... loading ...
عماد بزدار
آج بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ آخر لکھنے کا فائدہ کیا ہے ؟ میرا لکھنا، میرے قلم سے نکلی یہ سیاہی،میرے الفاظ، آخر کس کام کے ؟ نہ میرے لکھے سے میرے حالات بدلتے ہیں، نہ ہی میری روزی روٹی کا انحصار اس پر ہے ۔ اس کے لیے تو میں دن بھر کسی سیٹھ کی نوکری کرتا ہوں، شام کو تھکا ہارا گھر لوٹتا ہوں ۔ پھر کیا ضرورت ہے اس اضافی بوجھ کی؟ آخر کیوں میں اپنا وقت اور توانائی ایسی باتوں میں ضائع کروں جن سے نہ کوئی مجھے ذاتی فائدہ ہے اور نہ ہی کسی انقلاب کا امکان؟
دنیا میں کوئی بڑی تبدیلی شاید میرے چند جملوں سے نہیں آنے والی۔ سرمایہ دار تو آج بھی اپنی منافع کی ہوس میں مگن ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو لوٹ مار کے بغیر سکون سے نہیں بیٹھتا، اپنے مفاد کے لیے کسی کو بھی روندنے کے لیے تیار رہتا ہے ۔ جاگیردار آج بھی اپنی زمین پر بسنے والے کسانوں پر وہی ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہیں جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔ ان کی طاقت اور استبداد میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ظلم کا سلسلہ مضبوط ہی ہوا ہے ۔ پھر میرے لکھنے کا فائدہ کیا ہے ؟ کیا میری تحریر سے یہ لوگ اپنی عادات بدل لیں گے ؟
پھر ہمارے نام نہاد دانشور، جن کے علم و فضل کی دنیا معترف ہے ، شاید ہی کبھی اپنی مراعات اور آسائشوں سے باہر نکل کر عام انسانوں کے دکھوں کی بات کریں۔ یہ دانشور اپنے مفادات کے دائرے میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ طاقتوروں کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت ہی نہیں کرتے ۔ سچ بولنے کے بجائے ، یہ طاقتوروں کے سہولت کار بننے میں آسودہ ہیں، کیونکہ یہی سہولت کاری ان کی روزی روٹی، آسائشوں اور عیش و عشرت کا ذریعہ ہے ۔ ان کے قلم اور زبان پر وہ مصلحت کی زنجیریں بندھی ہیں جو انہیں مظلوم کی حمایت کے بجائے ظالم کی خدمت پر مجبور کیے رکھتی ہیں۔ ان کی خاموشی ایک گونجتی ہوئی سازش بن جاتی ہے ، جس میں کمزوروں کی چیخیں دب کر رہ جاتی ہیں۔
آج بھی طاقتور طبقے اپنی برتری کے نشے میں چور، کمزور عوام کو محض ایک بے حیثیت ہجوم سمجھتے ہیں۔ اشرافیہ اپنے بلند و بالا محلوں میں بیٹھ کر ان کی زندگیوں کے دکھوں اور پریشانیوں سے یکسر بے نیاز ہیں۔ ان کے لیے عوام صرف ایک ایسے بے زبان وجود کی مانند ہیں جنہیں
صرف کام پر لگا دینا اور ان کی محنت کا صلہ چھین لینا ہی کافی ہے ۔ایسے میں، میرے چند لفظ، میری محدود سی سوچ، میرے قلم سے نکلی معمولی تحریر ان کے سنگ دل قلعوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے ؟ کیا یہ الفاظ ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتے ہیں، یا ان کے بے حس کانوں تک پہنچ سکتے ہیں؟
پھر، میں یہی سوچ کر رک جاتا ہوں۔ اگر میری تحریر کسی انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی، اگر میرے الفاظ سے کسی کے ضمیر پر اثر نہیں ہوتا، تو پھر آخر یہ سب کیوں؟ کیوں میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ان الفاظ میں ضائع کروں جو شاید کسی پر اثر نہیں ڈالیں گے ؟ کیا لکھنا واقعی میرا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ؟ لیکن جیسے ہی یہ سوچ میرے دل میں جنم لیتی ہے ، ایک سوال مجھے پھر بے چین کر دیتا ہے ۔ اگر میں خاموش ہو جاؤں، اگر میری آواز تھم جائے ، تو کیا میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا؟ کیا میری خاموشی اس ظلم کو روک سکے گی؟ کیا میں خود کو اس بات پر قائل کر سکوں گا کہ میرا حصہ پورا ہو گیا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ لکھنا میری ضرورت ہے ، میرے دل کی آواز ہے ۔ میرے دل کا سکون اسی میں ہے کہ میں اپنی سوچ کو، اپنے خیالات کو قلم کے ذریعے کاغذ پر اتار دوں۔ شاید میری تحریر سے دنیا میں کوئی بڑا انقلاب نہ آئے ، لیکن یہ مجھے اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ میں خاموش نہیں ہوں، میں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہا ہوں۔
تاریخ کو اگر ہم اٹھا کر دیکھیں تو یہ ہمیں بتاتی ہے کہ تبدیلی کبھی اچانک نہیں آتی۔ ہر بڑا انقلاب، ہر عظیم تبدیلی، چھوٹے چھوٹے قدموں سے شروع ہوتی ہے ۔ ان قدموں کو اٹھانے والے لوگ جانتے ہیں کہ ان کا سفر شاید ان کے جیتے جی مکمل نہ ہو، مگر وہ پھر بھی اپنی آواز کو خاموش ہونے نہیں دیتے ۔ یہی لوگ بیداری کی شمع روشن کرتے ہیں، اور یہی شمعیں دوسروں کو راستہ دکھاتی ہیں۔ شاید میرے لکھنے سے کچھ نہ بدلے ، لیکن میرا قلم اس بیداری کا ایک حصہ ہے ، ایک شمع ہے جو اندھیروں میں جلتی رہتی ہے ۔ میرا قلم ایک خاموش احتجاج ہے اس ظلم کے خلاف، اس استحصال کے خلاف جو معاشرے میں جاری ہے ۔ اگر میں خاموش ہو جاؤں، تو یہ اندھیرا اور گہرا ہو جائے گا۔
میں یہ بوجھ اپنے ضمیر پر نہیں اٹھا سکتا۔