرم قرار دے کر اس کا گھر نہیں گرا سکتی’ گھر گرا کر لوگوں کو اجتماعی سزا دینا ٹھیک نہیں۔ سپریم کورٹ نے جمعیت علماء ہند اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔ بھارت میں ‘بلڈوزر جسٹس’ کا لفظ سال 2020ـ21ء میں ہونے والے کچھ واقعات کے بعد سامنے آیا جب کچھ ریاستوں میں حکومتی زمین خالی کرانے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے بلڈوزروں کے ذریعے گھر گرائے جانے لگے۔ زیادہ کیسز میں بھارتی مسلمان اس کا نشانہ بننے لگے۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ‘بلڈوزر جسٹس’ کے تحت کسی بھی شخص پر محض الزام لگا کر انتظامیہ کی جانب سے اس کا گھر گرا دیا جاتا ہے اور انہیں بے گھر کر دیا جاتا ہے جبکہ جن ریاستوں میں محض الزام کی بنیاد پر گھر گرائے گئے ان میں سے اکثریت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ بی جے پی کے رہنماوں کا دعویٰ ہے کہ مسماری کے یہ واقعات دراصل غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ہیں اور صرف مجرموں یا بدمعاشوں کی ملکیت کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ افراد مسماری کے واقعات پر جشن بھی مناتے ہیں۔سول سوسائٹی کے اراکین، سماجی کارکنان اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ عمارتوں کو اس طرح مسمار کرنا مسلمانوں جیسی اقلیتی برادری کے خلاف “ٹارگٹڈ وائلنس” کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔
بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تعلق رکھنے والی سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے دہلی میں مسماری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کو تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔