... loading ...
جاوید محمود
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی دلدل کا ایک راج ہے اس وقت دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جو ماحولیات کے منفی اثرات سے متاثر نہ ہو،دنیا کے مختلف حصوں بشمول چین اور کینیڈا میں سیلابوں میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ آفات تیزی سے گرم ہوتے ماحول اور ہوا میں بڑھتی ہوئی نمی کے تناسب کی نشاندہی کرتے ہیں ۔سائنس دانوں کے مطابق ماضی کے مقابلے میں ماحول میں اب کہیں زیادہ طوبت ہے جو زیادہ بارش اور سیلاب کے بنیادی وجہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل میں مشرقی وسطی کے ممالک عراق ایران کویت اور اردن سبھی شدید آسمانی بجلی اور غیر معمولی بارش کے بعد تباہ کن سیلاب کی زد میں آئے تھے۔ ماہرین موسمیات نے بعد میں اندازہ لگایا کہ اس ہفتے میں ہوا میں نمی کی مقدار ریکارڈ سطح تک بڑھ گئی تھی جو 2005 میں رونما ہونے والی اسی قسم کی صورتحال سے کہیں زیادہ تھی دو ماہ بعد لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں صرف تین دنوں میں 500 ملی میٹر بارش ہوئی، آسمان سے اتنا پانی برسا کے انڈیز پہاڑ کے کچھ حصوں کی برف تک پگھل گئی اور اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پرسیلاب آیا ،جس نے نہ صرف سڑکیں اور پل تباہ کیے بلکہ پانی کی فراہمی کو بھی متاثر کیا۔ اس سے ایک سال قبل اور آسٹریلیا میں اتنی شدید بارشیں ہوئی تھیں کہ ملک کے سیاست دانوں نے اس صورتحال کو رین بم قرار دے دیا تھا۔ ان بارشوں اور سیلابی صورتحال کے سبب 20افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے ۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام واقعات آبی بخارات کے دریاؤں ایٹما سفیرک ریورز کے سبب ہو رہے ہیں جو زیادہ شدید اور تباہ کن ہوتے ہیں جا رہے ہیں۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ اس رجحان کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو سیلاب کا خطرہ لاحق ہے ان کا کہنا ہے کہ فضا میں موجود یہ اسمانی دریا جنہیں فضا میں اڑتے دریا بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل پانی کے بخارات کے لمبے اور چوڑے کالم ہیں جو عام طور پر ٹراپیکل علاقوں سے اٹھنے کے بعد دونوں کتب کی جانب بڑھتے ہیں ۔یہ زمین کی وسطی عرض بلد میں گھومتے آبی بخارات کا تقریبا 90 فیصد ہیں ایک اوسط ابی بخارات کا دریا تقریبا دو ہزار کلومیٹر لمبا اور 500 کلومیٹر چوڑا جبکہ تقریبا تین کلومیٹر گہرا ہوتا ہے ۔لیکن اب یہ مزید بڑے ہوتے جا رہے ہیں کچھ آبی بخارت کے دریا تو پانچ ہزار کلومیٹر سے زیادہ لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بادلوں کے برعکس یہ دریا انسانی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کیونکہ ہوا کے دوش پر سوار نمی کی شکل میں ہوتے ہیں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے ایک ماحولیاتی محقق برائن کاہن کہتے ہیں کہ انہیں انفرائیڈ اور مایکروویو فریکونسی کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں آبی بخارات اور اب بھی بخارات کے دریاؤں کا مشاہدہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ کے مشاہدات زیادہ مفید ہوتے ہیں ۔بڑے اور طاقتور آبی بخارات کے دریا شمالی امریکہ کے سب سے لمبے دریا میسیسیپی سے خارج ہونے والی نمی کی شرح سے 15 گنا زیادہ نمی خارج کر سکتے ہیں۔ پانی کے اخراجات کے حجم کے لحاظ سے اوسطا ًیہ دنیا کے سب سے بڑے دریا ایمیزون کے باقاعدہ بہاؤ سے تقریبا دو گنا ہے۔ اگرچہ اب بھی بخارات کے دریاؤں کا وجود ہمیشہ سے ہے تا ہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زیادہ پانی کے بخارات پیدا ہو رہے ہیں اور اس لیے یہ دریا شدت کا اختیار کر رہے ہیں اور اس قابل ہوتے جا رہے ہیں کہ وہ بہت کم وقت میں زمین پر بڑے پیمانے پر پانی برسا سکیں ۔اس کے علاوہ اب یہ تباہ کن سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 1960 کی دہائی سے لے کر اب تک عالمی سطح پر اب بھی بخارات میں 20فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ یہ شرح مسلسل بڑھ رہی ہے ۔جرمنی کی پورٹس ٹیم یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ نیوٹ آف جیو سائنسز کے ایک حالیہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ٹراپیکل جنوبی امریکہ شمالی افریقہ مشرقی وسطہ اور جنوبی مشرق ایشیا میں آبی بخارات کے دریا زیادہ طویل مدت تک برقرار رہ رہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی وجہ سے زمین پر نقصان دہ اثرات کے ساتھ زیادہ بارشیں ہو سکتی ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی خلیفہ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اپریل 2023 میں مشرقی وسطیٰ میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ مطالعہ کے نتائج کے مطابق ہائی ریزر لوشن سمیولیشن نے ابی بخارات کے دریاؤں کی موجودگی کا انکشاف کیا اور ان کی وجہ سے شمال مشرقی افریقہ مغربی ایران کی جانب تیزی سے بڑھنے کے باعث شدید بارشیں ہوئیں ۔سارا ایم والی جو برنال ان محققین میں سے ایک ہیں جنہوں نے یونیورسٹی آف پوسٹسٹریم کے مطالعے میں حصہ لیا ۔ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی دریا بننے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 194 کے بعد سے مشرقی ایشیا میں ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مڈا سکر آسٹریلیا اور جاپان میں یہ زیادہ شدت اختیار کر گئے ہیں۔ 2021 میں جنرل آف جیو فزیکل ریسرچ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مون سون کے موسم مارچ اور اپریل کے دوران مشرقی چین کوریا اور مغربی جاپان میں ہونے والی شدید بارشوں میں سے 80 فیصد تک واقعات کا تعلق آبی بخارات کی ندیوں سے ہے ۔دوسری جانب انڈیا میں ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ بحر ہند میں گرمی کے سبب جو بخارات پیدا ہوتے ہیں ان سے اڑتے دریا پیدا ہو رہے ہیں اور یہ اس خطے میں جون اور ستمبر کے درمیان ہونے والی مون سون بارشوں کو متاثر کر رہے ہیں ۔انڈین انسٹیٹیوٹ اف ٹراپیکل میٹرولوجی کے ماحولیاتی سائنس دان ڈاکٹر روکسی میتھیو کول کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں آبی بخارات کے یہ دریا گرم سمندروں سے آنے والی تمام نمی کو مختصر دورانیہ کے بارشوں کے ذریعے زمین پر برسا دیتے ہیں۔ یہ بارشیں چند گھنٹوں سے لے کر کچھ دنوں تک جاری رہ سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک بھر میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال سارے سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ صرف آبی بخارات کے دریا نہیں ہیں۔ اس کے پس پشت طوفان اور آندھیوں جیسے دوسرے عوامل بھی شامل ہیں۔ بدلتے ہوئے ماحولیاتی اثرات کے نتیجے میں اب بھی بخارات کے دریا اب نئے علاقوں اور مقامات تک پہنچ رہے ہیں ۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ آب و ہوا اور جیٹ اسٹریم مغرب سے مشرق کی طرف بہتی ہوئی ہوا کی ایک تیز تنگ لہر جو دنیا کو گھیرے ہوئے ہے کہ بدلتے ہوئے پیٹرن ہیں چلی کی یونیورسٹی آف والپرراشیو کے ماہر موسمیات ڈینیر بوز کرٹ کا کہنا ہے کہ ہواؤں اور جیٹ سٹریمز میں لہروں میں اضافہ کا مطلب ہے کہ یہ اپنی مخصوص راستوں سے بڑے پیمانے پر انحراف کر رہی ہیں۔ یہ آبی بخارات کے دریاؤں کو زیادہ پیچیدہ راستوں پر ڈال سکتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف خطوں پر ان کی مدت اور اثرات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔آبی بخارات کے دریاؤں کو ان کے حجم اور طاقت کی بنیاد پر سمندری طوفان کی طرح ہی پانچ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تمام آبی بخارات کے درمیان نقصان دہ نہیں ہیں خاص طور پر وہ جو کم شدت کے ہوں کچھ فضائی دریا فائدہ مند بھی ہو سکتے ہیں ۔اگر وہ ایسی جگہوں پر برسیں جو طویل مدت سے خشک سالی کا شکار ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے آبی بخارات کے دریاؤں کی نگرانی اور ان کی پیش گوئی زیادہ تر امریکہ کے مغربی ساحلوں تک محدود ہے جہاں کئی دہائیوں سے ان کے اثرات کا بخوبی مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ نے جنم لیا اور اب یہ دنیا بھر میں ماحولیاتی دلدل کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔