وجود

... loading ...

وجود

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

جمعرات 21 نومبر 2024 آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

ریاض احمدچودھری

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے دورہ آسٹریلیا کے دوران ان سے ملاقات میں آسٹریلوی وزیر خارجہ پینی وونگ نے کینیڈا میں سکھوں کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکھ برادری سمیت دیگر لوگوں کو آسٹریلیا میں محفوظ پناہ اور احترام کا حق ہے، ہم کینیڈا کے عدالتی عمل کا احترام کرتے ہیں اور ان واقعات کی صاف و شفاف تحقیق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور تمام ممالک کی خودمختاری جیسے معاملات کے سلسلے میں ایک اصولی موقف موجود ہے۔کینیڈا واحد ملک نہیں جس نے بھارتی اہلکاروں پر غیر ملکی سرزمین پر قتل کی سازش کرنے کا الزام لگایا۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر سمیت کئی سکھ رہنماؤں کے ناموں پر مشتمل فہرست دی گئی تھی۔ کینیڈا کی حکومت نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل کا حکم بھارتی انٹیلی جنس نے دیا تھا۔بھارت کی دیگر ممالک میں تخریب کاری اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ خفیہ ایجنسی ”را” کے عالمی سطح پر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے دہشت گردانہ منصوبے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ نے بھارت کی ایک نہ سنی اور بھارتی احتجاج کے باوجود نیوزی لینڈ کی حکومت نے سکھ فار جسٹس کو خالصتان کے قیام کیلئے ریفرنڈم کرانے کی اجازت دے دی۔ نیوزی لینڈ کی حکومت کی اجازت سے خالصتان کے قیام پر آکلینڈ میں ریفرنڈم ہو گیا۔ اس سے قبل برطانیہ کے علاوہ کینیڈا اور آسٹریلیا کے شہروں میں بھی ایسے ریفرنڈم منعقد کئے جا چکے ہیں۔ ریفرنڈم کا انعقاد آکلینڈ کے مرکزی علاقے او ٹی سکوائر پر ہو ا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ریفرنڈم سے بھارت اور نیوزی لینڈ کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔آکلینڈ کے مرکز میں واقع او ٹی سکوائر پر خالصتان ریفرنڈم کے لیے صبح نو بجے ووٹنگ کا آغاز ہوا۔ دیگر شہروں سے بھی سکھ کمیونٹی کی بڑی تعداد کوچز کے ذریعے آکلینڈ پہنچی۔ ووٹنگ سے پہلے دعائیہ تقریب رکھی گئی جس میں خالصتان کے قیام کے لیے دعائیں کی گئیں اور بھارت کے ہاتھوں مارے گئے تحریک کے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ سکھ شہریوں نے خالصتان کے حق اور بھارت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ خواتین اور معمر افراد نے بھی قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ ریفرنڈم کے مقررہ وقت میں ایک گھنٹے کا اضافہ کرنا پڑا۔ 37 ہزار سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ سکھ فار جسٹس کے کونسل جنرل گرپتونت سنگھ پنوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہا کہ نام نہاد جمہوری ملک کا دعویدار بھارت ووٹ پر یقین رکھنے والوں کا مقابلہ گولی سے کرتا ہے۔ مودی اور امیت شا کی سیاسی موت سکھوں کے ہاتھوں لکھی ہے۔ ریفرنڈم کا اگلا مرحلہ آئندہ برس 23 مارچ کو لاس اینجلس میں ہوگا۔سکھ گولی کا جواب گولی سے دے سکتے ہیں لیکن ہمارا مشن آزادی یا شہادت ہے۔
خالصتان کا پہلا باضابطہ مطالبہ 29 اپریل 1986 کو عسکریت پسند تنظیموں کی یونائیٹڈ فرنٹ پنتھک کمیٹی نے کیا تھا۔اس کا سیاسی مقصد یوں بیان کیا گیا: ‘اس خاص دن پرمقدس اکال تخت صاحب سے، ہم تمام ممالک اور حکومتوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ آج سے ‘خالصتان’ خالصہ پنتھ کا الگ گھر ہو گا۔ خالصہ اصولوں کے مطابق تمام لوگ خوشی اور مسرت سے زندگی گزاریں گے۔”ایسے سکھوں کو حکومت چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں کی ذمہ داری دی جائے گی، جو سب کی بھلائی کے لیے کام کریں گے اور اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں گے۔’اب خالصتان کا مطالبہ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان ممالک میں رہنے والے سکھوں کی بہت سی تنظیمیں جو اس مسئلے کو مسلسل اٹھا رہی ہیں، لیکن پنجاب میں انھیں زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے۔سکھس فار جسٹس امریکہ میں مقیم ایک گروپ ہے۔ بھارتی حکومت نے 10 جولائی 2019 کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت اس پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ اس تنظیم کا علیحدگی پسند ایجنڈا ہے۔اس کے ایک سال بعد 2020 میں بھارتی حکومت نے خالصتانی گروپوں سے وابستہ نو افراد کو دہشت گرد قرار دیا اور تقریباً 40 خالصتان نواز ویب سائٹس بند کر دیں۔سکھس فار جسٹس کے مطابق ان کا مقصد سکھوں کے لیے ایک خود مختار ملک بنانا ہے، جس کے لیے گروپ سکھ برادری کے لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سکھس فار جسٹس کا قیام سال 2007 میں امریکہ میں عمل میں آیا۔ اس گروپ کا مرکزی چہرہ گروپتونت سنگھ پنوں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ اور تحریک ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اْسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی ایک انتہاپسندانہ جارحانہ مذہبی تاثر دیا گیا۔ اس جارحیت کا جواب کسی نہ کسی شکل میں آنا تھا۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ ہندو مذہبی احیاء کے سہارے ریاست چلانا چاہیں گے تو پھر دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی مزید آزاد ریاستوں کا مطالبہ کریں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر