... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
اللہ خیر کرے یہ کیا ہورہا ہے کسی طرف سے بھی خوشی کی کوئی خبر نہیں آرہی بلکہ ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ کوئی نہ کوئی تشویش میں مبتلا کردینے والی خبر ہی سننے کو مل رہی ہے صرف ایک دن کی خبروں پر اگر نظر ڈالیں تو وحشت سی ہونے لگتی ہے ان میں سے چند ایک خبریں اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں بھی پیش کرونگا ۔خاص کر پنجاب کے خوبصورت، انتہائی محنتی اور ملنسار عوام دوست وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کے ایک بیا ن اور ان کے زیر سایہ چلنے والے نشتر ہسپتال ملتان کی ایک رپورٹ کے بعد میں شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمارے لیڈروں اور قائدین کی بیماریوں کا جن کاعلاج پاکستان میں تو کیا دنیا بھر میں کہیں موجود نہیں ہے ،سوائے دو ممالک کے اس بات کا بھی مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس بیان کے بعد علم ہوا جو انہوں نے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیا کہ میری گلے کی بیماری کا علاج دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے سوائے امریکہ اور سوٹرز لینڈ کے میں شکر اس لیے ادا کرتا ہوں حکومت نے جن غریب غربا اور مسکین قسم کے لوگوں کی خدمت کے لیے ہسپتال بنا رکھے ہیں وہاں شفا ملنے کی بجائے انسان اپنے ساتھ وہ بیماریاں بھی لے آتا ہے ،جن کاعلاج پوری دنیا میں کہیں نہیں سوائے موت کے انتظار کے خواجہ سلمان رفیق کا ذکر اس لیے کررہا ہوں کہ وہ اس وقت پنجاب کے وزرا میں سے سب سے بہتر اور کارآمد جارہے ہیں۔ وہ محکمہ صحت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن کرنہیں پارہے ۔شائد فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہورہا۔
اس وقت ہمارے ہسپتال موت بانٹ رہے ہیں جو مریض ان ہسپتالوں میں اپنا علاج کروانے آتے ہیں وہ صحت کی بجائے موت کا پروانہ لیکر رخصت ہوتے ہیں اسکی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ نشتر ہسپتال ملتان میں ڈائیلیسز کے 30مریض ایڈز کا شکار ہو گئے۔ اس سلسلہ میںہسپتال انتظامیہ کاکہنا ہے کہ ہسپتال کے ڈائیلیسز یونٹ میں ایڈز کے مریض کا ڈائیلیسز کیاگیاتھااور پھر اسی مشین پر دیگر مریضوں کا ڈائیلیسزکرنے سے وائرس باقی مریضوں میں بھی منتقل ہوگیا۔ بات گردوں کے مریضوں کی ہورہی ہے تو اسی مرض کے بارے میں خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 850 ملین افراد گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں ۔دنیا کی تقریباً دس فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے ۔پاکستان کی تقریباً 29 فیصد آبادی اس مرض کا شکار ہے۔ خواجہ صاحب نے یہ اعدادوشمار بتائیں ہیں جو حکومتی سطح پر سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی تعداد کے بعد اخذ کیے گئے ہونگے جبکہ اصل میں پاکستان میںگردوں کے مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جبکہ رہی سہی کسر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے خبردار کرتے ہوئے پوری کردی کہ اسموگ نے صحت اور زندگی کے معمولات پر منفی اثرات ڈالے ہیں ۔پاکستان میں اسموگ سے قبل ازوقت ڈھائی لاکھ اموات کا خطرہ ہے اور حکومت نے عوام کو اس خطرے کے سامنے بے سروسامانی کی حالت میں لاکھڑا کیا ہے ۔ہمارے وزیر اعظم میاں شہباز شریف صاحب نے بھی باکو میں ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستانیوں کے لیے مدد مانگتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے باعث پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ،اورموسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے اوردنیا نے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات پر پاکستان کی امداد کے وعدے بھی کررکھے ہیں ۔بلاشبہ ہم اس وقت تہہ در تہہ مشکلات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں جن سے نکالنے کے لیے ہمارے حکمران دن رات ایک کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان سے باہر جہاں بھی ہمارے یہ معزز حکمران جاتے ہیں وہاں پر موجود پاکستانی نہ صرف انہیں تنگ کرتے ہیں ،بلکہ توہین آمیز ویڈیو بنا کر آگے بھی شیئر کردیتے ہیں۔ گزشتہ روز سابق وزیر اعظم اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف صاحب نے شکوہ کیا کہ لوگ ان کی گاڑی کے پیچھے بھاگتے ہیں ،انہیں غلیظ گالیاں نکالتے ہیں اور ان کی طرف ٹماٹر اور انڈے پھینکتے ہیں، جبکہ ٹرین میں خواجہ آصف صاحب کے ساتھ جو گالم گلوچ کا واقعہ پیش آیا وہ بھی کسی طرح ٹھیک نہیں ،یہ لوگ ہمارے معزز حکمران ہیں اور دن رات ہماری خدمت میں مصروف ہیں، رہی بات عوام کی اسے دو وقت کی روٹی کے لیے دن رات گدھے کی طرح محنت کرنا پڑتی ہے، بلکہ اکثر اوقات گدھے والے ڈنڈے سے خوب مالش بھی کروانی پڑ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں آدھی سے زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہ رہی ہے جو زراعت کے شعبہ سے منسلک ہیں ۔یہ وہ مظلوم لوگ ہیں جو کئی کئی سال دو کپڑوں کے سوٹ اور ایک جوڑی جوتی کے سات گزارا کرتے ہیں ،جہاں سے کپڑا پھٹا یا جوٹی ٹوٹی وہیں سے سلوا لی اور اس بار تو پنجاب حکومت نے کسانوں کے ساتھ گندم نہ خرید کر ہاتھ کردیا ،وہ کیسے اس بارے میں چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین کا بیان پڑھ لیں حکومت نے اگر گنے کی قیمت مقرر نہ کی گئی تو 20نومبر کو پنجاب اسمبلی کے باہر بھرپور احتجاج کریں گے ۔پنجاب حکومت نے پہلے گندم کے معاملہ پر کسانوں کا دیوالیہ نکال دیا تھا ۔گندم کی کاشت پر کسان کا خرچ آتا ہے ۔چار ہزار اور مریم بی بی کہتی ہیں کہ 2600میں دے دیں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں گندم کی کاشت کم ہو رہی ہے جس کی وجہ گندم کی کاشت پر آنے والا خرچہ ہے اوراب کسان اپنی گندم کاشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔کیا پنجاب حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ گندم امپورٹ کر کے سستا آٹا فراہم کرے؟ یہی وجہ ہے کہ اب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ 20روپے کی روٹی 100 روپے کی ملے گی کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انہیں باہر سے بھی گندم نہیں ملے گی۔
آخر میں پاکستان ریلوے کے حوالے سے چند باتیں کرنا چاہوں گا کہ خدارا اس کی حالت بد لیں ،اسے ملتا ن کا نشتر ہسپتال نہ بنائیں جہاں ایک بیماری کا علاج کروانے والا دوسرے موذی مرض میں مبتلا ہو جائے اس وقت پاکستان ریلوے مسافروں کے لیے زحمت بنتا جا رہا ہے سہولیات ناپید ہونے سے سفر کرنے والوں کی جانب سے شکایات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ انکوائری والے تو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں یا محکمہ نے اس شعبہ کو ویسے ہی ختم کردیا ہے، جب بھی کسی ٹرین کے آنے اور جانے کے لیے 117پر رابطہ کرتے ہیں تو کئی کئی گھنٹے کوئی فون نہیں سنتا اور نہ ہی ٹرینوں میں موبائل چارجنگ کی سہولت ہے ،جب تک مسافر حضرات سفر میں رہتے ہیں ان کا باہر والوں سے رابطہ منقطع رہتاہے، کھانے پینے کی اشیا ناقص اور انتہائی مہنگی ملتی ہیں، اسٹیشنوں پر 3سے 4دن پرانی روٹیوں کو پانی لگاکر تازہ کردیا جاتا ہے۔ ریلوے کی حالت درست کرنے کے لیے بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ پاکستان ریلوے کے مختلف اسٹیشنز کی سکیورٹی کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے زیادہ تر کیمرے، اسکینرز اور دیگر آلات خراب ہوچکے ہیں۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر صرف چند پولیس اہلکار ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں اور کے رش کے باعث تمام مسافروں کا سامان چیک کرنا بھی ناممکن ہے ۔اسی طرح ریلویز پولیس کی ملک بھر کے تمام بڑے ریلوے اسٹیشنوں میں نفری کی تشویشناک حد تک کمی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے پاس آلات نہ ہونے کے برابرہیں ۔ملازمین ڈبل بلکہ ٹرپل شفٹوں میں ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہیں ۔چھٹی نہ ملنے سے کئی ملازمین بیمار بھی ہو چکے اور پھر ملک میں بیماروں کا جو حشر ہوتا ہے، وہ بھی سب کے سامنے اتنی افسوس ناک خبروں کے بعد عام لوگوں کا زندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ کیونکہ انہوں نے پاکستان میں ہی رہنا ہے اور یہاں کے ہسپتالوں سے ہی علاج کروانا ہے ۔بے شک وہ وہاں پر کسی اور موذی مرض میں مبتلا ہوجائے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ لوگ شکر ادا کریں جو پیسے نہ ہونے کے باعث کسی سرکاری ہسپتال میں نہیں جاتے بلکہ گھر وں میں ہی کوئی نہ کوئی ٹوٹکا آزما لیتے ہیں ۔