وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

اتوار 17 نومبر 2024 بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

ریاض احمدچودھری

بھارتی وزارت دفاع نے فوج سے متعلق سوشل میڈیا پر غیر قانونی مواد کے بارے میں نوٹس جاری کرنے کا اختیار اب فوج کے سپرد کردیا۔اس مقصد کیلئے وزارت دفاع نے ایک اعلیٰ فوجی افسر، ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل سٹریٹجک کمیونی کیشن کو “نوڈل آفیسر” مقرر کر دیا۔یہ افسر آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 79(3)(b) کے تحت بھارتی فوج سے متعلق غیر قانونی مواد کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہٹانے کی درخواستوں سمیت نوٹس بھیج سکتا ہے۔
اس نوٹیفکیشن سے پہلے بھارتی فوج غیر قانونی مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کیلئے الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی وزارت پر انحصار کرتی تھی۔اس نوٹیفکیشن کے ساتھ، اے ڈی جی (سٹریٹجک کمیونی کیشن) اب کیسزکی شناخت کر سکتے ہیں اور بھارتی فوج سے متعلق غیر قانونی مواد کے بارے میں میڈیا پلیٹ فارمز کو براہ راست نوٹس بھیج سکتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ثالثوں پر منحصر ہوگا کہ وہ اس مواد کو کیسے ہینڈل کریں۔ اس طرح کے مواد کے اثرات فوری ہوتے ہیں اور الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی وزارت کے استعمال میں زیادہ وقت لگتا ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی فوج کو جب اپنا امیج خطرے میں نظر آتا ہے تو وہ قانون سازی کرتے ہیں، یہ تمام حقائق مغربی ممالک کیلئے بھی مثال ہیں جو بھارت کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتے ہیں کہ وہاں پر بھی فوج کو تحفظ دینے کیلئے قدغن لگائی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر کسی پیغام یا ویڈیو پر پابندی لگانے کے لیے کسی سیاسی جماعت یا تشدد برپا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی مذہبی تنظیموں کے طرف سے احتجاج یا ایک ایف آئی آر درج کرانا کافی ہے۔ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ کے اس دور میں بھارتی جمہوریت میں ریاست اور مذہبی تنظیمیں مخالفت اور کبھی کبھی نفرت انگیز پیغامات کو سنسر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کچھ روز قبل خود حکومت نے اعتراض کیا تھا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں آئیڈیاز اور خیالات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی لیکن اس دور میں بھی کچھ لوگ خیالات، نظریات، عقائد اور تصورات پر پابندی عائد کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ابتدائی طور پر انھیں کامیابی بھی ہو رہی ہے۔
بھارت کی سیاسی تاریخ میں پہلے ”سوشل میڈیا انتخابات” سمجھے جانے والے2014کے انتخابات نے بھارتی سیاست میں سوشل میڈیا انقلاب کی بنیاد رکھی۔2009 کے عام انتخابات سے قبل کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور جو قبل ازیں اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل کے طور پر بھی فرائض نبھا چکے تھے، ٹوئٹر پر اکائونٹ رکھنے والے واحد بھارتی سیاستدان تھے۔2014 کے انتخابات کے موقع پر تمام سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو نمایاں حد تک بڑھایا۔سوشل میڈیا استعمال کرنے والی ڈیجیٹل نسل کو متحرک کرنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی نے حریف جماعتوں کو بھی سوشل میڈیا روابط بہتر بنانے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً اب بھارت کی ڈیجیٹل اسپیس میں سیاسی رنگ کے حامل لاکھوں پیغامات موجود ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کا امکان بڑھاتے ہیں۔
بی جے پی چونکہ سوشل میڈیا کی دنیا میں برتری حاصل کرچکی ہے، اس سلسلے میں ہندوتا اس کی غلط معلومات پر مبنی مہم کا مرکزی نکتہ بن کے ابھرا ہے۔ بھارت میں غلط معلومات چار موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ ہندو قوم پرست نظریے کے گرد گھومتے ہیں: ”ہندو طاقت اوربرتری، (ہندو ثقافت کا) تحفظ اور احیائ ، ترقی اور قومی فخر، نیز نریندر مودی کی شخصیت اور بہادری۔”کسانوں کے حالیہ احتجاج کی حیثیت مشکوک بنانے کے لیے بی جے پی نے اپنے مسلح ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ”ریاست مخالف” پیغامات استعمال کیے تاکہ مخالفین کی آواز کو دبایا جاسکے۔ اسی سلسلے میں بی جے پی نے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو ”خالصتان کا حامی” دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نومبر2020میں بی جے پی کے آئی ٹی ونگ کے سربراہ امیت ملاویا نے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کیخلاف پولیس مظالم کے الزامات کے دفاع میں ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی۔ بعد ازاں ٹوئٹر نے اس ویڈیو کو غیر مستند قرار کیا۔ بعد ازاں بی جے پی رہنماؤں کی بڑی تعداد جن میں تاجیندر بگا (بی جے پی دہلی کے ترجمان)، ویرون گاندھی (بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ) اور ہریش کھرانہ (بی جے پی دہلی کے ترجمان) شامل ہیں، غلط معلومات کا پرچار کیا اور مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو خالصتان تحریک سے جوڑا۔
سوشل میڈیا کے پیغامات اور مواد پر قابو پانا دنیا کی کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ معلومات اور اطلاعات تک رسائی اور اس کی ترسیل کا یہ ایک ایسا جن ہے جو باہر آ چکا ہے اور جسے دوبارہ قید نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس نے پوری دنیا میں ہر شخص کو اپنے خیالات اور اظہار کی آزادی دی ہے۔ خیالات اور اظہار کا یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں۔اس پر قابو پانے کی کوشش ہواؤں کا رخ بدلنے کے مترادف ہے۔ جمہوری ملکوں میں بھارت کا شمار ان چند ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں اب بھی سیاسی جماعتیں، حکومت اور مذہبی گروپ فرد کی آزادی پر غالب آنے اور ان کی طرزِزندگی پر اپنے تصورات مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک نے گذشتہ دنوں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق بھارت نے پوری دنیا میں سب سے زیادہ فیس بک سے پیغامات ہٹانے کی درخواست کی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2014 میں بھارتی حکومت کی درخواست پر 5832 پیغامات کو ہٹایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''کیوں لکھوں''؟ وجود اتوار 17 نومبر 2024
''کیوں لکھوں''؟

بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول وجود اتوار 17 نومبر 2024
بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

خوشحالی یا تباہی وجود اتوار 17 نومبر 2024
خوشحالی یا تباہی

ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج وجود اتوار 17 نومبر 2024
ایٹمی پاکستان:امریکی اوراسرائیلی مفادات کا اصل چیلنج

اللہ خیر کرے! وجود هفته 16 نومبر 2024
اللہ خیر کرے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر